کھانے پینے کی چیزوں میں ملاوٹ اور کم تولنے کی روایت بڑی ہی پرانی ہے۔ اس وجہ سے قرونِ وسطیٰ کے یورپ میں شہر کی انتظامیہ نے کھانوں میں ملاوٹ اور ناپ تول پر کنڑول کرنا شروع کر دیا تھا۔
فرانس میں انسپکٹر سوروں کی زبانیں دیکھتے تھے کہ وہ زخمی نہ ہوں۔ کیوں کہ اُس وقت یہ سمجھا جاتا تھا کہ اس سے کوڑھ کا مرض ہو جاتا ہے۔
وینس میں مچھلی، بازار میں انہیں جانچ پڑتال کے بعد فروخت کیا جاتا تھا۔
اٹلی میں انسپکٹر کم تولنے پر سزائیں دیتے تھے۔
انگلستان میں 1266ء میں روٹی کا وزن، رنگ اور قیمت مقرر کرنے کے قوانین بنائے گئے تھے، جو اَب تک ہیں۔
برصغیر میں بھی کھانے پینے کی اشیا پر کنٹرول کرنے کے لیے شحنہ منڈی کا تقرر ہوتا تھا، مگر اس عہد کے تمام مؤرخ اس بات کی شکایت کرتے ہیں کہ دکان دار انتہائی بے ایمان ہیں۔ چیزوں میں ملاوٹ بھی کرتے ہیں اور کم بھی تولتے ہیں۔ علاؤ الدین خلجی نے جب مارکیٹ میں چیزوں کی قیمتیں مقرر کیں، تو اس نے ناپ تول اور ملاوٹ جانچنے کا یہ طریقہ اختیار کیا تھا کہ وہ چھوٹے بچوں کو خریدار کے طور پر بھیجتا تھا۔ پھر ان اشیا کو تولتا تھا۔ اگر یہ کم ہوتیں، تو اتنا ہی دکان دار کا گوشت کا ٹ لیا جاتا تھا۔ (ڈاکٹر مبارک علی کی کتاب ’’تاریخِ کھانا اور کھانے کے آداب‘‘ مطبوعہ ’’تاریخ پبلی کیشنز لاہور‘‘ پہلی جلد 2013ء، صفحہ 32-31 سے انتخاب)