ریاستِ سوات کے مواصلات کا ایک اہم ذریعہ ٹیلی فون تھا۔ انگریز حکومت کی جانب سے باقاعدہ تسلیم کیے جانے سے قبل یہاں ٹیلی فون نظام کا قیام ممکن نہیں تھا۔ اس لیے کہ یہ سارا ان کے قبضہ میں تھا۔ دسمبر 1927ء میں پولیٹیکل ایجنٹ ملاکنڈ کے ایک بیان میں کہا گیا کہ باچا صاحب نے "لنڈاکے سے سیدو کو مربوط کر لیا ہے جہاں سے یہ لائن ملاکنڈ سے مربوط ہے۔” میاں گل جہان زیب ٹیلی فون سے اپنے باپ کے تعلق کے بارے میں کہتے ہیں کہ "لوگوں سے رابطہ کے لیے وہ بالعموم ٹیلی فون کا استعمال کرتے تھے۔ انہوں نے یہ نظام قائم کرنے کی ابتدا 1926ء میں کر دی تھی۔ اس سے کہیں پہلے وہ اس کو شروع کرسکتے تھے لیکن انگریز حکومت اس کی اجازت نہیں دیتی تھی، اِس لیے کہ ابھی تک انہوں نے اُسے باقاعدہ حکمران تسلیم نہیں کیا تھا۔ وہ ہر شام لوگوں کو ٹیلی فون کرکے اُن سے حالات معلوم کرتے کہ کیا ہو رہا ہے، وغیرہ وغیرہ۔  اس طرح وہ ہر کسی سے قریبی رابطہ میں رہتا تھا اور ریاست بھر میں تمام حالات سے باخبر رہتا تھا۔”
ریاست میں اپنے احکامات کے نفاذ کے لیے اُن کے پاس واحد ذریعہ زبان سے ادا کیے گئے الفاظ تھا، جیسا کہ ایک روایتی قبائلی طریقہ تھا۔ دور دراز علاقوں میں اُس کے حکام مسلسل بذریعہ ٹیلی فون اُن سے رابطہ میں رہتے تھے۔ اس لیے کہ وہ پڑھے لکھے نہیں تھے۔ ریاست کے لیے اس کی اہمیت کے علاوہ یہ عام لوگوں کے لیے بھی باہمی رابطہ کا ایک اہم ذریعہ بن گیا تھا۔ 1947ء میں کل پانچ "ایکسچینج” تھے۔ کل کنکشنوں کی تعداد 160 تھی۔1957ء میں ایکسچینجوں کی تعداد بڑھ کر دس ہوگئی اور کنکشنوں کی تعداد 292 تک پہنچ گئی۔ 1967ء میں ایکسچینج بڑھ کر 17 ہوگئے اور کنکشنوں کی تعداد 589 تک پہنچ گئی۔ 1968ء میں ایکس چینج تو 17 ہی رہے، لیکن کنکشن بڑھ کر 597 ہوگئے۔

اس  طرح محکمۂ ڈاک کی خدمات کو دور دراز علاقوں تک پہنچایا گیا تھا، لیکن اس محکمہ کی ترقی بہت زیادہ قابلِ تعریف نہیں تھی۔ اور سرکاری ریکارڈ میں بدعنوانی کے کچھ ایسے معاملات کا ذکر بھی موجود ہے جب کسی پوسٹ ماسٹر نے منی آرڈر کی رقم میں خردبرد کی ہو۔ 1947ء اور 1948ء میں پوسٹ آفسوں کی تعداد 7 تھی۔ 1957ء اور 1958ء میں یہ تعداد بڑھ کر 23 ہوگئی۔ اور 1967ء اور 1968ء میں کل پوسٹ آفس 39 تھے۔ (کتاب “ریاستِ سوات” از ڈاکٹر سلطانِ روم، مترجم احمد فواد، ناشر شعیب سنز پبلشرز، پہلی اشاعت، صفحہ  203 تا 204 انتخاب)