کیلاشی قبیلے میں صفائی کا خاص خیال رکھا جاتا ہے۔ گھر میں خواتین اور مرد نہاتے تو ہیں، مگر وہ گھر کے اندر کنگھی نہیں کرسکتے۔ بال سنوارنے کے لیے خواتین دور ایک مخصوص جگہ ’’بشالینی‘‘ جاتے ہیں، وہاں صفائی کے ساتھ بال سنوارتے بھی ہیں۔ ایک کیلاشی کے مطابق جب میاں بیوی حقِ زوجیت سے فارغ ہوتے ہیں، تو وہ کسی بھی کھانے کی چیز کو ہاتھ نہیں لگاتے۔ سب سے پہلے غسل کرتے ہیں۔ جب صاف ہو جاتے ہیں، تب کہیں جاکر کھانا یا دیگر ضروریاتِ زندگی کے امور سرانجام دیتے ہیں۔ خواتین خواہ وہ شادی شدہ ہوں، یا غیر شادی شدہ، مخصو ص ایام میں ’’بشالینی‘‘ جاتی ہیں اور وہاں قیام پذیر ہوتی ہیں۔
قارئین، بشالینی کیلاشیوں کی اس عمارت کا نام ہے جہاں پر صرف خواتین کو اندر جانے کی اجازت ہوتی ہے۔ اپنے مخصوص ایام میں وہ وہاں کمروں میں رہتی ہیں۔ ان کو گھروں سے تیار کھانا دیا جاتا ہے، یا وہ خود بھی وہاں تیار کرسکتی ہیں۔ جب ان کے مخصوص ایام گزر جاتے ہیں، تو وہاں غسل کرکے اپنے گھر واپس چلی جاتی ہیں۔
ایک خاتون کے بقول، لوگ سمجھتے ہیں کہ کیلاشی مرد یا ان کے خاندان اس طرح کی خواتین سے کراہت یا نفرت کا اظہار کرتے ہیں، تو یہ بالکل غلط ہے۔ دراصل یہ ہماری ایک رسم ہے۔ اس سے خواتین کو فائدہ ہوتا ہے۔ کیوں کہ مخصوص ایام کے دوران میں ان سے کسی قسم کا کام نہیں لیا جاتا۔ یہ پانچ، چھے دن ان کے لیے ایک قسم کے آرام و سکون کے دن ہوتے ہیں۔ اس دوران میں وہ بہت خوش ہوتے ہیں۔ ’’بشالینی‘‘ میں کوئی کام نہیں کرنا پڑتا۔ آرام ہی آرام ہوتا ہے۔ اب تو باقاعدہ وہاں پر اِن ڈور گیمز بھی کھیلے جاسکتے ہیں، جن میں کیرم بورڈ، لوڈو وغیرہ شامل ہیں۔ دوسری خواتین نے اس حوالہ سے بتایا کہ وہاں انڈین فلمیں اور ڈارمے بھے دیکھے جاسکتے ہیں۔ من پسند کھانے بنائے جا سکتے ہیں۔
بشالینی میں چونکہ دوسری خواتین بھی ہوتی ہیں، تو وہ آپس میں دکھ درد بانٹتی ہیں۔ اس طرح جو خواتین وہاں نہیں جاتیں، تو وہ ایک قسم گناہ کی مرتکب ہوتی ہیں اور ان پر اس کے بدلے قہر نازل ہوتا ہے۔ ان کے مویشی مرجاتے ہیں۔ ان کے گھر میں برکت نہیں ہوتی۔ کچھ اس طرح کا ان کا عقیدہ ہے جس پر تمام خواتین یقین رکھتی ہیں۔
پاکستان بھر سے لوگ چترال کے اس منفرد قبیلے کے رسم و رواج کو دیکھنا چاہتے ہیں۔ اس طرح ملکی و غیر ملکی سیاح بھی وہاں کا رُخ کرتے ہیں۔ حکومتِ پاکستان نے ان سیاحوں کے لیے کوئی خصوصی پالیسی تو نہیں بنائی، مگر وہاں جانے والے سیاحوں سے اچھی خاصی پوچھ گچھ ضرور ہوتی ہے۔ خاص کر غیر ملکیوں کے دستاویزات کی چانچ پڑتال کی جاتی ہے۔ میڈیا کے لوگوں کو ایک خاص ’’اجازت نامہ‘‘ لینا پڑتا ہے، جو ڈی سی چترال جاری کرتا ہے۔ بصورتِ دیگر کوریج کی اجازت نہیں ہوتی۔ تہواروں کے موقعوں پر سیکورٹی کے اہلکار تعینات کیے جاتے ہیں جن میں خفیہ سیکورٹی اہلکار بھی موجود ہوتے ہیں۔ وہاں پر سیاحوں کے کاغذات کی چانچ پڑتال کسی بھی وقت کی جاسکتی ہے۔ میڈیا کے لوگوں سے ’’اجازت نامہ‘‘ بھی طلب کیا جاسکتا ہے۔
کیلاش قبیلے کے تین بڑے مراکز میں ’’بمبوریت‘‘ کو اس وجہ سے اہمیت حاصل ہے کہ وہاں پر ڈھیر سارے ہوٹل ہیں، جن میں پی ٹی ڈی سی بھی شامل ہے۔ ان میں سیاح قیام کرسکتے ہیں۔ ہوٹلوں میں کھانے پینے کی اشیا بھی ملتی ہیں۔ ہوٹل مالکان سیزن کے مطابق ہوٹل کے کمرے کا کرایہ وصول کرتے ہیں جوکہ پندرہ سو سے لے کر پانچ ہزار تک ہوتا ہے۔ رش زیادہ ہونے کی صورت میں کرایہ اور کھانے کی اشیا کو بھی مہنگاکر دیا جاتا ہے۔ گرمیوں کے تہوار ’’چلم جوش‘‘ میں سیاحوں کی آمدبہت زیادہ ہوجاتی ہے، جس کی وجہ سے ہوٹل مالکان سیاحوں کے لیے خیمے لگاتے ہیں۔ بعض کیلاشی اپنے گھروں کے ساتھ بنے کمرے بھی کرایہ پر دیتے ہیں۔

بمبوریت، کیلاش کا سب سے خوبصورت علاقہ ہے۔ (Photo: edenpak.blogspot.com)

جس طرح بتایا جا چکا ہے کہ کیلاش قبیلے کے لوگ پُرامن ہوتے ہیں، چوری چکاری اور جرائم نہ ہونے کے برابرہیں، مگر وہاں پر مقیم مسلمان بعض اوقات ناخوشگوار ماحول پیدا کیا کرتے ہیں۔ کیلاشی، مسلمانوں سے کافی خوف زدہ ہیں۔ وہ کھل کر مسلمانوں کے خلاف کچھ بھی نہیں بولتے، نہ کسی کیلاشی مسلمان کو اپنے تہواروں میں بلاتے ہیں۔ خاص کر وہ کیلاشی خواتین جو مسلمان ہوگئی ہیں، ان کو بالکل اجازت نہیں کہ وہ کیلاش کے کسی بھی تہوار میں ان کے ساتھ رسوم ادا کریں۔ جب کہ باہر ملکوں سے آئے ہوئے یا پنجاب سے تعلق رکھنے والے سیاح کیلاش قبیلے کے لوگوں کے ساتھ رقص بھی کرسکتے ہیں اور ان کے ساتھ گا بھی سکتے ہیں۔
کیلاشیوں سے یہ بھی معلوم ہوا کہ مقامی مسلمانوں کی اس لیے اجازت نہیں ہوتی کہ کسی قسم کی تلخی پیدا نہ ہو۔ کیوں کہ وہاں پر مسلمان زیادہ ہیں اور کیلاشیوں کی تعداد کم، جس سے ان کی زندگی کو خطرہ لاحق ہوسکتا ہے۔
بمبوریت میں قیام پذیر ’’مسلمان‘‘ میڈیا کے لوگوں کو اچھی نظر سے نہیں دیکھتے۔ خاص کر غیر ملکی میڈیا کو، کیوں کہ ان کا خیال ہے کہ غیر ملکی میڈیا بھی کیلاشیوں کی طرح کافر ہے اور وہ مسلمانوں کے خلاف منفی رپورٹنگ کرتا ہے کہ مقامی مسلمان زبردستی کیلاشیوں کو مسلمان بناتے ہیں۔ بمبوریت سکول کے ایک استاد جو دینی تعلیم دیتا ہے، کے مطابق وہ بھی پہلے ’’کافر‘‘ تھا۔ بعد میں اس کے والدین مسلمان ہوگئے۔ اس نے کہا کہ اگر سب کیلاشی مسلمان ہوجائیں، تو اس میں کیا مضائقہ ہے، اس سے کسی کو کیا تکلیف ہے؟
پہلے تبلیغی جماعت کے لوگ کیلاشیوں کے پاس جاتے تھے، مگر حکومت نے اب وہاں مذکورہ جماعت پر پابندی لگا رکھی ہے، جب کہ کیلاشیوں کا کہنا ہے کہ ان کو تبلیغی جماعت والے ہراساں کرتے تھے۔ میرے مشاہدے کے مطابق یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ کیوں کہ ان کے محلوں اور آبادی کے قریب مساجد بن چکی ہیں اور مقامی مسلمان جو پہلے کیلاشی تھے، ان کو باقاعدہ طور پر دعوت دیا کرتے ہیں۔ بعض مولوی حضرات باقاعدہ جمعہ کے خطبہ میں ان کے مذہب پر تنقید کرتے ہیں جس سے ان کی دل آزاری بھی ہوتی ہے۔ کیلاشیوں کے مطابق پاکستان کے آئین کی رُو سے ان کو حق حاصل ہے کہ اپنی مذہبی رسومات آزادانہ طورپرادا کریں۔ کیلاشیوں کے مطابق وہ مسلمانوں کے ساتھ انتہائی دوستانہ تعلق رکھتے ہیں۔ تمام کیلاشیوں کو مسلمانوں کے مذہب کے بارے میں بہت کچھ معلوم ہے۔ اس لیے وہ مساجد اور مذہبی جگہوں کے تقدس کا خیال رکھتے ہیں۔ مسلمانوں کے تہواروں عیدین، رمضان، عید میلاد النبیؐ کے مواقع پر خاص خیال رکھتے ہیں کہ مسلمانوں کے جذبات مجروح نہ ہوں۔ کیلاشی کہتے ہیں کہ ان کو معلوم ہے کہ شراب مسلمانوں کے لیے حرام ہے، مگر اس کے باجود بڑی تعداد میں مسلمان ان سے شراب خریدنے آتے ہیں اور پیتے بھی ہیں۔ پھر بھی کیلاشی، مسلمانوں کے کسی بھی کام میں مداخلت نہیں کرتے۔ اگر ان کے پاس مسلمان آئیں، تو بطورِ مہمان ان کی خاطرخواہ عزت کی جاتی ہے اور کوشش کی جاتی ہے کہ مسلمانوں کو ان کے مذہب کے مطابق حلال اشیا کھلائی جائیں۔(جاری ہے)

…………………………………………………………………

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com پر ای میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔