والیِ ریاستِ سوات میاں گل عبدالحق جہانزیب

سوات کی عظیم اور تاریخ ساز شخصیات میں سابق والئی سوات میاں گل عبدالحق جہاں زیب کا نامِ نامی سب سے زیادہ نمایاں اور غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے۔ ان کی شخصیت کا پیکر تراشتے وقت ان کی بہت سی خوبیاں اوراعلیٰ صفات نظروں کے سامنے جلوہ گر ہوتی ہیں۔ جن میں اُن کی جدید تعلیم اور روشن خیالی کا وصف خصوصی طور پر قابل ذکر ہے۔ انھوں نے نہ صرف سوات میں تعلیم کا حصول سہل بنا کر یہاں کے لوگوں کو علم و آگہی اور تہذیب و شائستگی کے زیور سے آراستہ کیا تھا بلکہ ریاستِ سوات کو بھی جدید ریاست کی شکل میں ڈھال دیا تھا۔ اس لیے خیبر پختون خوا کی تمام سابق ریاستوں میں سوات کے عوام سب سے زیادہ تعلیم یافتہ اور مہذب ہیں۔
سرزمینِ سوات کی یہ تاریخ ساز شخصیت 5 جون 1908ء میں پیدا ہوئی۔ جب وہ چار سال کے ہوئے، تو انھیں گھر پر قرآن شریف پڑھانا شروع کیا گیا۔ جب انھوں نے عمر کے پانچویں سال میں قدم رکھا، تو انھیں اعلیٰ تعلیم و تربیت کے لیے اسلامیہ کالجیٹ سکول پشاور بھیج دیا گیا۔ جہاں 1926ء میں انھوں نے ایف اے کا امتحان پاس کیا اور 2 مئی 1926ء میں سوات واپس آئے۔
1923ء میں صرف 15 سال کی عمرمیں ولی عہد کی بھاری ذمے داریاں اُن کے کندھوں پر ڈال دی گئیں اور وہ انٹر کرنے کے بعد اپنے والد میاں گل عبدالودود (بادشاہ صاحب) کی زیرِ نگرانی عملی سیاست اور ریاست کے نظم و نسق میں اُن کا ہاتھ بٹانے لگے۔
1940ء میں بادشاہ صاحب نے ولی عہد جہان زیب کی ذمے داریوں میں اضافہ کرکے، انھیں ریاستی فوج کا سپہ سالار مقررکیا۔ یوں والی صاحب کی ذمے داریاں روز بروز بڑھتی گئیں، اور انھیں ملکی نظم و نسق چلانے میں اپنے والد کے سنگ کئی اہم ذمے داریاں نبھانی پڑیں۔ چناں چہ 1943ء میں وزارتِ عظمیٰ کا اہم عہدہ بھی انھیں تفویض کردیا گیا۔ جب بادشاہ صاحب کو محسوس ہوا کہ اُمورِ مملکت کی تمام تر ذمے داریاں ولی عہد بہ خوبی ادا کرنے کے متحمل ہو چکے ہیں، تو انھوں نے 12 دسمبر 1949ء کو حکومت کی تمام ذمے داریاں والئی سوات محمد عبدالحق جہان زیب کے سپردکر دیں۔ اسی تاریخ کو وزیر اعظم پاکستان جناب نواب زادہ لیاقت علی خان(شہیدِ ملت) نے اپنے ہاتھوں سے والی صاحب کی دستار بندی کی۔

والئی سوات، صدر ایوب خان اور بادشاہ صاحب کی ایک یادگار تصویر۔ (Photo: Dawn)

14 اگست 1951ء میں والی صاحب کو پاکستان آرمی میں اعزازی بریگیڈئر کا عہدہ دیا گیا اور 1955ء میں انھیں میجر جنرل کے اعزازی عہدے سے بھی نوازا گیا۔ والئی سوات کوکشمیر میں نمایاں خدمات انجام دینے پر حکومتِ پاکستان نے انھیں غازئ ملت کا قابلِ فخر خطاب بھی عطاکیا۔ مارچ 1959ء میں انھیں ہلالِ قائد اعظم اور 1961ء میں ہلالِ پاکستان کے اعزازات سے نوازا گیا۔ 1962ء میں اٹلی حکومت نے انھیں ایک اعلیٰ اعزاز دیا۔ اس طرح انھیں حکومتِ پاکستان نے 15 توپوں کی سلامی کے ساتھ ’’ہزہائی نس‘‘ کا خطاب بھی دیا۔ سوات کو غیر معمولی تعلیمی ترقی دینے کی وجہ سے انھیں سلطان العلوم کا خطاب دیا گیا اور پشاور یونی ورسٹی کی طرف سے انھیں ایل ایل ڈی (ڈاکٹر آف لا) کی اعزازی ڈگری بھی دی گئی۔
28 جولائی 1969ء کو صدر یحییٰ خان نے ملک کی تمام ریاستوں کو پاکستان میں باقاعدہ مدغم کرنے کا اعلان کیا اور اسی سال 15 اگست کو والی صاحب کوبھی باضابطہ طور پر حکمرانی سے دست بردار ہونا پڑا۔ انھوں نے اپنے دورِ حکومت میں سوات اور اہلِ سوات کو اتنا کچھ دیا، جس کی مثال تاریخ میں بہت کم ملتی ہے۔ انھوں نے جدید تعلیم اور روشن خیالی کے باعث سوات کو ایک جدید ریاست بنانے کی پوری کوشش کی۔ سوات بھر میں سکول وکالج تعمیر کیے، طبی سہولتوں کی بہتر فراہمی کے سلسلے میں جگہ جگہ شفا خانے اور ہسپتال قائم کیے، مضبوط سڑکوں کا جال بچھایا، ڈاک وتار، بجلی، جنگلات، ریاست کے نظم ونسق، غرض ہر شعبۂ زندگی میں انھوں نے خوش گوار اور انقلابی تبدیلیاں برپا کیں۔ جس قدر ممکن تھا، انھوں نے ریاستِ سوات کو نئے دور کے جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کی بھرپور کوشش کی۔ اُن کے دور میں سوات نے صحیح معنوں میں غیر معمولی ترقی کی بے مثال منزلیں طے کیں۔
ریاستِ سوات کی طرزِ حکومت اگرچہ جمہوری نہیں بلکہ شخصی تھی، ہر قسم کی سیاسی سرگرمیوں پر مکمل پابندی عائد تھی اور ان سے اختلاف رکھنے والوں کو یا تو طاقت کے ذریعے دبایا جاتا اور یا انھیں ریاست بدر کردیا جاتا، لیکن اس کے باوجود امن و امان کی صورت حال مثالی تھی اور ریاست کے عام افراد کو انصاف کے حصول میں کوئی دشواری پیش نہیں آتی تھی اور اگر انھیں مزید حکومت کرنے دیا جاتا، تووہ ریاستِ سوات کو سوئٹزرلینڈ بنانے کا اپنا کیا ہوا عہد پورا کرتے۔
والئی سوات عام زندگی میں نہایت خوش خلق، ہمدرد، ملنسار اور اخلاص و محبت سے پیش آنے والے انسان تھے۔ انھیں کاروبارِ مملکت سے از حددل چسپی تھی۔ وہ اپنے دفتر میں وقت پر حاضری دیتے اور ان سے ہر شخص بڑی آسانی سے ملاقات کر سکتا تھا۔ حکم رانی سے سبک دوشی کے بعد اپنی زندگی کے آخری ایام میں ان کا رجحان مذہب کی طرف زیادہ ہوگیا تھا، اوراکثر موت کو یادکیا کرتے تھے۔ 14 ستمبر 1987ء کو ریاستِ سوات کے یہ آخری حکمران اور اُولوالعزم تاج دار بالآخر اپنے خالقِ حقیقی سے جاملے۔ (فضل ربی راہیؔ کی کتاب ’’سوات سیاحوں کی جنت‘‘ سے انتخاب)