ریاستِ سوات میں خان اور مَلَک کی حیثیت

ابتدا میں خان اور مَلَک کا انتخاب لوگ اپنی آزادانہ مرضی سے خود ہی کرتے تھے لیکن جلد ہی یہ چیز موروثی ہوگئی، حالاں کہ نظری طور پر اب بھی یہ منصب لوگوں کی مرضی کے تابع تھا۔ میاں گل عبدالودود نے اس میں ایک بنیادی نوعیت کی تبدیلی کر دی۔ وہ یہ کہ لوگوں سے اس انتخاب کا حق چھین کر اسے انہوں نے اپنے ہاتھ میں رکھ لیا۔ جسے چاہا خان یا مَلَک بنا دیا۔ جسے چاہا اس حق سے محروم کر دیا۔ اب ان لوگوں کو حکومت کی طرف سے صرف مواجب ہی نہیں ملتے تھے بلکہ اپنے دائرۂ اختیار میں مجرموں سے لیے جانے والے جرمانہ کا ایک خاص حصہ بھی انہیں ملتا تھا۔ وہ اب سابقہ انداز میں کسی جھگڑے کا فیصلہ نہیں کرسکتے تھے۔ اگر وہ کرتے بھی، تو فریقین کو عدالت جانے کا اختیار حاصل تھا۔ مزید یہ کہ اب وہ اپنے لیے مضبوط ڈلے (دھڑے) بھی نہیں بناسکتے تھے۔ اکبر ایس احمد کے مطابق: "والی اور ریاست کے معرضِ وجود میں آنے کے بعد خوانین کو حاصل بہت سے اختیارات اُن سے چھن کر سرکاری انتظامیہ کے پاس چلے گئے۔ مثلاً محصولات اور بیگار کا حق۔ اس کے بدلہ میں ریاست مفت اسکول اور اسپتال کی سہولت فراہم کرتی تھی جب کہ خان کی حیثیت کسان اور ریاست کے درمیان ایک دلال جیسی ہوگئی۔”
یہ بات جزوی طور پر درست ہے لیکن محصولات اور بیگار لینے کا حق اب بھی قبل از ریاست دور کی طرح خان کو حاصل تھا بلکہ اس لحاظ سے عبدالودود نے اُن کی حیثیت کو مزید مستحکم بنا دیا۔ البتہ میاں گل جہان زیب نے اس حیثیت کو کسی حد تک کم کرنے کی ضرور کوشش کی۔ مثلاً اُس نے ہر ناقابلِ انتقال جائیداد کے مالک کو اپنی جائیداد کا مَلَک بنا دیا۔ اس طرح ریاست کے نامزد کردہ مَلَکوں اور خوانین کو لوگوں کی جائیداد پر حاصل حقوق کا خاتمہ ہوگیا۔ اسی طرح اُس نے خوانین کو مجبور کیا کہ وہ اپنے سابقہ حقوقِ ٹلگری (گروہی) یعنی اپنے متعلقہ گروہ پر حاصل حقوق سے دست بردار ہوجائیں (جنہیں اکبر ایس احمد کے بیان کے برعکس عبدالودود نے مزید مضبوط بنا دیا تھا)۔ اس سلسلہ میں ان سے تحریری بیانات لے لیے گئے۔ (کتاب ریاستِ سوات از ڈاکٹر سلطانِ روم، مترجم احمد فواد، ناشر شعیب سنز پبلشرز، پہلی اشاعت، صفحہ 210 سے انتخاب)