تقریظ

شاعری کے ترجمے کے بارے میں کسی بھلے آدمی نے کہا ہے: ’’شاعری دراصل وہ چیز ہے جو ترجمہ کرتے وقت چپکے سے مرجاتی ہے، بغیر کسی انتباہ یا مزاحمتی تأثر بنائے۔ ‘‘مترجم سمجھتا ہے کہ انتہائی خوش اسلوبی سے دونوں زبانوں کے لفظ اس کے سامنے سرِ تسلیم خم کیے چلے جا رہے ہیں۔ کہیں سے کوئی احتجاج، کوئی فریاد سننے میں نہیں آ رہی۔ سارے مراحل حسبِ خواہش طے پا رہے ہیں۔ جلد منزل اس کے قدموں سے بوس و کنار میں مصروف ہوجائے گی۔ اور ساری تھکن ہوا میں تحلیل ہوکر رہ جائے گی۔ اور وہ اپنی کامیابی کا جشن منانے میں ہر طرح سے حق بہ جانب ہوگا۔ بلکہ زیادہ تر معاملات میں سب کچھ اس کی مرضی اور منشا کے عین مطابق ہوتا چلا جاتا ہے۔ اور وہ خوشی سے قدرتی لباس میں ٹب سے نکل کر چیختا چلاتا دنیا سے داد کا طالب ہوتا ہے۔ "پالیا”، "پالیا۔” لیکن اکثر و بیشتر یہ سب کچھ ایک غلط فہمی کے سوا کچھ بھی نہیں ہوتا۔
اگر پڑھنے والا دونوں زبانوں سے واقف ہو، تو اسے یہ فیصلہ کرنے میں زیادہ دقت پیش نہیں آتی کہ "ٹھیک ہے”،”بس ٹھیک ہے” اور آکر تان اسی پر ٹوٹتی ہے کہ
ہر حسینہ کہیں کہ ہے نہیں ہے
بعض اوقات ترجمہ نگار بہت جلد اس راز کو پا لیتا ہے اور وہ ترجمہ کی جگہ ترجمانی کے آسان راستہ کو اپنا لیتا ہے جس سے سب کا بھلا ہوتا ہے۔ شاعر، مترجم اور قاری سب کو کچھ نہ کچھ منافع ہاتھ لگ جاتا ہے۔ سارا سرمایہ ڈوب جانے سے بچ جاتا ہے۔ لیکن اگر مترجم اپنی ہٹ کا پکا ہو، تو پھر اسے دیواروں سے ٹکرانے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ چاہے اور کچھ رہے نہ رہے، اس کی ضد تو زندہ و تابندہ رہتی ہے۔ جو اپنے خالق کی انا کے شیش محل کی بکھری کرچیوں کی امین، ہر آنے والے کو داد طلب نگاہوں سے دیکھتی جاتی ہے۔ "منزل ملی نہ ملی، کوشش کا زر تار سہرا سر پر سجانے سے کوئی نہیں روک سکا۔”
نقیب احمد جان تو جوان آدمی ہیں۔ جوانی اپنے زورِ بازو پر لامحدود یقین کا دوسرا نام ہے۔ اس کی یہ ساری کاوشیں اس بے پایاں تیقن کا مظاہرہ ہیں۔ انگریزی شعر کا اردو شعر میں اس طرح دلوں کے تار مرتعش کرنے ولا ترجمہ کم از کم میرے تجربے میں تو نہیں آیا۔ میرا یہ دعویٰ مجموعی صورت حال کے پیش نظر یقیناً انوکھا نہیں، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ نوواردوں کو اس وادی میں داخل ہی نہیں ہونے دیا جائے۔
پھسلنے والے پاؤں ہمالہ کو سر کرنے کی خواہش پیدا ہونے سے روک نہیں سکتے۔ اس لیے اگر یہ نوجوان اس دعوے کے ساتھ آگے آیا ہے، تو اس کی حوصلہ افزائی دعائیہ کلمات کے ساتھ ہونی چاہیے۔ ناممکن کو ممکن بنانا مشکل ضرور ہے، ناممکن نہیں۔ (پروفیسراحمد فواد کی تقریظ، کتاب: "ہرے جنگل کے ٹھنڈے سائے میں”، پبلشرز ٹیپو ماڈل اسکول کبل سوات)