الیکشن 2018ء اور پختونخوا کا مستقبل

25 جولائی 2018ء کو عوام اپنی طاقت یعنی ووٹ کے ذریعے ملک کے مستقبل کا فیصلہ کریں گے۔ اگرچہ ایک طرف اس جنرل الیکشن میں دو بڑی سیاسی جماعتیں مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی زیرِ عتاب ہیں، دونوں پارٹیوں کے سربراہان پر کرپشن کے الزامات ہیں اور عدالتوں میں ان کے خلاف کیسز چل رہے ہیں۔ جب کہ نواز شریف داماد اور بیٹی سمیت اڈیالہ جیل میں پابند سلاسل ہیں، تو دوسری طرف پشاور، بنوں اور مستونگ میں سیاسی جماعتوں کے جلسوں اور کارنر میٹنگز میں بم دھماکوں کی وجہ سے کئی جانیں لقمۂ اجل ہوچکی ہیں۔ ملکی فضا سوگوار ہے جب کہ سیکورٹی خدشات بدستور موجود ہیں۔ موجودہ صورتحال کے تناظر میں یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ پولنگ کے دن دہشت گردی کے واقعات رونما ہوسکتے ہیں۔ دہشت گرد اپنے مذموم مقاصد میں کامیاب ہوسکتے ہیں، جس کے لیے سیکورٹی اقدام کی ضرورت ہے۔
قارئین، پاک صاف اور شفاف انتخابات کا انعقاد مقتدر حلقوں کو مکمل غیر جانب دار رِہ کر یقینی بنانا ہوگا۔ کثرتِ رائے کے خلاف من مانے نتائج کے حصول نے ملک کا حال تاریک تر بنا دیا ہے۔ اداروں کا یہ فرض ہے کہ عوامی رائے کو فوقیت دے کر مینڈیٹ کا احترام کریں۔ عوام کثرتِ رائے سے جس پارٹی کو منتخب کریں، اس پارٹی کو پانچ سال آرام سے حکومت کرنے دیا جائے۔ کیوں کہ اداروں کے ٹکراؤ سے حکومتوں کو کمزور کرکے اور گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کرکے اپنے حق میں من مانے فیصلے کروانا ملک کی خدمت کرنا نہیں بلکہ ملک کو تباہی و بربادی کی راہ پر ڈالنے اور کمزور کرنے کے مترادف ہے۔ ہر ادارہ اپنی آئینی ذمہ داریوں کی حدود میں رہتے ہوئے ملک کی ترقی و خوشحالی کے لیے کوشاں رہے، تو تبھی ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہوسکتا ہے۔ بصورتِ دیگر افراتفری، انتشار، دہشت گردی، غربت، جہالت، بے روزگاری اور نفرت ہی اس ملک کا مقدر رہے گی۔ ایک مضبوط، مربوط، منظم، مستحکم اور پُرامن و خوشحال پاکستان کے لیے ضروری ہے کہ تمام ادارے اپنی آئینی حدود و قیود کے پابند ہوں۔ کسی کو کسی پر بزورِ شمشیر یا دھونس دھاندلی اور ڈرا دھمکا کر یا خوفزدہ کرکے اپنی رائے مسلط کرنے کا حق و اختیار حاصل نہیں ہے۔ لہٰذا یہ روش بدلنے کی ضرورت ہے۔ اس طرح آئینِ پاکستان تمام شہریوں کے حقوق کا امین ہے۔
خیبر پختونخوا کی سیاسی تاریخ پر اگر طائرانہ نظر ڈالی جائے، تو اس صوبے پر اب تک تمام مختلف سیاسی جماعتوں نے حکمرانی کی ہے۔ 1947ء سے لے کر 2018ء تک جن سیاسی جماعتوں نے خیبرپختون خوا حکومت کی باگ ڈور سنبھالی، ان میں مسلم لیگ نے مختلف ادوار میں مجموعی طور پر چھے مرتبہ، پاکستان پیپلز پارٹی نے بھی چھے مرتبہ، جمعیت علمائے اسلام (بطور ایم ایم اے بھی) دو مرتبہ، عوامی نیشنل پارٹی نے ایک مرتبہ اور آخر میں پی ٹی آئی نے بھی ایک مرتبہ تاجِ حکمرانی اپنے سر پر سجایا ہے۔ ان ادوار میں وزارتِ اعلی کا قلمدان مسلم لیگ کے خان عبدالقیوم خان، سردار عبدالرشید خان، سردار بہادر خان، فضل حق (قائم مقام)، میر افضل خان، پیر صابر شاہ اور مہتاب احمد خان کے پاس جب کہ پیپلز پارٹی کے سردار عنایت اللہ خان گنڈا پور، نصراللہ خان خٹک، محمد اقبال جدون، ارباب جہانگیر خان، آفتاب احمد خان شیرپاؤ (دو بار)، جمعیت علمائے اسلام کے مفتی محمود (والدِ محترم مولانا فضل الرحمان)، ایم ایم اے کے اکرم خان درانی (جے یو آئی)، اے این پی کے امیر حیدرخان ہوتی اور آخر میں پی ٹی آئی کے پرویز خٹک کے پاس رہا۔

عوامی سوچ اگرچہ منقسم مینڈیٹ کی طرف اشارہ کر رہی ہے، لیکن عوام کو مرکز پر نگاہ مرکوز کرتے ہوئے خالصتاً صوبے کے وسبع تر مفاد اور بھلائی کو مدنظر رکھ کر قدم اٹھانا چاہیے۔

آخری تین سیاسی جماعتوں کے ادوار میں ایسی سیاسی فضا قائم رکھی گئی کہ جن پر عوام نے اعتماد کرکے اسمبلیوں میں پہنچایا تھا۔ انہی سیاسی جماعتوں پر بداعتمادی کی فضا قائم کروا کے ہوا کے رُخ کو بدلا گیا۔ تینوں مرتبہ عوام نے 180 ڈگری پر سیاسی و نظریاتی اختلاف رکھنے والی جماعتوں کو کامیاب کراکر اسمبلی میں بھیجا۔ اب اسے خیبر پختون خوا کے عوام کی سیاسی بصیرت اور انقلابی فکر کہا جائے یا ہوا کی سمت کو موڑنے والوں کا فن، جو وہ کسی ایک سیاسی جماعت کو فائدہ پہنچانے کے لیے ایسی فضا قائم کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اس عمل کا نقصان یہ ہوا کہ صوبہ میں مرکز مخالف حکومت ہونے کی وجہ سے صوبے کو کبھی اپنا حق نہیں ملا اور یہ تینوں سیاسی حکومتیں مرکزی حکومتوں سے شاکی رہیں۔ حتیٰ کہ دہشت گردی کے خلاف "فرنٹ لائن” صوبہ ہونے اور 2010ء میں تباہ کن سیلاب کے نقصان پر بھی صوبے کو "آفت زدہ” تک قرار نہیں دیا گیا اور نہ نقصان کے اِزالہ کے لیے کوئی بھرپور مالی مدد اور اعانت ہی کی گئی۔ صوبے کو سیاسی طور پر مرکز سے جدا کر دینا ہی اس کا اصل سبب ہے۔ اب کی بار ایسی فضا قائم ہے کہ بظاہر قوم کسی ایک سیاسی جماعت پر متفق نظر نہیں آ رہی بلکہ صوبے میں ایک معلق اور منقسم سی حکومت کا وجود نظر آ رہا ہے جب کہ غالب گمان یہی ہے کہ مرکز میں اس بار پی ٹی آئی حکومت بنانے میں کامیاب ہوسکتی ہے۔ حالاں کہ کچھ حلقوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ ایک معلق پارلیمنٹ کے وجود پر کام ہو رہا ہے، تاکہ مرکز میں بھی کوئی ایک سیاسی جماعت مضبوط حکومت نہ بنا سکے اور ایک کمزور اور بیساکھیوں پر کھڑی حکومت قائم ہو۔ اس لیے کچھ حلقے مرکز میں بلّے، جیپ اور ساتھ میں تھوڑا کردار پی پی پی کو سونپنے کی تھیوری پیش کرتے ہیں۔ ان کے بقول مرکز میں عمران خان اور چوہدری نثار مدمقابل ہوں گے۔
عوامی سوچ اگرچہ منقسم مینڈیٹ کی طرف اشارہ کر رہی ہے، لیکن عوام کو مرکز پر نگاہ مرکوز کرتے ہوئے خالصتاً صوبے کے وسیع تر مفاد اور بھلائی کو مدِنظر رکھ کر قدم اٹھانا چاہیے۔ سندھ اور بلوچستان کے حالات جوں کے توں نظر آ رہے ہیں، مگر کراچی میں تھوڑی سی تبدیلی کے آثار نمایاں ہیں۔ پی ٹی آئی میں اندرونی اختلافات اور کارکنوں کی ناراضی ایک مسئلہ بنی ہوئی ہے، تو نواز شریف کی جیل جانے سے اور اے این پی کو ہارون بلور کی شہادت کی وجہ سے ہمدردی کے ووٹ ملنے کے امکان کو رد نہیں کیا جاسکتا۔ پی پی پی کی گرفت اتنی مضبوط نہیں جب کہ ایم ایم اے کی بھی پرانی والی پوزیشن نہیں۔
قارئین، ان تمام وجوہات کے باوجود سب کو بھرپور انداز میں اپنے حقِ رائے دہی کا استعمال کرنا چاہیے۔ ووٹ ایک طاقت ہے۔ اس کا مثبت فکر کے ساتھ استعمال کریں۔ جذبات، باپ دادا کی پارٹی، ذات پات، حسب نسب، لسانیت اور قومیت کی سوچ اپنی جگہ لیکن اس سے بڑھ کر صوبہ کے وسیع تر مفاد کو مدنظر رکھ کر مرکز پر نگاہ مرکوز کرتے ہوئے عقل، شعور، فہم و فراصت اور دیانت سے کام لیجیے۔ منتخب کیجیے اُن امیدواروں کو جو آپ کے علاقے، صوبے، ملک و قوم، آپ اور آپ کے بچوں کے بہتر مستقبل کا سوچ رکھتے ہوں۔ جن کا ماضی بے داغ ہو، وہ کرپٹ نہ ہوں، حلال و حرام کی تمیز رکھتے ہوں۔ انتخاب کیجیے ان کا جو سچے ہوں، اچھے ہوں، صادق و امین ہوں۔ پھر چاہے اس کا تعلق کسی بھی سیاسی جماعت سے ہو، کم از کم آپ کا ضمیر مطمئن ہوگا۔ یاد رکھیں، نظام بدلنے کے لیے آسمان سے فرشتے نہیں اُتریں گے۔ ہم نے ہی انتخاب کرنا ہے۔ آپ کے امیدوار فرشتے بھی نہیں ہیں۔ بس اتنا کیجیے کہ ان ہی میں سے ہی کسی ایک باکردار اور دیانت دار کو چن لیجیے۔ ووٹ کی حقیقت کو جان کر ووٹ دیجیے۔

………………………………………………..

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com پر ای میل کر دیجیے ۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔