امیدیں دم توڑ گئیں، تو…………!

تصور ہی نہیں کیا جا سکتا تھا کہ فٹ پاتھ پہ جو انسان بھوکا سوتا ہے، اس کو باعزت کھانا کیسے بھلا مہیا کیا جا سکتا ہے؟ آپ ایک لمحہ سوچیے، فٹ پاتھ پہ بیٹھا ایک شخص تین دن سے بھوکا ہو، لازماً چوتھے دن اس کے ذہن میں منفی خیال پنپنا شروع ہو جائیں گے۔ وہ یہ سوچنا شروع کر دے گا کہ جب اس معاشرے سے مجھے ایک وقت کی باعزت روٹی میسر نہیں، تو میں کیوں نہ اس معاشرے سے چھین کے لوں۔ سوچ کے زاویے بدلنا شروع ہو جاتے ہیں اور معاشرے میں جرائم پروان چڑھنا شروع ہو جاتے ہیں۔ معاشرہ تعمیر کے بجائے ہر گزرتے دن کے ساتھ شکست و ریخت کا شکار ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ ایسی صورت حال میں ایک جگہ میسر ہو، جہاں کسی سے سوال نہ کیا جائے کہ تمہاری ذات کیا ہے، تمہارا پیشہ کیا ہے، تمہاری جیب میں کتنی رقم ہے اور تم آئے کہاں سے ہو؟ ان تمام سوالات سے مبرا بس اُس کو ایک مسکراہٹ کے ساتھ خوش آمدید کہا جائے اور یہ تک نہ پوچھا جائے کہ تم حقیقتاً بھوک کا شکار ہو بھی یا نہیں؟ اور باعزت طریقے سے اُسے کھانا پیش کیا جائے، صاف ستھرا عملہ مستعدی سے خدمت پہ مامور ہو۔ ایسے معاشرے میں جہاں صاف پانی قیمتی ہوتا جا رہا ہو، وہاں اُسے پینے کو صاف پانی مہیا کیا جائے، تو آپ کا کیا خیال ہے کہ معاشرے کی تعمیر میں یہ حصہ کم ہوگا؟ ہرگز نہیں۔
آپ پاکستان کے حوالے سے ایک لمحہ تصور کیجیے۔ عام سا بخار کسی کو ہو جائے، جان کے لالے پڑ جاتے ہیں۔ ایک گلی کی نکڑ پہ بیٹھے عطائی ڈاکٹر کے پاس جانے اور اس سے علاج کروانے کے لیے آپ کی جیب میں کم از کم ہزار روپے ہونا لازم ہے۔ دو بوتل میٹھا شربت، تین وقت کی گولیاں، چند کیپسول، یہ دوا حاصل کرنے کا عمل بھی کئی سوچوں میں مبتلا کر دیتا ہے۔ اس لیے ہم میں سے اکثریت پہلے اپنا معالج خود بننے کو ترجیح دیتی ہے اور دیسی طریقوں سے خود کو نارمل کرنے کی ہر ممکن سعی کرتی ہے، لیکن کوئی صورت نظر نہ آئے تو ڈاکٹر، کلینک یا ہسپتال کا رُخ کیا جاتا ہے۔ اس دیس میں خوشحال لوگوں کو اپنی تمام جمع پونجی ہسپتالوں میں لٹاتے دیکھا ہے۔ جی ہاں، ’’لٹاتے!‘‘ اس لیے کہ ایک انسان تو بیمار ہو جاتا ہے، اس کے ساتھ ساتھ پورا خاندان متاثر ہو جاتا ہے۔ آپ کو اکثر مثال کے طور پہ سننا میسر ہوگا کہ گھر کے برتن تک بک گئے، لیکن یہاں مثالیں موجود ہیں کہ علاج پہ گھر کا سامان بک گیا۔ اَن بیاہیوں کے داج کا سب جمع کیا گیا ختم ہو گیا، زیور کی چند ٹنگاں بیچ دی گئی کہ کسی طرح ان کا مریض بچ جائے۔ اور شومئی قسمت اگر وہ مریض بچ نہ پائے اور لقمۂ اَجل بن جائے، تو آپ اگلے حالات کا تصور کیجیے کہ ناک اونچی رکھنے کے لیے ہمارے ہاں کیا کیا جتن کیے جاتے ہیں۔ مرنے والا مر جاتا ہے لیکن ناک اونچی رکھنے کے چکر میں لیے گئے قرضے نسلیں بھی ادا کرتی رہتی ہیں۔ اور ان حالات میں آپ کے خاندان کے فرد کو جان لیوا بیماری لاحق ہو جائے، جس کا خرچ لاکھوں میں ہو، کُجا علاج، گھر میں کھانے کو میسر نہ ہو۔ آپ کو ایک امید کی کرن نظر آئے جو نہ صرف فوری علاج کے لیے ہاتھ تھام لے، بلکہ علاج کے بعد کے معاملات میں بھی آپ کی امیدوں سے زیادہ خیال رکھے، اور واپسی کی توقع بھی نہ رکھے کہ یہ قرض نہیں یہ صرف مدد کے زمرے میں کیا جائے، اور اس مدد کے حوالہ سے آپ سے کوئی مفاد، کوئی واپسی کا تقاضا کیا ہی نہ جائے، تو آپ سوچیے ایسے ہزاروں مستفید ہونے والے افراد جو جان لیوا بیماریوں سے بچ کے معاشرہ میں مثبت کردار ادا کر رہے ہیں، ان کے اظہارِ تشکر کا آپ اندازہ لگا سکتے  ہیں؟
تعلیم ہر ذی شعور کا بنیادی حق ہے، جس کی فراہمی صحت کی طرح ہی ریاست کے ذمے ہوتی ہے مہذب معاشروں میں۔ لیکن جس طرح صحت پاکستان میں فٹ پاتھ پہ ایک پٹھا لگائے بیچی جاتی ہے، اس طرح پاکستان میں تعلیم بھی ایک خدمت کی بجائے منافع بخش کاروبار بن چکا ہے۔ آپ کو کوئی ملازمت نہ ملے، ٹیوشن سنٹر یا سکول کھول لیجیے۔ کاروبار میں برکت پیدا ہوتی جائے گی۔ ایک دس سے بیس ہزار کے ملازم کے لیے تصور کیجیے کہ وہ ان بدیسی سکولوں، بڑی بڑی بلڈنگز میں بنے تعلیمی اداروں کے پاس سے گزرتا ہوگا، تو اس کے دل میں اپنے بچوں کے لیے کیا خواہش جاگتی ہوگی؟ لیکن کیا ایک لمحہ سوچیے، ان اداروں کی فیس ادا کرنا سفید پوش حضرات کے لیے بھی کیا ممکن ہے؟ اب ملاحظہ کیجیے، نونہالوں کے تعلیمی اخراجات کا ذمہ کوئی اُٹھائے، اور ان کے نوجوانی کی دہلیز پہ قدم رکھنے تک نہ صرف ساتھ دے بلکہ تعلیم کی تکمیل کے بعد معاشرے کا کارآمد شہری بن جانے پہ ان سے صلے کی اُمید بھی نہ رکھے، تو ایسا رویہ کیا معاشرے کی فلاح میں کردار ادا نہیں کرے گا؟ـ مانگنا ہمیشہ سے ایک ایسا عمل رہا ہے جس کا شرمندگی سے واسطہ رہا ہے۔ کیوں کہ جس سے مانگا جائے وہ کسی نہ کسی موقع پر جتلاتا ضرور ہے، لیکن کیا آپ نے کبھی کوئی ایسا دیکھا کہ جو جتلانا تو دور کی بات، شرط ہی یہ رکھ دے کہ اس مدد کی تشہیر نہ ہو، تو آج کے نفسانفسی کے دور میں پہلی سوچ میں ایسا ہونا ممکن نظر آتا؟ ہرگز نہیں۔
اور ایک لمحہ رُکیے، اگر یہ سارے کام جو حکومتِ وقت کے کرنے کے ہیں، ان میں بہت بڑا کردار ایک شخصیت تنِ تنہا کر رہی ہو، تو آپ کے ذہن میں پہلی سوچ کیا اُبھرے گی؟ یہی کہ یہ تو ایک بہت بڑا کارِ خیر ہے جو وہ کر رہا ہے۔ یقینا ایسا ہے۔ اور ایسا کرنے والی شخصیت یا ادارے کو حکومت وقت کس برتاؤ کا حقدار ٹھہرائے گی؟ یقینا آپ کا دل کہے گا نا کہ اُس کی نہ صرف مدد کی جائے گی بلکہ اُس کے تجربے سے فائدہ بھی اُٹھائے گی؟ جی، یہ بات بھی اپنی جگہ مکمل درست ہے۔ نہ صرف اس کو سہولیات فراہم کی جائیں گی بلکہ اس کو ایک مثال کے طور پہ پیش کیا جائے گا۔ باقی مخیر حضرات بھی معاشرے کی تعمیر میں ایسے ہی اپنا حصہ ڈالیں۔
بحریہ ٹاؤن سے ایسے ہی لاکھوں افرا دکی اُمیدیں جڑی ہیں۔ نہیں معلوم کتنے لوگ باعزت کھانا کھا رہے ہیں۔ کتنے لوگ آج اگر صحت مند ہیں، تو خدا کی کرم نوازی کے بعد ان کی صحت یابی میں کردار ’’بحریہ ٹاؤن‘‘ کا ہے۔ کتنے ہی غریب ایسے ہیں جن کے بچے آج اگر اچھے سکولوں میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں، تو اس میں بحریہ ٹاؤن نے ان کا ہاتھ تھام رکھا ہے۔ کتنے ہی افراد ہیں جو نہ جانے کتنے دھکے کھانے کے بعد بحریہ ٹاؤن میں باعزت روزگار حاصل کیے ہوئے ہیں۔
اس بات سے قطعِ نظر کہ بحریہ ٹاؤن کے ساتھ بطور ادارہ کیا رویہ کھا جاتا ہے، اس بات سے بھی غرض نہیں کہ بحریہ ٹاؤن قصور وار ہے یا نہیں، غلطی پہ یقینی طور پر بازپرس کیجیے، غلطی سدھارنے کا موقع فراہم کیجیے، معاملات میں سلجھاؤ کی سبیل نکالیے، کوتاہیوں پہ سرزنش بھی کیجیے، نہ غلطی کا دفاع نہ بطورِ ادارہ اس کے معاملات سے غرض کہ مستقبل کیا ہوتا، لیکن بس اتنا ہو کہ اُمیدوں کے چراغ گل نہ ہوں۔ کچھ ایسا ہو کہ بندھی اُمیدوں کی ڈور ٹوٹنے نہ پائے۔ شخصیات اہم ہوتی ہیں نہ ذات، لیکن اکثر ایسا ہوتا ہے کہ کچھ شخصیات کے ساتھ اُمیدیں جڑ جاتی ہیں کہ بہت کم اس معاشرے میں ایسا ہوتا ہے کہ بنا صلے کی اُمید کے کوئی آپ کا ساتھ دیتا ہے۔ بحریہ ٹاؤن ایک ثانوی درجہ رکھتا ہے، اولین درجے پہ تو وہ روشن اُمیدیں ہیں، جن کو لو پھڑپھڑا کے بجھ جانے کو تھی کہ اک آس نے ان کا ہاتھ تھام لیا۔ اور امیدوں کی پھڑپھڑاتی لو نے پھر سے خود کو توانا محسوس کرنا شروع کر دیا۔ جو بھی ہو، جیسا بھی ہو، جس طرح بھی ہو، اس سے غرض نہیں، بس خدا کرے اُمیدوں کے یہ چراغ نہ بجھ جائیں۔ ایسا ہوا، تو اندھیروں سے بچ جانے والی کرنیں دوبارہ اندھیروں میں گم ہو جائیں گی۔

………………………………………………………………….

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com پر ای میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔