کیلاش مذہب کی کوئی لکھی ہوئی کتاب موجود ہے نہ تحریری ضابطے۔ کیلاش کے ایک رہائشی اقبال شاہ جنہوں نے ایم ایڈ کیا ہے اور سکول میں استاد ہیں، کے مطابق انہوں نے کوشش کی ہے کہ کیلاشی کلچر اور مذہب کے لیے قاعدے اور قوانین بنائے جائیں، مگر ا س کے لیے محنتِ شاقہ اور بھاری بجٹ کی ضرورت ہے۔ بقولِ اقبال شاہ: ’’کیلاشی بچے عام سکولوں میں پڑھتے ہیں۔ ان کو قرآن کا ناظرہ پڑھایا جاتا ہے۔ مَیں نے خود سرکاری سکول میں تعلیم لی ہے۔ اسلامیات پڑھ چکا ہوں۔ مجھے دینِ اسلام کے تمام اصول اور ضابطے یادہیں۔ میرے کلاس فیلو اور دوست مسلمان تھے، جو ہر وقت مجھے کہتے کہ مسلمان ہوجاؤ۔ بعض دفعہ ان کے ساتھ اس بات پر تلخ کلامی بھی ہوجاتی۔ میں نے مذہبی نفرت کو قریب سے دیکھا اور سہا ہے۔ اب میں خود بھی سرکاری سکول میں پڑھاتا ہوں۔ میں نے کافی کوشش کی ہے کہ کیلاشیوں کے لیے الگ سکول ہوں، جہاں کیلاشی کلچر اور مذہب کی تعلیم دی جاتی ہو۔ میں نے بمبوریت کے ایک سکول میں کیلاشی بچوں کے لباس میں اسمبلی کرانے کا انتظام کیا ہے۔ کیلاشی بچے الگ بھی پڑھ رہے ہیں۔ یہ ہے کہ پرائیویٹ سکول میں کیلاشی بچوں کو الگ پڑھایا جاتا ہے، مگر سرکاری سکولوں میں اب بھی اسی روایتی طریقۂ کار کے مطابق پڑھائی کی جا رہی ہے۔ یہاں پر قاضی ہمارے مذہبی پیشوا ہیں۔ سبھی خاندانی قاضی ہیں۔ ان کوبھی کیلاشی مذہب کی ترویج کے بارے میں کوئی فکر نہیں۔ بس وہ روایتی پیشوا ہیں۔ ان کا علم بھی زیادہ کچھ اتنا زیادہ نہیں۔ اس کے علاوہ زیادہ تر قاضی بوڑھے ہوچکے ہیں۔ اول اول وہ کیلاشی مذہب کے بارے میں ایک طرح کی رائے رکھتے تھے، اب وقت گزرنے کے ساتھ دوسری طرح کی رکھتے ہیں۔ اس سے ہمیں دکھ ہوتا ہے۔ ہمیں اپنے مذہب کے مستقبل کے بارے میں فکر لاحق ہے۔‘‘
غیرملکی اداروں نے کیلاشیوں کی ترقی کے لیے بہت کام کیا۔ وہاں سڑکیں تعمیر کیں۔ بچوں کے لیے سکول کی عمارتیں تعمیر کیں۔ اس طرح کیلاشی لوگوں کے معاش کے لیے بھی اقدامات کیے، مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ان اداروں کو آزادانہ طوپر کام کرنے کی اجازت نہیں۔ مقامی لوگوں کے مطابق تین چار عشرے قبل یونان کی حکومت نے کیلاشیوں کے ڈی این اے نمونے حاصل کیے، توان کا سیمپل یونان کے کچھ لوگوں سے مل گیا۔ اس بنا پر یونان نے کیلاش کی ترقی کے لیے کافی کام کیا۔ یونانیوں نے بمبوریت میں کئی تعلیمی اداروں کی عمارات تعمیر کیں۔ اس کے علاوہ وہاں پر مذہبی عمارت کو بھی تعمیر کیا، جس پر یونانی زبان میں معلومات درج کی گئی ہیں۔ یونان کی مدد سے بمبوریت میں کیلاش قبیلے کا میوزیم بھی تعمیر کیا ہے، جس میں کیلاشیوں کی زیرِا ستعمال چیزیں رکھی گئی ہیں۔ مذکورہ میوزیم اب حکومتِ پاکستان کے زیرِا نتظام چل رہا ہے۔
کیلاشیوں کی فلاح وبہبود کے لیے کچھ عرصہ قبل ’’سپین‘‘ سے ’’جورڈی فیڈریکو‘‘ نامی ایک غیر ملکی آیا تھا، جس نے وہاں رہائش اختیار کی تھی۔ کافی عرصے تک وہ کیلاشیوں کی فلاح و بہبود کے لیے کام کرتا رہا۔ اس نے کیلاشی قوم پر تحقیق بھی کی، مگر سنہ 2000ء میں وہ اپنے ہی گھر میں مردہ پایا گیا، اس کا گلا کسی نے کاٹا تھا۔ کیلاشیوں کے مطابق انہوں نے آنجہانی ’’جور ڈی فیڈریکو‘‘ کے خاندان کو مطلع کیا۔ اُس کے خاندان والوں نے اس کو کیلاش ہی میں دفنانے کی خواہش ظاہر کی۔ بعد میں اسے یہاں ایک قبرستان میں دفن کیا گیا۔ قبر پراس کے نام کا کتبہ اب بھی موجود ہے۔ اس کی قبر پر کیلاشیوں کے عقیدے کے برعکس لکڑیوں کاجنگلا لگایا گیا ہے۔ کیلاشی اُس کو اپنی قوم کا محسن مانتے ہیں۔
……………………………………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com پر ای میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔