مذہب نے انسانوں کے لیے رسوم، اقدار اور عقائد کی تشکیل کے سلسلہ میں ہمیشہ سے مرکزی کردار ادا کیا ہے۔ اس کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں۔ سوات کی آبادی کا بہت بڑا حصہ سنّی المسلک مسلمانوں پر مشتمل رہا ہے۔ سکھوں اور ہندوؤں پر مشتمل ایک چھوٹی سی اقلیت بھی یہاں رہی ہے۔ 1941ء کی مردم شماری کے مطابق ان کی تعداد 445، اس طرح 1951ء کی مردم شماری کے مطابق 471 اور محمد آصف خان کے مطابق 200 تھی۔
سوات میں کچھ مذہبی قیادت بڑی ممتاز حیثیت کی مالک رہی ہے اور ریاست کے متعلقہ علاقوں کے روایتی اور قبائلی معاشرہ پر مذہبی طبقہ کا بڑا اثر رہا ہے۔
اے ایچ میکموھن اور اے ڈی جی رامزے قبل از ریاست عہد کے بارے میں کہتے ہیں کہ جدید تعلیم کے فروغ سے مذہبی طبقات اور واعظین کا اثر و رسوخ کم ہوگیا۔ اور "اپنے اثر و رسوخ کو برقرار رکھنے کے لیے وہ اپنے معاشرہ میں ہونے والی ہر قسم کی ذہنی، سماجی اور مادی ترقی کی مخالفت کرتے ہیں۔”
حالاں کہ عبدالودود نے تمام بااثر مذہبی شخصیات کو ریاست بدر یا خاموش کر دیا جن سے اُس کے اقتدار کو ذرا سا خطرہ لاحق ہوسکتا تھا، لیکن اُس نے اپنے طور پر مذہبی علوم کی ترویج کے لیے بھی کوشش کی۔ اسی سلسلہ میں اُس نے میاں گل جہان زیب کے مشورہ پر بت کدہ (اَب گل کدہ) کے مقام پر 1943ء میں ایک دارالعلوم قائم کیا۔ دارالعلوم کے لیے عمارت اُس مقام پر تعمیر ہوئی جہاں اب سوات میوزیم قائم ہے۔ ابھی تک وہ عمارت اس میوزیم کی حدود میں موجود ہے۔ بعد میں دارالعلوم کو گراسی گراونڈزکے مقابل ایک نئی عمارت میں منتقل کر دیا گیا جہاں آج تک یہ موجود ہے۔ 1945ء میں چارباغ کے مقام پر اس کی ایک شاخ قائم کی گئی۔ ان دونوں درس گاہوں سے سوات، فرنٹیئر ریجنز اور افغانستان کے طلبہ کی ایک بڑی تعداد مستفیض ہوئی۔
طلبہ کے رہن سہن، کتابوں اوران کے دیگر اخراجات ریاستی حکومت برداشت کرتی تھی۔ اور نامور علما تدریس کے فرائض سرانجام دیتے تھے۔ آخری والی کہتے ہیں کہ "ہمیں یہاں اچھی قابلیت و اہلیت کے مالک مدرسین دست یاب ہوئے۔ ایسے افراد جو دیوبند، دہلی، فتح پور سیکری اور لکھنؤ سے فارغ التحصیل ہیں اور اپنے مضامین میں مردِ میدان ہیں۔ حالاں کہ یہ میری تجویز تھی لیکن میرے باپ نے اس طرزِ تعلیم کے فروغ میں ذاتی دل چسپی لی۔ اور (مارتونگ) چکیسر جیسے دور اُفتادہ علاقوں سے بھی ایک دو قابل مولویوں کو بلایا اور انہیں اپنے پاس رکھا۔”
دارالعلوم کا نصاب عربی صرف و نحو، منطق، فقہ اسلامی (جیسا کہ ھدایہ میں مذکور ہے)، حدیث اور تفسیر قرآن پر مشتمل تھا۔ طلبا کو تاریخ، جغرافیہ، جنرل سائنس، حالاتِ حاضرہ اور دنیاوی مسائل کے بارے میں کچھ نہیں پڑھایا جاتا تھا۔ ان کی ساری نصابی کتب سترھویں صدی یا اس سے بھی پہلے کی لکھی ہوئی تھیں۔
کچھ غیر اسلامی رسوم و رواج کو ختم کرنے کی بھی کوشش کی گئی جیسے ایک فتویٰ کے ذریعہ اسقاط کے عمل کو غیر اسلامی قرار دیا گیا۔ اس سے پہلے ابتدائی قدم کے طور پر اسقاط کے ضمن میں خرچ کی جانے والی رقم کی حد بندی کی گئی اور تجہیز و تکفین سے متعلق کچھ دیگر معاملات میں اصلاح کر دی گئی۔ اسی طرح عیدالاضحی کے موقع پر کی جانے والی قربانی کے بارے میں ضابطے طبع کیے گئے۔ مزید یہ کہ لوگوں کو حنفی فقہ کی روشنی میں اسلامی احکام و ہدایات سے روشناس کرانے کے لیے، اسی طرح قاضیوں کا کام آسان بنانے کی خاطراور ان کی مدد اور رہنمائی کے لیے فتاویٰ ودودیہ کے نام سے دو جلدوں میں ایک کتاب مرتب کی گئی۔ اس کا نام میاں گل عبدالودود کے نام پر رکھا گیا۔ اس کی زبان پشتو تھی۔ تخت سے دست برداری کی وجوہات بیان کرتے ہوئے عبدالودود اس سلسلہ میں اپنی ناکامی کا اعتراف کرتے ہوئے کہتا ہے: "دوسری بات یہ تھی کہ میں چاہتا تھا کہ سواتیوں کی روحانی اور اخلاقی اصلاح کے لیے کچھ کروں۔ اس مقصد کے لیے میں روشن خیال فہمیدہ علما کے ایک گروہ کے ہمراہ قریہ قریہ گھوم کر ان کی کردار سازی اسلامی اصولوں کے مطابق کرنا چاہتا تھا، تاکہ وہ اچھے باعمل مسلمان بن سکیں۔”
دارالعلوم کا قیام میاں گل جہان زیب کے مشورہ سے عمل میں آیا تھا۔ اُس کا یہ دعویٰ تھا کہ اُس نے اسکندر مرزا اور ایوب خان کے ساتھ بھی پاکستان میں حکومت کی سرپرستی میں مذہبی اداروں کے قیام کے موضوع پر بات چیت کی۔ تاہم اُس کے اپنے دورِ حکومت میں جدید تعلیم کے لیے تو کئی ادارے بنائے گئے لیکن اسلامی تعلیم کے فروغ کا ایک ادارہ بھی نہیں بنایا گیا۔ (کتاب “ریاستِ سوات” از ڈاکٹر سلطانِ روم، مترجم احمد فواد، ناشر شعیب سنز پبلشرز، پہلی اشاعت، صفحہ 190 تا 192 انتخاب)