ابھی ملک میں ’’غدار، غدار‘‘ کا کھیل زور و شور سے جاری تھا۔ لوگ نواز شریف کو انڈیا کا یار ثابت کرنے پر تلے ہوئے تھے۔ نگران وزیراعظم کا معاملہ خبروں کی زینت تھا اور عام انتخابات کے ماحول نے سب بحث و مباحثے پسِ پشت ڈال دیے تھے کہ اچانک "Spy Chronicles” کے نام سے جنرل (ر) اسد درانی اور ’’اے کے دُلت‘‘ کی کتاب منظرِ عام پر آگئی۔ پہلے تو صورتحال نارمل تھی لیکن جیسے ہی لوگ کتاب پڑھتے گئے، تو ’’پڑھتا جا، شرماتا جا‘‘ والی کیفیت آہستہ آہستہ آشکار ہونے لگی۔
ایک بات کی داد تو جنرل درانی کو دینے پڑے گی کہ اس نے بہت سے رازوں سے پردہ اُٹھایا ہے۔ میں اس بات کا حامی ہوں کہ امریکہ کی طرح یہاں بھی 25 سال بعد قومی رازوں کو ’’ڈی کلاسیفائی‘‘ کیا جائے، لیکن اس کتاب میں سارے راز ’’جنرل صاب‘‘ نے ہی اُگل دیے ہیں اور ’’اے کے دُلت‘‘ نے صرف سرکاری مؤقف ہی پیش کیا ہے۔ ڈھیر سارے موقعوں پر اس نے درانی صاب کی تعریفوں کے پُل باندھ کر اس سے بہت راز اگلوائے ہیں۔ اب چوں کہ باقاعدہ ان کے خلاف انکوائری کا آغاز ہوچکا ہے اور ان کا نام ای سی ایل پر ڈال دیا گیا ہے، لیکن پھر بھی درانی صاحب کی کتاب میں لکھی ہوئی چند سطور پڑھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
کشمیر کی صورتحال بیان کرتے ہوئے ہوئے موصوف فرماتے ہیں کہ پورا کشمیر ایک بھی ملک کے لیے حاصل کرنا ممکن نہیں اور یہ کہ ہم نے ماضی میں کشمیری جہادی تنظیموں کو کھل کر امداد دی ہے۔ جنرل صاحب نے بلوچستان کو بھی کشمیر کے ساتھ بحث میں گھسیٹا ہے کہ کشمیر کی بات کرنے سے پہلے ہمیں بلوچستان میں اپنا ہاؤس ان آرڈر کرنا ہوگا۔ جنرل صاحب نے یہ بھی اعتراف کیا ہے کہ آئی ایس آئی نے بلوچستان میں بھی پیسے تقسیم کیے ہیں اور یہ بھی کہتے ہیں کہ اگر ’’را‘‘ بلوچستان میں کشمیر طرز کی کارروائی نہیں کرتی، تو میری نظر میں انکی پیشہ وارانہ ساکھ مجروح ہوگی۔ اس بات پر ’’را‘‘ کے چیف نے کہا کہ مجھے بڑی خوشی ہوئی کہ آپ نے بلوچستان کا موازنہ کشمیر کے ساتھ کیا ہے ۔
ایک اور گل فشانی ’’اکھنڈ بھارت‘‘ کے موضوع پر کی گئی ہے کہ قائداعظم کا مقصد پاکستان کا حصول نہیں تھا بلکہ انگریزوں کے جاتے وقت مسلمانوں کے لیے ایک اچھے پیکیج کا حصول تھا۔ یہ کہ تقسیمِ ہند مستقل نہیں بلکہ عارضی ہے اور پاک و ہند مستقبل میں کنفیڈریشن کی طرز پر دوبارہ اکھٹے ہوسکتے ہیں۔
بھٹو صاحب کو اچھے الفاظ میں یاد نہیں کر رہے اور اسے ’’سقوطِ ڈھاکہ‘‘ کا مجرم قرار دیتے ہیں کہ یحییٰ اور بھٹو نے اپنے اقتدار کو محفوظ کرنے کے لیے ملک کو دو لخت کیا تھا۔
میڈیا کے بارے میں کہتے ہیں کہ دونوں ممالک کی ایجنسیاں پیسوں کے بل بوتے پر چینلز کو کنٹرول کرتی ہیں اور انہیں اپنے مقصد کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔
حافظ سعید کے بارے میں جنرل صاحب کا کہنا ہے کہ اس کے خلاف کیسز کو عدالتوں کو جلدی منطقی انجام تک پہنچانا چاہیے لیکن یہ مکمل گھمبیر صورتحال پیدا کر دے گی اور اس کے خلاف کسی بھی اقدام کو ہندوستانی سازش کہا جائے گا۔ اس وجہ سے اس کے خلاف کارروائیاں برائے نام ہی لگتی ہیں اور حقیقی کارروائی کا تصور ناممکن ہی ہے ۔
ہندوستان کو اچھے الفاظ میں یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ انہوں نے اپنی قابلیت سے دنیا میں اعلیٰ مقام پیدا کیا ہے جس کی وجہ سی امریکہ بھی ان کی طرف ہاتھ بڑھانے پر مجبور ہے۔
کارگل واقعے کو یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ منصوبہ مشرف کے ذہن میں بہت پہلے سے موجود تھا۔ سویلین قیادت حتیٰ کہ منتخب وزیر اعظم کو اس کا کم ہی علم تھا۔ کہتے ہیں کہ مسلۂ کشمیر کا حل وہاں کے عوامی امنگوں کے مطابق حل ہونا چاہیے اور اس بات کو یقینی بنانا ہوگا کہ کہیں دو بلیوں کے بیچ تقسیم میں سارا مکھن بندر ہی نہ کھا لے، مطلب کہ دونوں ریاستیں کہیں اپنے مطلب کے لیے کشمیری عوام کا بیڑا ہی غرق نہ کردیں۔
لال مسجد سانحے کو بڑا سانحہ قرار دیا ہے کہ اس واقعے میں سیکڑوں عورتوں اور بچوں کا قتلِ عام کیا گیا تھا۔ اس کو کھلے آپریشن کے بجائے ’’سلیکٹڈ کمانڈو آپریشن‘‘ کے ذریعے حل کرنا چاہیے تھا، تاکہ صرف وہاں پر موجود دس پندرہ دہشت گرد مرتے اور بیگناہ جانیں بچ جاتیں۔ کہتے ہیں کہ دہشت گردی اور خود کش حملے اس آپریشن کے بعد ہی بڑھے تھے۔
اک دلچسپ واقعے کو یاد کرتے ہیں کہ جب ان دنوں پنڈی بازار چلے گئے، تو وہاں پر ایک ایس ایچ اُو نے ان سے کہا کہ جنرل صاحب اپ نے ایک ایس ایچ اُو لیول کے کام کو حل کرنے کے لیے پوری فوج کو کیوں میدان میں اتارا ؟
ممبئ حملوں کے بارے میں کہتے ہیں کہ پتا نہیں کہ یہ حملے کس نے کرائے ہیں؟ لیکن رابرٹ ہیڈلے کے مطابق یہ ایک آئی ایس آئی میجر کی کارستانی تھی۔
اسامہ بن لادن کیس میں بہت سے نئے انکشافات کیے ہیں کہ آپریشن سے دو روز قبل جنرل کیانی اور جنرل ڈیوڈ پیٹریاس ایک سمندری جہاز پر ملے تھے اور ٹھیک دو دن بعد ایبٹ آباد آپریشن ہوا جو کہ اداروں اور حکومت کی مرضی سے ہوا تھا۔
پاکستانی جاسوسی نظام کے بارے میں کہتے ہیں کہ یہاں پر سول اور ملٹری ادارے الگ الگ کام کرتے ہیں جب کہ انڈیا میں مل کر کام ہوتا ہے، جس کی وجہ سے وہ ہم سے ایک قدم آگے ہوتے ہیں۔ ساتھ ساتھ سرجیکل اسٹرایکس کو بھی دبے الفاظ میں تسلیم کیا ہے۔
اندرونی تقسیم کو بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ پنجابی اپنے آپ کو دوسرے قوموں پر بالاتر سمجھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم تو مغلوں اور انگریزوں کے ادوار سے قابلِ اعتبار رہے ہیں، جب کہ پختون اور بلوچ اقوام نے ہمیشہ کرائے کے قاتلوں کا کردار ادا کیا ہے، تو ان پر کیوں اعتبار کیا جائے ؟
ایک جگہ بریگیڈئیر یوسف کی کتاب "The Bear Trap” کے بارے میں کہتے ہیں کہ اس کتاب کی اشاعت کے بعد ایک آفیسر ان کے پاس آیا کہ کتاب پر پابندی اور مصنف کا کورٹ مارشل ہونا چاہیے، تو میں نے جواب دیا کہ اگر اس کتاب یا مصنف کے خلاف کارروائی کی، تو اب اگر بیس لوگوں نے کتاب پڑھی ہے، تو پھر دو سو لوگ اسے پڑھیں گے۔
آج کئی سالوں بعد جب درانی صاحب کی اپنی کتاب چھپی ہے، تو اس پر واویلا مچانے کے بعد ہر کوئی اس کو پڑھنے کی جستجو میں ہے۔ حاصل نشست یہ ہے کہ یہ بہت سے رازوں پر مشتمل ایک نئی قسم کی کتاب ہے جو تقریباً یک طرفہ راز ہیں۔ میں اسے تب اچھی کتب کی فہرست میں شامل کرتا، اگر جنرل صاب ’’را‘‘ کے سربراہ کو بھی نئے راز اگلنے پر مجبور کرتے۔ فی الحال تو ایسا لگتا ہے کہ اُن کا ’ٹاپ جاسوس‘ ہمارے ’ٹاپ جاسوس‘ کو بے وقوف بنانے میں کامیاب ہوا ہے۔
…………………………………………..
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا لازمی نہیں۔