وہابی مسلک سعودی عرب کا سرکاری مسلک ہے۔ اس کے بانی عبدالوہاب تھے جو 1703ء میں نجد کے ایک گاؤں میں پیدا ہوئے۔ وہ حنبلی مسلک سے تعلق رکھتے تھے جو چار اسلامی مسالک میں سب سے سخت مسلک ہے۔ عبدالوہاب قرآن اور سنت کی طرف رجوع کرنے پر زور دیتے تھے۔ وہ کہتے تھے کہ ہمیں اصل اسلام کی طرف واپس جانا چاہیے۔ وہابی عید میلا النبیؐ منانے اور بزرگوں کے مزاروں پر جانے والی رسموں کو بدعت کہتے ہیں۔ وہ عوام میں موجود عام مذہبی رسموں کے سخت خلاف ہیں۔ یورپ میں عیسائی اصلاح پسندوں کے برعکس عبدالوہاب ان مذہبی رسموں کو غلط سمجھتے تھے جو عام مسلمانوں میں رواج پاگئی ہیں۔ ان کی اصلاحی تحریک نے بیشتر مسلمانوں کو اسلام کے اصل پیغام کی طرف راغب کیا۔ یہ اصل پیغام ہے مساوات اور عدل سے پیدا ہونے والی وحدت اور اخلاقیات۔ ان کے نزدیک اللہ اور انسان کے درمیان کوئی واسطہ اور وسیلہ نہیں ۔ یہ تصور مغرب کی لبرل روایات کی روشنی میں دیکھا جاسکتا ہے۔ جہاں شہری حقوق اور نمائندہ جمہوری اقدار اس عقیدے سے جنم لیتی ہیں کہ ہر انسان خدا کی نظر میں برابر کا درجہ رکھتا ہے اور بادشاہ اور پادری کی طاقت بھی کسی کا درجہ کم نہیں کرسکتی۔ یورپ کی تاریخ میں اس نقطۂ نظر کو پیورٹن کہا جاتا ہے۔
سعودی عرب کا مسلک تیرھویں صدی کے سیاسی مفکر ابنِ تیمیہ کے افکار پر مبنی ہے۔ ابنِ تیمیہ کے زمانے میں اسلامی دنیا زبردست بحران سے گزر رہی تھی۔ صلیبی جنگوں کے بعد منگولوں نے مسلم ملکوں میں تباہی مچا رکھی تھی۔ اس وقت مسلمانوں کو حوصلہ دینے اور انہیں متحد رکھنے کے لیے ابنِ تیمیہ کے افکار سامنے آئے۔ ابنِ تیمیہ مسلمانوں کے مسلکی اختلافات اور باہمی تفرقے کو ان کی سب سے بڑی کمزوری مانتے تھے۔ اس لیے انہوں نے اسلام کی تشریح و تعبیر میں اتفاق و اتحاد پیدا کرنے کی کوشش کی۔
ابن تیمیہ کا نظریہ یہ ہے کہ قرآن و سنت میں ہر چیز موجود ہے۔ اسلام میں مذہبی موشگافیوں اور فلسفیانہ بحثوں کی گنجائش بھی نہیں۔ قرآن کی لفظی اور لغوی تفسیر ہی کی جانی چاہیے۔ اگر قرآن کہتا ہے کہ اللہ عرش پر موجود ہے، تو اس کا مطلب ہے کہ وہ عرش پر بیٹھا ہے۔ عرش و کرسی کی ماہیت اور مقصد کے بارے میں کوئی بحث نہیں ہونی چاہیے۔ استعاراتی یا علاماتی طور پر تشریح نہیں کی جاسکتی۔ (ضیاء الدین سردار کی ترجمہ شدہ کتاب ’’جنت کے لیے سرگرداں‘‘ (مترجم، مسعود اشعر) کے صفحہ نمبر 161 اور 162 سے انتخاب)