آریا کا نام ہم اکثر سنتے، دیکھتے اور پڑھتے ہیں لیکن یہ اصل میں نہایت مبہم اور غلط اصطلاح ہے۔ جن لوگوں پر یہ نام چسپاں کیا جاتا ہے، ان کی اکثریت آریا نہیں بلکہ آریاؤں کے دشمن تھی۔ اس سلسلے میں ہند کے محقق پروفیسر محمد مجیب نے کہا کہ ’’ہمیں آریا کی اصطلاح استعمال کرنا ہی نہیں چاہیے، لیکن اب یہ غلط اصطلاح اتنی مروج ہوچکی ہے کہ اسے ترک کرنا بہت مشکل ہے۔ آریا نہ تو سارے کے سارے بلند قامت، نیلی آنکھوں اور سرخ و سفید رنگت اور سرخی مائل بالوں والے تھے اور نہ ہند یا ایران میں ان کی نسل خالص تھی۔‘‘ (تاریخ تمدن ہند)
پروفیسر مذکورہ اور دیگر علما یہ تو کہتے ہیں کہ آریا کہلانے والے سارے آریا نہیں، لیکن ان کے پاس کچھ زیادہ ٹھوس دلائل بھی نہیں اور ہو بھی نہیں سکتیں۔ کیوں کہ وہ بنی نوع انسان میں اس گروہی تقسیم کو سمجھ ہی نہیں سکے جو انسانی نسل کے ہر چھوٹے بڑے واقعے کے پیچھے کارفرما ہے۔ اور اس گروہی تقسیم کو ہم بار بار زیرِ بحث لاتے رہے ہیں جس کی ابتدا آدم و ابلیس سے ہوئی۔ خاکی و ناری، گوشت خور اور غلہ خور، زراعت کار و مویشی پال، شہری اور صحرائی، امن پسند اور جنگ پسند اور رعیت و حاکمیت کے متوازی و متصادم گروہوں میں موجود چلی آ رہی ہے اور ہمیشہ ہر واقعے کی بنیاد رہی ہے۔
آریا بھی دراصل دو گروہ تھے، شہری اور صحرائی یا خانہ بدوش اور بستیوں والے متمدن زرعی۔ ان میں زراعتی اور متمدن آریا تو واقعی آریا ہیں، لیکن خانہ بدوش صحرائی گروہ کا نام اساک ہے۔ اور ہند میں جو آریا تھے، وہ دراصل آریا نہیں، بلکہ اساک تھے، اصل آریاؤں کے مخالف اور دشمن۔ سب سے پہلے تو یہ نام کبھی واضح ہی نہیں ہوسکا کہ اس لفظ ’’آریا‘‘ کے اصل معنی کیا ہیں؟ کیوں کہ ہند میں آنے والے اور آباد ہونے والے تو آریا کی تشریح یوں کرتے ہیں کہ ’’اصیل، نجیب، شریف، بہادر، پاک طینت اور تمام انسانی صفات کے حامل۔‘‘ لیکن یہ تو ہر حملہ آور اور بالادست اپنے آپ کو کہتا ہے۔ جرمنی کے نازی نظریات کے مطابق بھی اس لفظ کے یہی معنی ہوتے ہیں جو آریائیت کے سب سے بڑے علمبردار ہیں، لیکن یہ تو تقریباً وہی بات ہے جو ابلیس نے کہی تھی۔ خود کو برتر اور آدمیوں کو کمتر کہنے والی پہلی آواز اس ابلیس کی تو تھی۔ ابلیس کے نام کے ساتھ ہوسکتا ہے کہ کچھ لوگوں کے اذہان میں طرح طرح کے خیالات آئیں، لیکن ابلیس کسی ذات، کسی نسل یا کسی ماورائے بشریت چیز کا نہیں بلکہ ایک سرشت، ایک طبیعت اور ایک مزاج کا نام ہے۔
ہند یا جرمنی کے نظریات اس حد تک تو ٹھیک ہیں کہ خود کو اچھا کہا جائے، لیکن اس کے ساتھ ہی اگر دوسرے کو حقیر کہا جائے، تو یہ ایک ابلیسی سوچ ہے۔ جہاں تک خالص آریائی خون کا تعلق ہے، تو یہ بھی ایک مفروضہ ہے۔ جس وقت ہٹلر نے برتری کا یہ دعویٰ کیا تھا، تب سے ایک امریکی محقق جے کے آرنلڈ نے پرانے آریاؤں کے مقبروں کی کھدائیاں کیں۔ ان قبروں سے باقیات اکھٹا کرکے اس نے کیمیائی تجزیات کیے اور یہ ثابت کیا کہ جس وقت جرمنی والے یہ برتری کا دعویٰ اور ’’خالص خون‘‘ کی بات کر رہے تھے، اس سے صدیاں پہلے بھی کہیں پر اصلی آریائی خون کا وجود نہیں تھا اور اس میں ملاوٹیں ہوچکی تھیں۔ (سعد اللہ جان برقؔ کی کتاب ’’پشتون اور نسلیاتِ ہندوکش‘ مطبوعہ ’’سانجھ پبلی کیشن‘‘ جلد اول، صفحہ نمبر 252 اور 253 سے انتخاب)