موسم سرما کے ابتدائی دن تھے۔ 16 اکتوبر 1951ء کی شام راولپنڈی کی کمپنی باغ میں وزیراعظم پاکستان کو مسلم لیگ کے جلسۂ عام سے خطاب کرنا تھا۔ وزیراعظم صاحب کے پنڈال پہنچنے پر مسلم لیگ کے ضلعی رہنماؤں نے شان دار استقبال کیا، لیکن صوبائی اور مرکزی رہنماؤں میں سے اس وقت کوئی بھی موجود نہیں تھا، جس سے شاید وزیراعظم صاحب کوکچھ اندازہ ہوا ہوگا کہ آج کا موسم بڑا بے ایمان سا ہے، لیکن وہ بھی نوابزادہ تھا۔ پیچھے نہیں ہٹا۔جوں ہی وہ مائیک پر آیا اور برادرانِ ملت کے الفاظ سے اپنی تقریر کا آغاز کیا، تو اگلی صف میں بیٹھے ایک بدبخت شخص نے پستول نکال کر وزیراعظم پر یکے بعد دیگرے دو گولیاں چلائیں۔ وزیراعظم گر پڑا۔ فضا میں مائیکرو فون کی گونج لحظہ بھر کو معلق رہی۔ اگلے پندرہ سیکنڈ تک ریوالور اور رائفل کے ملے جلے فائر سنائی دیتے رہے۔ اس وقت تک لوگوں نے قاتل کو پکڑ کر اس سے پستول چھین لیا تھا، مگر پولیس انسپکٹر نے سرکاری پستول سے قاتل کو سینے میں پانچ گولیاں مار کر اسے قتل کر دیا (یا شاید ثبوت مٹا دیا)۔ اس وقت وزیر برائے امور کشمیر کی گاڑی جلسہ گاہ میں داخل ہو رہی تھی جس میں وزیراعظم کو ملٹری ہسپتال پہنچا کر ’’شہید‘‘ قرار دیا گیا۔
عزیزانِ من، جسے ہمارے ملک کا پہلا شہید قرار دیا گیا۔ وہ کوئی اور نہیں بلکہ پاکستان کے پہلے وزیراعظم نوابزادہ لیاقت علی خان تھا۔ جنہیں مسلم لیگ کے روحِ رواں بانیِ پاکستان قائداعظم محمد علی جناح نے منتخب کیا تھا۔ 1924ء میں قائداعظم کی زیرِ صدارت مسلم لیگ کا لاہور میں اجلاس منعقد ہوا۔ اسی اجلاس میں لیاقت علی خان بھی شریک ہوا جس کا مقصد مسلم لیگ کی تنظیمِ نو کرنا تھا۔ 1926ء میں لیاقت علی خان اُترپردیش کی قانون ساز اسمبلی کا رکن منتخب ہوا۔ 1940ء میں مرکزی قانون ساز اسمبلی کا رکن منتخب ہوا۔ 1936-37ء کے انتخابات کے سلسلے میں مسلم لیگ نے جمیعت علمائے ہند سے سمجھوتا کر لیا تھا جس پر لیاقت علی خان نے سخت برہمی کا اظہار کیا کہ ’’یوپی‘‘ (اُتر پردیش) میں انہیں مسلم لیگ کے امیدوار چننے کا اختیار نہیں رہے گا۔ قائداعظم کے اس فیصلے کے خلاف احتجاجاً انہوں نے یوپی پارلیمانی بورڈ کی رکنیت سے استعفا دے دیا، مسلم لیگ سے ٹکٹ لیے بغیر انتخاب لڑ کر کامیاب ہوگئے اور دوبارہ مسلم لیگ میں شامل ہوگئے۔ 1940ء کے بعد قائد اعظم کی مصروفیت کی وجہ سے عملی طور پر لیاقت علی خان ہی اپنے گروپ کے قائد تھے جس پر قائد اعظم فرماتے تھے کہ لیاقت علی خان میرا دایاں بازو ہے۔ اکتوبر 1946ء کو مسلم لیگ کے نامزد کردہ پانچ ارکان نے ہندوستان کی عبوری حکومت کے لیے حلف اٹھایا، تو لیاقت علی خان فنانس ممبر منتخب ہوگئے۔ 15 اگست 1947ء کو انہوں نے پاکستان کے پہلے وزیر اعظم کا حلف اٹھایا، اور 1 6اکتوبر 1951ء تک پاکستان کے وزیراعظم رہے۔
لیاقت علی خان ہندوستان کے ضلع کرنال کے سب سے بڑے جاگیردار اور نواب تھے لیکن انہوں نے تقسیمِ ہند کے بعد نہ صرف اپنی جائیداد چھوڑ دی بلکہ پاکستان آکر کوئی کلیم بھی نہیں لیا۔ خان صاحب کی پاکستان میں کوئی زمین، کوئی بینک اکاؤنٹ نہیں تھا۔ دو اچکن، تین پتلون اور بوسکی کی ایک قمیص تھی۔ ان کے پتلونوں پر بھی پیوند لگے ہوتے تھے ۔ شہادت کے بعد جب ان کی نعش پوسٹ مارٹم کے لیے لے جائی گئی، تو وہ لوگ یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ وزیراعظم نے جو بنیان پہن رکھی تھی، وہ پٹھی ہوئی تھی اور ان کے جرابوں میں بڑے بڑے سوراخ تھے۔ خان صاحب اکثر اپنے درزی اور کریانہ سٹور کے بھی مقروض رہتے تھے۔
عزیزانِ من! اسلاف کے اس نمونے کو شہید کرتے وقت مسلم لیگ کے مرکزی رہنما جلسہ گاہ میں موجود نہیں تھے۔ دیگر حکومتی عہدیداروں میں سیکرٹری خارجہ ایک خاص مشن پر ہالینڈ میں بیٹھے انتظار کر رہے تھے۔ فوج کے سربراہ جنرل ایوب خان لندن میں تھے اور سیکرٹری دفاع اسکندر مرزا کراچی میں ٹینس کھیل رہے تھے۔ اس عظیم لیڈر کے قتل کی ایف آئی آر درج ہوئی، نہ تفتیش کی گئی اور نہ مقدمہ ہی چلایا گیا۔ اسی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے لیاقت علی خان سے لے کر محمد نواز شریف تک کسی بھی وزیراعظم کو اپنا آئینی مدت پورا نہیں کرنے دیا گیا۔ 1951ء سے لے کر 1958ء تک چھے وزرائے اعظم بدلے گئے جس پر ہندوستان کے وزیراعظم جواہر لعل نہرو کہتے تھے کہ میں تو اتنی جلدی دھوتیاں نہیں بدلتا جتنی جلدی پاکستانی وزیراعظم بدلتے ہیں۔ بالآخر 8 اکتوبر 1958ء کی درمیانی شب پاکستان کے پہلے صدر اسکندر مرزا نے آئین معطل، اسمبلیاں تحلیل اور سیاسی جماعتیں کالعدم قرار دے کر ملک کی تاریخ کا پہلا مارشل لا لگا دیا اور اس وقت کے آرمی چیف ایوب خان کو مارشل لا ایڈمنسٹریٹر مقرر کردیا۔ ایوب خان نے بدلے میں اسکندر مرزا کو جبراً ملک بدر کرکے صدرِ مملکت کا عہدہ بھی سنبھال لیا جو مارچ 1969ء تک برقرار رہا، لیکن عوامی دباؤ اور احتجاج کے باعث انہوں نے مجبوراً عہدہ چھوڑ دیا۔ ان کی جگہ چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر یحی خان نے لے لی۔ قومی اسمبلی کے انتخابات دسمبر 1970ء میں مکمل ہوچکے تھے۔ اس کے باوجود یحی خان نے اقتدار منتقل نہیں کیا، ٹال مٹول سے کام لیتے رہے جس کے باعث 16 دسمبر 1971ء کو پاکستان دولخت ہوگیا۔ اس کے بعد ایوب خان کے دور میں وزیرِ تجارت، وزیرِ اقلیتی امور، وزیر صنعت و قدرتی وسائل اور وزیر خارجہ کے قلم دان پر فائز رہنے والے ذوالفقار علی بھٹو سقوط ڈھاکہ کے بعد 1971ء میں پاکستان کے صدر اور 1973ء میں وزیراعظم کے عہدے پر فائز ہوئے، مگر امیر کے پاؤں کے نیچے سے غریب کا گلا چھڑانے والی اس عہد ساز شخصیت ذوالفقار علی بھٹو پر بھی رحم نہیں کیا گیا۔ افواجِ پاکستان کے سپہ سالار جنرل ضیا نے 4 اور5 جولائی کی درمیانی شب بھٹو حکومت ختم کرکے ملک میں ایک بار پھر مارشل لا نافذ کر دیا اور بھٹو صاحب کو عدالت کے ذریعے پھانسی دی گئی۔
عزیزانِ من! دو دفعہ محترمہ بینظیر بھٹو وزیر اعظم منتخب ہوئیں لیکن آئینی مدت پوری کرنے سے پہلے صدرِ پاکستان کی تلوار سے اس کی حکومت پر ضرب لگائی گئی اور تیسری مرتبہ وزیراعظم منتخب ہونے سے پہلے ہزاروں لوگوں کے بیچ قتل کی گئی۔ صوبہ پنجاب کے وزیر خزانہ، کھیل اور وزیر اعلیٰ رہنے والے محمد نواز شریف کو پہلی مرتبہ وزارتِ عظمیٰ کے عہدے سے صدرِ پاکستان اور دوسری مرتبہ فوجی جرنیل نے آئینی مدت پوری کرنے سے پہلے برطرف کردیا اور تیسری مرتبہ بندوق کی نوک کی بجائے فاضل جج صاحبان کے قلم کی نوک سے جمہوریت کا گلا کاٹ کر پارلیمنٹ کے سربراہ کو آئینی مدت پوری کرنے سے پہلے نااہل قرار دے کر اس روایت کو برقرار رکھا گیا۔
عزیزانِ من! سوال یہ ہے کہ آمریت اور جمہوریت کی اس کشمکش میں کیا عمران احمد خان نیازی بطورِ وزیراعظم اپنی آئینی مدت پورا کر پائے گا؟ تاریخ کا مطالعہ کرنے سے، تو ہمیں پتا چلا ہے کہ نوابزادہ لیاقت علی خان، ذوالفقار علی بھٹو اور نواز شریف جیسے تجربہ کار اور طاقتور وزرائے اعظم کو آئینی مدت پوری نہیں کرنے دی گئی، تو یہ نیازی کیا چیز ہے؟ اس پر تو سب سے پہلے یہ سوال لازم آتا ہے کہ کیا یہ بندہ وزیراعظم بننے کے قابل ہے؟ ایک ذی شعور انسان اگر لیاقت علی خان، ذوالفقار علی بھٹو اور نواز شریف کی سیاسی تاریخ پڑھ لے، تو وہ یہ جان لے گا کہ یہ حضرات وزیراعظم بننے سے پہلے کتنے وزارتوں پر فائز رہے ہیں اور اس کے برخلاف نیازی صاحب کرکٹ کھیلنے کے بعد کسی حکومتی منصب پر رہے بغیر سیدھا وزیراعظم بنا دیے گئے، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ملکی معیشت کا پہیہ رک گیا۔ ڈالر اور اونچی اڑان اڑھ رہا ہے، بیوروکریسی کام نہیں کررہی، ترقیاتی منصوبے آگے نہیں بڑھ رہے، بڑی بڑی کمپنیاں بحران کا شکار ہو رہی ہیں، رئیل اسٹیٹ انڈسٹری منجمد کردی گئی ہے، مہنگائی کا پلڑا بھاری ہوتا جا رہا ہے اور آپ کے کشکول میں اب تک صرف سعودی عرب نے قرضہ ڈال دیا ہے جو آپ کھا بھی گئے ہیں۔ اس کے باوجود آپ اتنے نشے میں رہتے ہیں کہ آپ کی بیوی کو یاد دلانا پڑتا ہے کہ وزیراعظم تو آپ ہیں۔ آپ کی طرح آپ کا نااہل وزیر اعلیٰ معصوم بچوں سے تعزیت کرتے وقت پھول لے جاتا ہے اور ان معصوم بچوں کو انصاف دلانے کی بجائے ان سے دو کروڑ روپے کا سودا کرتاہے۔ کیا دن کے اجالے میں بے گناہ لوگوں کو قتل کر کے ان کے وارثوں کو انصاف کی بجائے پیسوں کی آفر کرنا تہذیب ہے، کیا یہ انسانیت ہے؟
نیازی صاحب چند مہینے سپورٹ کرنے پر آپ اتنے خوش نہ ہوں، مولانا سمیع الحق اور ساہیوال جیسے واقعات کو نوٹ کرکے آپ کے لیے سکرپٹ لکھا جا رہا ہے۔ پھر وہ ایمپائر چچا خود ہی انگلی اٹھا کر اشارہ کردے گا کہ کپتان نیازی کلین بولڈ ہوچکے۔ بھٹو صاحب کے خلاف مولویوں سے جو تحریکیں نکلوائی تھیں اس کی آپ کو ضرورت نہیں پڑے گی۔ آپ پر تو پہلے سے ہی یہودی ایجنٹ کا ایک عدد فتوا موجود ہے۔ رہے آپ کے وہ اعلیٰ عدلیہ والے تایا ابو، اگر وہ آپ کے لیے پورے مینڈیٹ کو نااہل کرسکتے ہیں، تو وہ آپ کو علیمہ باجی کے بھائی ہونے پر بھی نااہل کرسکتے ہیں۔ نااہل تو آپ ہوں گے ہی، لیکن اس سے پہلے آپ ہوش کے ناخن لیں اور عوام کے لیے کچھ کریں، تاکہ نااہلی کے بعد عوام سے ملنے کی کوئی گنجائش باقی رہے۔ شہید لیاقت علی خان کے ان آخری الفاظ کے ساتھ اجازت چاہوں گا کہ ’’خدا پاکستان کی حفاظت کرے۔‘‘
………………………………………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com پر ای میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔