اس انوکھے نظامِ تقسیم کے پیچھے نیک نیتی کار فرما تھی لیکن اس میں کئی قسم کے نقائص تھے۔ اے ایچ میکموھن اور اے ڈی جی رمزے اس کا جائزہ لیتے ہوئے کہتے ہیں: "چاہے قبائلی اور گروہی نظم و نسق برقرار رکھنے کے لیے یہ نظامِ کار بہ ظاہر کتنا ہی شان دار کیوں نہ لگے، اسی طرح ایک پٹھان قبیلہ کی تنازعات پسندی اور نتیجتاً خون آشام فطرت کی تسکین کا اس میں کتنا ہی سامان کیوں نہ ہو، لیکن جہاں تک تہذیب و تمدن کی ترقی کا تعلق ہے تو اُس کے لیے اس عارضی نوعیت کے انتظام زمین کے نظام سے زیادہ تباہ کن نظام کا تصور بھی ناممکن ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ زمین کا عارضی مالک کم سے کم قیمت پر اُس کا زیادہ سے زیادہ خون نچوڑ سکے۔ اُسے کیا پڑی ہے کہ کل کو پرائی ہونے والی اس زمین کو زرخیز بنانے کے جتن کرے، اس پر پیڑ اُگائے، یا کسی موجودہ پیڑ کو محفوظ کرنے کی کوشش کرے یا کوئی باغ لگائے، تاکہ کل کو کوئی دوسرا آکر اُس کی محنت کا پھل کھائے۔ اسی طرح اپنی عارضی قیام گاہ کی تعمیر کے لیے مٹی گارے اور گھاس پھونس کے علاوہ مضبوط قسم کے اجزا کا استعمال بڑی حماقت ہی ہوسکتی ہے۔ اسی طرح سنگین چار دیواری جس پر حملہ آور کی گولیاں اثر انداز نہ ہوں تعمیر کرنا بھی عقل و دانش سے دوری ہی کی علامت ہوسکتی ہے۔ اس نظام کے برے نتائج ہر طرف نظر آتے ہیں۔ کہیں باغات ہیں نہ سر سبز و شاداب درخت، صرف مزاروں کی حدود میں کچھ پیڑ نظر آتے ہیں۔ مساجد تک ارزاں ترین اجزا سے بنائی گئی ہیں۔ گارے مٹی اور پتھر کی بھدی دیواریں اور گھاس پھونس کی چھت، اور ایک جانب ایک صحن۔ زمانۂ قدیم سے جو زمینیں آب پاشی کے کسی نظام کے تحت ہیں، ان میں بہتری یا اضافہ کی کوئی کوشش نہیں کی گئی۔ اکثر زمینیں بارانی ہیں۔ حالاں کہ بہت سے ایسے علاقے ہیں جہاں باہمی تعاون کے ذریعے بہت سی زمینوں کو زیرِ آب لایا جاسکتا ہے۔ لیکن بات یہ ہے کہ کوئی گروہ غیروں کے فائدہ کے لیے کیوں اپنا پِتّا پانی کرے گا۔‘‘
خوشحال خان خٹک (جس نے سترھویں صدی میں سوات کا دورہ کیا تھا) نے اس نظام کے نقائص اور اس کے برے نتائج بیان کیے ہیں۔ وہ اس خراب نظام کی وجہ سے یوسف زئی قبائل کو حقارت کی نگاہ سے دیکھتا ہے اور کہتا ہے کہ یہ قرعہ اندازی کے ذریعہ سال بہ سال اپنی املاک سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ اس طرح یہ خود ہی طاقت کے استعمال کے بغیر اپنے اوپر حملہ آور ہوتے رہتے ہیں۔
لوگ ایک طرح سے خانہ بدوش زندگی گزارتے تھے اور بعض اوقات زرخیز قطعات اراضی پر قابض اپنا قبضہ چھوڑنے کے لیے تیار نہیں ہوتے تھے اور اس طرح ایک جھگڑا چل پڑتا جس کے لیے کئی جانوں کا نذرانہ دینا پڑتا۔ ریاست کے دور میں بھی اُس جگہ جہاں دارالحکومت واقع ہے بابوزئی قبیلہ کی دو شاخوں اباخیل اور برت خیل کے درمیان جنگ چھڑ گئی۔ اس لیے کہ آٹھ ماہ قبل ویش (تقسیم) طے ہونے کے باوجود اباخیل قبضہ چھوڑنے کے لیے تیار نہیں تھے، لہٰذا انہوں نے 8 فروری 1919ء کو اس پر اعتراض کیا۔ برت خیل شاخ نے نیک پی خیل کے ایک لشکر کی مدد سے متعلقہ دیہاتوں پر قبضہ کر لیا اور وہاں سے اباخیل کو نکال دیا۔ باری باری دونوں کا ساتھ دینے سے دونوں فریق عبدالودود کے خلاف ہوگئے۔ اس طرح یہ نظام اُس کے لیے بھی ایک دردِ سر بن گیا۔ (کتاب “ریاستِ سوات” از ڈاکٹر سلطانِ روم، مترجم احمد فواد، ناشر شعیب سنز پبلشرز، پہلی اشاعت، صفحہ 194 تا 195 انتخاب)