ماسکو میں ہونے والے مذاکرات امریکہ اور طالبان کے درمیان ہونے والے امن مذاکرت سے علیحدہ ہیں۔ ان میں طالبان کے مندوبین کے علاوہ سابق افغان صدر حامد کرزئی اور حزب اختلاف کے دوسرے سرکردہ رہنماؤں نے بھی شرکت کی۔ افغان طالبان اسیروں کے مطالبے کے ساتھ ساتھ سنیئر رہنماؤں کو امریکی بلیک لسٹ سے نکالنے کا بھی مطالبہ کر رہے ہیں۔ تاہم حتمی معاہدے پر عمل درآمد سے قبل افغان طالبان جنگ بندی نہیں کرنا چاہتے۔ امریکی اور افغان سیکورٹی فورسز پر حملے بھی جاری ہیں اور افغان سیکورٹی فورسز بھی افغان طالبان پر حملے کر رہی ہیں۔ جنگ بندی اس وقت تک  ممکن نہیں ہے جب تک غیر ملکی افواج افغانستان سے مکمل انخلا نہ کرلیں۔ افغانستان میں افغان طالبان کے علاوہ دیگر متحارب اور سیاسی گروپوں کے درمیان اقتدار کی شراکت کے معاملے کے حوالہ سے باہمی مذاکرات وقت کی اہم ضرورت ہیں۔ اشرف غنی کے پاس اس بات کی کوئی ضمانت نہیں کہ مستقبل میں ہونے والے انتخابات میں ان کی حمایت یافتہ ہی کامیاب ہوں گے۔ اس بات کی توقع بھی کم نظر آتی ہے کہ افغانستان میں صدارتی انتخابات وقت مقررہ پر ہوجائیں گے۔ اس لیے امریکہ اور افغان طالبان کے درمیان معاہدہ ہونے کے بعد دیگر متحارب گروپوں سے بھی مذاکراتی دور نتیجہ خیز اس صورت میں ہوسکتا ہے جب تمام اسٹیک ہولڈرز ایک صفحے پر ہوں۔ پاکستان، ایران، چین، روس اور بھارت کے اپنے اپنے مفادات بھی افغانستان سے جڑے ہوئے ہیں، جس میں سب اہم کردار پاکستان اور ایران کا ہے۔ پاکستان، بھارت کے ملک دشمن مقاصد کی وجہ سے اہم تحفظات رکھتا ہے، جب کہ بھارت پاکستان کے خلاف مشرقی سرحدوں کے ساتھ ساتھ شمال مغربی سرحدوں سے بھی پاکستان کے خلاف شرانگیزی میں مصروف ہے۔ بھارت کی سازشوں کو روکنا بھی افغان امن عمل کا حصہ ہے۔ اشرف غنی کی جانب سے امریکی فوج کو انخلا سے روکنے کے لیے امریکی صدر کو لکھا جانا والا خط، خطے میں امن کے قیام میں اشرف غنی انتظامیہ کے مقاصد کو عیاں کرتا ہے۔ تاہم افغان طالبان کے سینئر رہنما اور قطر سیاسی دفتر کے ڈپٹی عبدالسلام حنفی نے ماسکو میں میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے قطر مذاکرات کے حوالے سے بتایا کہ امریکہ نے اتفاق کیا ہے کہ وہ اپریل تک افواج کی واپسی شروع کر دے گا۔ انہوں نے یہ بتایا کہ ماسکو کانفرنس میں اپوزیشن سیاسی جماعتوں میں اتفاقِ رائے پایا گیا ہے، کہ افغانستان سے غیر ملکی افواج کا انخلا ضروری ہے۔ حنفی نے یہ بھی واضح کیا کہ افغانستان میں اسلامی نظام کے علاوہ کوئی دوسرا نظام قابلِ قبول نہیں ہوگا۔ امریکہ اگر افغانستان سے اپنی نصف فوج اپریل کے اواخر تک واپس بلا لیتا ہے، تو افغان سیکورٹی فورسز کا عسکری مورال گر جائے گا۔ نئے سیکورٹی معاہدے کے بعد کابل انتظامیہ کی افغان طالبان اور دیگر گروپوں سے مقابلے کی طاقت مزید کم ہو جائے گی۔ تاہم امریکی صدر کے خصوصی ایلچی زلمے خلیل زاد نے امریکی افواج کی واپسی سے متعلق دیے جانے والے ماہِ اپریل کے ٹائم فریم دینے کی یقین دہانی سے انکار کیا ہے کہ ایسا کوئی معاہدہ نہیں ہوا۔
18 برس کی طویل جنگ میں افغان سیکورٹی فورسز کی استعداد کا اندازہ کلی طور پر ہوچکا ہے۔ اس لیے اہم خدشات یہی ہیں کہ امریکہ تو بہرصورت اپنی افواج کا انخلا کرے گا۔ اگر کوئی معاہدہ طے نہیں پاتا، تو موجودہ غنی انتظامیہ کے لیے مشکلات میں مزید اضافہ ہوجائے گا۔ ان 18 برسوں میں لاکھوں غیر ملکی "افغان جنگ” میں حصہ لے چکے ہیں۔
امریکی صدر ٹرمپ نے واپس آنے والے امریکی فوجیوں کی حالتِ زار کا جو نقشہ بیان کیا تھا، وہ انتہائی سبق آموز تھا۔ وہ ظاہر کرتا ہے کہ افغان جنگ سے دراصل کون تھک چکا ہے؟ اس وقت کئی مسلم اکثریتی ممالک، افغان طالبان پر امن کے قیام کے لیے دباؤ ڈال رہے ہیں۔ افغان طالبان کے مذاکراتی وفد میں جو سینئر رہنما شرکت کرچکے ہیں، وہ افغان طالبان کی سابقہ حکومت میں اہم عہدوں پر فائز رہ چکے ہیں۔ اس لیے نئے افغانستان میں افغان طالبان نے بھی کئی معاملات پر لچک کا مظاہرہ کیا ہے۔ قدامت پسندی و سخت گیر پالیسیوں میں تبدیلی کی جھلک عید الفطر میں جنگ بندی کے دوران میں نظر آئی تھی، جب افغان طالبان، عوام اور افغان سیکورٹی فورسز کے اہلکار تک بغل گیر ہوگئے تھے۔
افغانستان میں نیا نظام کیا ہوگا؟ اس پر افغان عوام کو اعتماد میں لینے کی ضرورت ہے۔ جس کے لیے جہاں افغان طالبان اپنے پلیٹ فارم کو استعمال کریں گے، تو سیاسی جماعتوں کے ساتھ باہمی مذاکرات سے افغان عوام کو مطمئن کیا جاسکتا ہے۔ موجودہ کابل حکومت کو امن کے قیام کے لیے کسی بھی ایسے عمل و تبصرے سے گریز اختیار کرنا چاہیے جس سے امن کی کوششیں متاثر ہوں۔

…………………………………………………………..

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com پر ای میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔