موسیقی کی مختصر سی تاریخ مختلف حوالوں سے

موسیقی انسان کے ساتھ ہزاروں سالوں سے سائے کی طرح چلی آ رہی ہے۔ بالفاظِ دیگر انسان اور موسیقی کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ یہ مخلوق کے لیے خالق کی طرف سے ایک تحفہ ہے۔ محققین، موسیقی کے ارتقائی عمل کو پرندوں کی میٹھی بولی سے جوڑتے ہیں، جس میں کوئل کی کوک، چڑیوں کی چہکار، مورکی چنگھاڑ اور ان آوازوں کے ساتھ ان کے ناز و نخرہ نے ہماری توجہ ان کی طرف دلائی اور اک طرح سے ان کی اہمیت انسان کے لیے بڑھائی۔ پرندوں میں سے ایک ’’ققنس (ایک روایتی خوش رنگ اور خوش آواز پرندہ، کہتے ہیں کہ اس کی چونچ میں 360 سوراخ ہوتے ہیں، ہر سوراخ سے ایک راگ نکلتا ہے، مترجم، بحوالہ فیروز اللغات) کی آواز سے ماہرینِ موسیقی نے سُر نکالے ہیں۔‘‘ ققنس کو سنسکرت زبان میں ’’ دپیک لاٹ‘‘ کہتے ہیں۔ پشتو زبان میں ہمارے ساتھ ’’لاٹو‘‘ کے نام سے ایک پرندہ مشہور ہے، جو ہر قسم پرندے کی آواز نکال سکتاہے۔
یہودیوں کا کہنا ہے کہ حضرت داؤد علیہ السلام کے گلہ مبارک سے 70 قسم کے نغمے نکلتے تھے۔
جان داروں پر موسیقی کے اثر کے حوالے سے ابوریحان البیرونی اپنی کتاب ’’ کتاب الہند‘‘ میں رقم طراز ہیں: ’’میں نے راگ کے ذریعے شکاری کو ہرن کا زندہ شکار کرتے ہوئے دیکھا ہے۔‘‘
حضرت داتا گنج بخش ہجویری ؒ اپنی شہرہ آفاق تصنیف ’’کشف المحجوب‘‘ میں ایک جگہ لکھتے ہیں: ’’موسیقی ہرن کے شکار کو آسان کر دیتی ہے۔‘‘
ہندوستان کے پرانے شکاری بھالو اور جنگلی ہرن کے شکار کے لیے موسیقی کا سہارا لیا کرتے تھے۔ یوں اگر دیکھا جائے، تو سپیرا سانپ کو پکڑنے کے لیے بھی ’’بین‘‘ ہی کا استعمال کرتا ہے۔ سانپ بین کی آواز پر اپنے بِل سے نکل آتا ہے اور بین کی دھن پر ناچنے لگتا ہے۔ اونٹ جسے صحرائی جہاز بھی کہتے ہیں۔ شتربان اس کے گلے میں ’’جرس‘‘ (گھنٹی) باندھ کر اس کی مدد سے منزلیں طے کرتا جاتا ہے، مگر اونٹ تھکنے کا نام نہیں لیتا اور ’’جرس‘‘ کی دھن میں مست چلتا جاتا ہے۔
عام مشاہدے میں آیا ہے کہ دیہاتوں میں عیدین یا ملک میں سالانہ تقریبات کے موقع پر سرکس اور میلوں میں شعبدہ بازوں کے ساتھ بندر، بھالو وغیرہ ہوتے ہیں جن کو وہ ’’ڈگڈگی‘‘ کی دھن پر نچاتے ہیں۔ اس طرح بٹیر کے شکار کے لیے شکاری ’’تپچہ‘‘ (پشتو کا لفظ ہے، طبل کے اسمِ تصغیر کے طور پر مستعمل ہے) سے بٹیر کی آواز کو پیدا کرتے ہیں اور اس کو پکڑنے کی کوشش کرتے ہیں۔
دوسری طرف افلاطون کا قول ہے کہ ’’موسیقی روح کی غذا ہے، جو غمزدوں کا دل بہلاتی ہے۔‘‘
ابنِ سینا جو ایک کیمیا دان تھا، موسیقی کا رسیا تھا۔ اس کی کتابوں میں بھی موسیقی کی پسندیدگی کے حوالے ملتے ہیں۔
امام غزالی ؒ اس حوالہ سے فرماتے ہیں: ’’موسیقی دل کے تاروں کو چھیڑ کر محبت کو جگاتی ہے۔‘‘ وہ اپنی کتاب ’’ احیاء العلوم‘‘ میں لکھتے ہیں: ’’جس کی آواز میں سُر ہو، اس کو موسیقی کے میدان میں آنا چاہیے، تاکہ اس کی سُریلی آواز سے لوگ مستفید ہوں اور اس سے مزے لیں۔‘‘
خوشحال خان بابا موسیقی کو ایک ہنر گردانتے ہیں اور موسیقی سے شغف نہ رکھنے والے کو مریض کہتے ہیں۔
اس طرح حضرت داتا گنج بخش ہجویری ؒفرماتے ہیں: ’’موسیقی انسان کو اللہ تک پہنچا دیتی ہے۔‘‘
ولی اللہ نظام الدین چشتیؒ موسیقی کو تذکیۂ نفس کا بہترین ذریعہ گردانتے ہیں۔
مولانا ابو الکلام آزاد نے دس سال کی عمر میں استاد ’’مستیا خان‘‘ سے ستار بجانا سیکھا تھا۔ وہ کہتے تھے کہ شاعری اور موسیقی ایک حقیقت کے دو الگ نام ہیں، جو دماغ کے ساتھ ساتھ وجود کی جملہ بیماریوں کا علاج ہیں۔ اس طرح ڈاکٹر ہردیال ہندی کا کہنا ہے کہ موسیقی دلوں میں نفرت کو کم کرکے محبتوں سے بھر دیتی ہے۔ گاندھی جی دوستوں کی گروہ کوموسیقار کے بغیر مردہ کہتے تھے۔ شیکسپئر کہتے ہیں کہ محبت کی نیا وہی پار لگا سکتا ہے، جو موسیقی سے شغف رکھتاہو۔ ’’ڈارون‘‘ جب بوڑھا ہوا، تو وہ کفِ افسوس ملتا رہتا کہ اے کاش، ایک بار پھرجوانی آئے اوروہ موسیقی سیکھ لے۔ ’’مولٹیر‘‘ موسیقی کو محبت اور لگاؤ کہتا ہے۔ ’’بوفن‘‘ کا کہنا ہے کہ موسیقی انسان کی سوچوں سے نکل کر نس نس میں جگہ بنا لیتی ہے۔ ’’ہوگو‘‘ کہتے ہیں کہ موسیقی زندگی کی ایک خوب صورت تفسیر اور میٹھی تعبیر ہے۔ ’’انتھونی فریمن‘‘ کا کہنا ہے کہ دنیا کے ہر ملک میں موسیقی ہونی چاہیے۔ علاؤالدین خلجی بھی موسیقی سے گہری دلچسپی رکھتے تھے اور اُن کے دربار میں وقت کے بہترین موسیقار موجود رہتے تھے۔ سلطان غیاث الدین کا موسیقی کے ساتھ لگاؤ کا یہ عالم تھا کہ اس کی فوج اپنے ساتھ سونے سے بنا نقارہ لیے پھرتی تھی۔ اس طرح شیرشاہ سوری کو بھی موسیقی سے گہری دلچسپی تھی۔ اس کے دربار سے وابستہ شیخ عبدالوحید بہت بڑے عالم اور مشہور موسیقار تھے۔
وطن پر جب بھی دشمن کی میلی نظر پڑی ہے، تو سرحدوں پر اُن کے ناپاک عزائم کا منھ توڑ جواب دینے کے لیے نوجوانوں کو توپ کے سامنے کھڑا کرنے کا جذبہ، موسیقی کی دھنوں ہی سے بیدار کیا گیا ہے۔ جو قوم اپنی زبان اور موسیقی نہیں رکھتی، وہ دوسروں کا غلام بن جاتی ہے۔ مذکورہ تمام اقوال یہ ثابت کرتے ہیں کہ موسیقی ذہن کو رنگین خیالات سے بھر کر محبت کا درس دیتی ہے۔ (ماہنامہ’’لیکوال‘‘ پشاور میں جنوری 2019ء کو فضل وہاب دردؔ کا شائع شدہ پشتو تحقیقی مضمون ’’د موسیقی لنڈہ پیجندنہ‘‘ کا اُردو ترجمہ)

………………………………………………………………

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com پر ای میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔