"تھری کپس آف ٹی” کے مصنف کا اصل چہرہ

گریگ مورٹینسن (Greg Mortenson) ایک امریکی فوجی اور کوہ پیما ہے۔ اپنی کتاب ’’تھری کپس آف ٹی‘‘ کے مطابق گریگ 1993ء میں پاکستان آیا اور دنیا کی دوسری سب سے اونچی چوٹی ’’کے ٹو‘‘ تک پہنچنے میں ناکام ہونے کے بعد اکیلا راستہ بھٹک کر شدید تھکاوٹ اور بیماری کی حالت میں شمالی علاقہ جات کے خطے سکردو کے گاؤں ’’خورپو‘‘ پہنچ کر بے دم ہوگیا، جہاں اسے مقامی بلتی رہائشی نیم بے ہوشی کی حالت میں اٹھا کر اپنے گھر لے گئے اور صحت یاب ہونے تک اس کی تیمارداری کرتے رہے۔ صحت یاب ہونے کے بعد ایک دن گریگ نے دیکھا کہ مقامی بچے زمین پر بیٹھے پڑھ رہے ہیں اور کچھ فرش پر موجود مٹی پر اپنا سبق لکھ رہے ہیں، توگاؤں کے اس منظر اور لوگوں کی خدمت نے اسے اتنا متاثر کیا کہ اس نے وہیں پر فیصلہ کیا کہ وہ ان بچوں کے لیے ایک سکول بنائے گا۔ امریکہ واپس آکر انسانیت کے جذبے سے سرشار وہ سکول کے لیے فنڈ جمع کرنے لگ گیا۔ بالآخر سیلیکون ویلی کے ’’جین ہرونی‘‘ نامی ایک معروف بزنس اونر اس سکول کو سپانسر کرنے پر راضی ہوگیا۔ جہاں سے گریگ مورٹنسن کی زندگی کا نیا سفر شروع ہوا۔ 1996ء میں اس نے پاکستان میں تعلیم کے فروغ کے لیے ’’سنٹرل ایشین انسٹیٹیوٹ‘‘ (سی اے آئی) نامی غیر حکومتی ادارہ (این جی او) قائم کیا۔ امریکہ بھر کے مخیر حضرات، سیاست دانوں، صحافیوں ’’اوپر اونفرے‘‘ جیسی میڈیا اینکرز یہاں تک کہ صدر اوباما سے بھی رابطہ کیا اور ان سے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر مدد مانگی۔ 2001ء میں افغانستان پر امریکی حملہ کے بعد گریگ نے افغانستان اور پھر تاجکستان کا بھی دورہ کیا۔ وہاں بھی سی اے آئی نامی این جی او کے آپریشن شروع کیے۔ انسانی ہمدردی کی بنیاد پر جنگ اور غربت زدہ علاقوں میں سکولوں کا قیام اور تعلیم سے محروم بچوں کو انتہا پسندی اور دہشت گردی کے ہتھے چڑھنے سے بچانے جیسے عظیم کام کرنے پر امریکی ڈونرز اس سے بہت خوش تھے۔ 2010ء تک سی اے آئی کو ملنے والے عطیات بڑھتے بڑھتے سالانہ 230 ملین ڈالر تک پہنچ گئے۔
عزیزانِ من، 2006ء میں گریگ کی کتاب ’’تھری کپس آف ٹی‘‘ کی غیر معمولی کامیابی نے اسے امریکہ کے مقبول ترین پبلک سپیکر کا درجہ دے دیا۔ اسے پاکستان اور افغانستان میں لڑکیوں کی تعلیم کے ناگفتہ بہ حالات کی کہانی سننے کے لیے امریکہ بھر میں مدعو کیا جانے لگا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب تحریکِ طالبان پاکستان وجود میں آئی اور لڑکیوں کے سکولوں کو تباہ کرنے کی داستانیں عالمی میڈیا کی زینت بننے لگیں۔ پاکستان اور افغانستان کے مفلوک الحال تعلیم سے محروم بچوں کے ساتھ گریگ کی قدِ آدم تصویریں اور ان کی حالت زار کا آنکھوں دیکھا حال امریکی عوام پر اتنا اثر کرتا کہ سکول کے بچے تک اپنا جیب خرچ اس کے حوالے کر دیتے۔2008ء سے لے کر 2011ء تک صرف 5 سالوں میں گریگ کو 700 ملین ڈالر کے عطیات ملے۔
عزیزانِ من، گریگ مورٹنسن کی اصلیت جان کر شائد آپ کو یقین بھی نہ آئے کہ یہ بندہ اتنا چالاک ہوسکتا ہے۔ درحقیقت گریگ کی کتاب ’’تھری کپس آف ٹی‘‘ سراسر من گھڑت جھوٹ پر مبنی ہے۔ پاکستان کے شمالی علاقے میں راستہ بھٹکنا، سکردو کے گاؤں خورپو پہنچ کر بے دم ہونے سے لے کر فاٹا کے علاقے میں اغوا کیے جانے تک سارے واقعات من گھڑت اور جھوٹے ہیں۔ ایسے جھوٹے واقعات گھڑ کر گریگ نے نہ صرف پڑھے لکھے انسانیت پسند امریکی عوام کو بلکہ بااثر امریکی سیاست دانوں تک کو متاثر کیا، اور ان سے پیسے بٹورے۔ یہاں تک کہ سابق امریکی صدر باراک اوباما نے بھی اپنے نوبل پرائز کی رقم سے ایک لاکھ ڈالر گریگ کی جھوٹی داستان پر نچھاور کیے تھے۔
بی بی سی کے مطابق تنظیم کی ویب سائٹ پر یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ سی اے آئی نے 170 سکول تعمیر کیے اور 68 ہزار بچوں کی تعلیم کا خرچہ اٹھا رہی ہے۔ بے چارے پاکستانیوں کو ان ہزار کروڑ روپے کی خبر تک نہیں تھی، جو گریگ پورے امریکہ میں دورے کرکے اکھٹا کررہے تھے۔ انہیں تو جو بھی مل جاتا شکر ادا کرتے تھے۔ گریگ نے جتنے بھی سکول بنانے کا دعویٰ کیا تھا، وہ سرے سے موجود ہی نہیں۔ گریگ کی این جی او تو صرف چند سکولوں کی اسٹیشنری، کتابوں اور ٹیچرز کی تنخواہوں کا انتظام کرتی ہے۔ باقی خیراتی رقم گریگ کی مہنگی ترین سفری اخراجات جن میں چارٹرڈ فلائٹس، اپنے اور اپنے خاندان کے لیے برانڈڈ اشیا کی خریداری اور یہاں تک کہ اپنی کتاب کے پروموشن پر خرچ ہو رہی تھی۔ جس کے لیے نیو یارک ٹائمز جیسے مہنگے اخبار میں متعدد پورے صفحے کے اشتہارات دیے جاتے تھے۔ بقول گریگ، ہم نے اپنی کتاب کے پروموشن پر 11 ملین ڈالر خرچ کیے۔ بالآخر اٹارنی جنرل کی تحقیقات شروع ہونے کے بعد این جی او کے بقیہ ڈائریکٹرز نے فوری طور پر گریگ کو ایگزیکٹیو ڈائریکٹر کے عہدے سے برطرف کر دیا، لیکن اس سارے معاملے کا سب سے تاریک پہلو یہ تھا کہ سب کچھ سامنے آجانے کے بعد بھی گریگ کو سزا نہیں ہوئی، بلکہ اٹارنی جنرل نے گریگ کو محض ملین ڈالر این جی او کو واپس کرنے کا حکم دیا جب کہ ان پر 23 ملین ڈالر کے خرد برد کا الزام تھا۔

گریگ مورٹینسن کی تصنیف شدہ کتاب "تھری کپس آف ٹی” (Photo: barnesandnoble.com)

گریگ کے فریب کی پوری داستان جاننے کے لیے آپ مشہور مصنف ’’جان کراکر‘‘ کی کتاب ’’تھری کپس آف ڈیسیٹ‘‘ پڑھ سکتے ہیں۔
عزیزانِ من، گریگ کی سرگذشت بیان کرنے سے کم ازکم آپ اتنا تو سمجھ چکے ہوں گے، کہ ہمارے ملک میں آج گلی گلی این جی اوز کام کر رہی ہیں، لیکن پھر بھی ہم تعلیم، صحت، روزگار، انصاف، ماحولیات اور دیگر شعبوں کی ترقی میں بہت پیچھے ہیں۔ اس کی اصل وجہ گریگ جیسے لوگ اور ان کی این جی اوز ہے، جو تعلیم، صحت اور روزگار وغیرہ کے نام پر صاحبِ ثروت لوگوں سے بڑی بڑی رقم وصول کرتی ہیں جس کی آدھی عوام الناس کی آگاہی مہم اور اپنی این جی او کے پروموشن پر خرچ کرتی ہیں، اور آدھی رقم اپنے پروٹوکول پر یعنی اپنے لیے عالیشان دفاتر، لگژری گاڑیاں ان پر مخصوص قسم کے لوگوز اور سب سے بڑھ کر بڑی بڑی تنخواہوں پر خرچ کرنا وغیرہ۔ بالآخر اس رقم کا انتہائی کم فیصد ضرورت مندوں پر خرچ کیا جاتا ہے۔ یہاں پر یہ بات بھی ذہن نشین کرنے لائق ہے کہ این جی اوز کے بارے میں ہمارے عوامی حلقوں میں ایک الگ تصور پایا جاتا ہے۔ وہ یہ ہے کہ جیسے ہی ہم این جی او کا نام سنتے ہیں، تو ہمارے ذہنوں میں یہودی سازشیں، انگریزی تہذیب، فحاشی اور اسلام دشمنی وغیرہ جیسے الفاظ آنا شروع ہوجاتے ہیں۔ حالاں کہ ایسا نہیں ہے، اس وقت ہمارے ملک میں ہزاروں کی تعداد میں این جی اوز برسرپیکار ہیں، جن میں عبدالستار ایدھی، عمران خان، انصار برنی، ابرار الحق، چیپا، الرشید اور الخدمت وغیرہ سرفہرست ہیں، یعنی ہر وہ ادارہ جو عوام اور اپنی مدد آپ کے تحت چلتا ہے، وہ این جی او کہلاتا ہے۔
این جی او کا نظام ہمارے اسلاف کے ہاں بھی رائج تھا۔ اسلام میں ابتدا ہی سے غریبوں اور حاجت مندوں کی دادرسی کے لیے زور دیا گیا ہے، تاکہ معاشرے کے کمزور افراد کو اپنے پیروں پر کھڑا کیا جاسکے۔ عہدِ ملوکیت کے دمشق میں ابنِ بطوطہ کی اس تحریر سے آپ اندازہ لگائیں کہ معاشرے کو مستحکم بنانے کے لیے اس وقت بھی ایسے ادارے موجود تھے۔ چناں چہ وہ فرماتے ہیں کہ دمشق میں وقف کی اقسام اور اخراجات کا شمار ممکن نہیں۔ یہاں ان لوگوں کے لیے بھی وقف موجود ہے، جو حج کے لیے مکہ کا سفر نہیں کرسکتے، شادی کا خرچہ، مسافروں کی خدمت، سڑکوں اور گلیوں کی مرمت، حتی کہ غلاموں کو آزاد کرنے کے لیے بھی وقف موجود ہے۔ مَیں نے دیکھا کہ ایک غلام کے ہاتھ سے برتن گرکرٹوٹ گیا، لوگوں نے اس سے کہا کہ اس برتن کے ٹکڑوں کو اٹھالو اور برتنوں کے وقف لے جاؤ۔
عزیزانِ من، تہذیب یافتہ اقوام ایسا ہی کرتی ہیں اور ایک مستحکم معاشرے کے لیے ایسے ادارے فعال رکھتی ہیں۔ رہیں باہر ملکوں کی تنظیمیں، تو انہیں’’انٹرنیشنل این جی اوز‘‘ کہتے ہیں۔ وہ بھی سبھی ایک جیسی نہیں ہوتیں۔ ان میں بیشتر نیک جذبے کے تحت کام کرتی ہیں اور باقی اپنی ثقافت کا پرچار کرتی ہیں، تاکہ پوری دنیا کے لوگ ایک جیسے ہوجائیں۔ ڈھیر ساری تنظیمیں ایک خطرناک ایجنڈا لے کر آتی ہیں، جو یا تو ملک کی معیشت پر وار کرتی ہیں، یا ملک کو جغرافیائی لحاظ سے یا ملکی سیاست کو غیر مستحکم کرتی ہیں اور یا پھر دین کو نشانہ بناتی ہیں۔ حکومتِ وقت کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ ملکی اور غیر ملکی تمام این جی اوز کو رجسٹرڈ کرے اور ان کا ایجنڈا معلوم کرے، جتنی بھی این جی اوز ملکی اور ملکی اداروں یا دین و تہذیب کے خلاف سرگرم عمل ہیں، انہیں فوری طور پر بند کریں۔ اگر حکومت ایسا کرنے میں ناکام ہو جائے، تو جو لوگ ان این جی اوز میں ملازم ہیں، انہیں چاہیے کہ کہ وہ بحیثیتِ پاکستانی اور بحیثیتِ مسلمان یہ سوچے کہ وہ کیوں اپنے ملک،اپنے لوگوں اور اپنے دین کے خلاف چند روپیوں کی خاطر غداری کرے، اور اپنی آخرت برباد کرے۔ ظاہر ہے کہ ان این جی اوز میں سارے ملازم تو جیک، مائیکل، یا پیٹرسن نہیں ہوسکتے۔
جاتے جاتے میری تمام گل خانوں، باز خانوں یا چودھریوں اور بٹ وغیرہ سے گذارش ہے کہ ملک اور دین کے خلاف ان این جی اوز کے آلہ کار نہ بنیں۔

………………………………………………….

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com پر ای میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔