حالیہ مردم شماری کے مطابق بنوں کی آبادی 12 لاکھ نفوس پر مشتمل ہے۔ بنوں کے چار صوبائی اور ایک قومی حلقہ ہے۔ امکان ہے کہ لکی مروت کے کچھ علاقوں کو ملا کر بنوں کو ایک دوسرا قومی حلقہ بھی دیا جائے۔ 2018ء کے عام انتخابات کی بازگشت ابھی سے بنوں میں سنائی دے رہی ہے۔ چھوٹے بڑے ابھی سے آئندہ الیکشن کے بارے میں حجروں، پبلک مقامات اور بالخصوص سوشل میڈیا پر اپنی آرا دیتے نظر آتے ہیں۔ بنوں میں سوائے جمیعت علمائے اسلام جس کو نظریاتی ووٹ ملتے تھے، کسی اور پارٹی کو نظریاتی ووٹ نہیں ملتے۔ باقی شخصیات کا الیکشن ہوتا تھا۔ قومی اسمبلی کی نشست دو دفعہ ن لیگ نے جیتی، باقی ہمیشہ جمیعت علمائے اسلام کے حصے میں آئی۔ 2002ء، 2008ء اور 2013ء میں قومی اسمبلی کی نشست مسلسل جمیعت علمائے اسلام فضل رحمان گروپ جیتتی چلی آ رہی ہے، لیکن پاکستان تحریک انصاف کے ابھرنے کے بعد اب بنوں میں حالات یکسر تبدیل ہو گئے ہیں۔ 2013ء میں اگرچہ صوبے کے باقی حصوں کی طرح بنوں میں تحریک انصاف کو کامیابی نہیں ملی، لیکن آزاد حیثیت سے جیتنے والے ملک شاہ محمد، سابق ممبر صوبائی و قومی اسمبلی ملک ناصر خان، سابق وزیر ٹرانسپورٹ ملک عطاء اللہ جان خان مرحوم کے فرزند ملک پختون یار خان، افسر اللہ وزیر جیسے ہیوی ویٹ سیاستدانوں کی پارٹی میں شمولیت سے بنوں میں تحریک انصاف کو بہت ترقی حاصؒ ہوئی۔ پچھلے پانچ سالوں میں حیرت انگیز طور پر پی ٹی آئی بنوں میں ایک مضبوط سیاسی طاقت بن چکی ہے۔ 30 مئی 2015ء کے بلدیاتی الیکشن میں تحصیل اور ڈسٹرکٹ میں سب سے زیادہ سیٹیں پی ٹی آئی کو ملیں لیکن پی ٹی آئی اس فتح کو منیج نہ کر پائی اور بدقسمتی سے ارب پتی اکرم درانی نے اپنا اثر و رسوخ استعمال کرکے پی ٹی آئی کے کچھ ممبران کو خریدا اور بنوں میں تحصیل اور ڈسٹرکٹ میں جمیعت علمائے اسلام کی حکومت بنائی، لیکن مجموعی طور پر اس وقت اگر دیکھا جائے، تو بنوں کی تاریخ میں یہ پہلا الیکشن ہوگا جس میں دو پارٹیوں کو نظریاتی ووٹ کے ساتھ دنگل میں کودنا ہوگا۔ جیسا کہ پہلے بیان ہو چکا کہ بنوں میں ماسوائے جمیعت کے کسی پارٹی کو نظریاتی ووٹ نہیں ملتے، لیکن اس دفعہ پی ٹی آئی کو نظریاتی ووٹ ملے گا۔ اس کا مظاہرہ بلدیاتی الیکشن میں ہوچکا ہے۔ اگر پی ٹی آئی اچھے اور تگڑے امیدوار میدان میں اتارتی ہے، تو یہاں گھمسان کا رن متوقع ہے۔
بنوں کے قومی حلقے میں سابق وزیر اعلیٰ اکرام خان درانی امیدوار ہوں گے۔ موجودہ ایم این اے بھی وہی ہیں۔ درانی کے مقابلے میں پی ٹی آئی کی طرف سے ملک ناصر خان کو اتارنے کا زیادہ امکان ہے۔ سابق امیدوار مولانا نسیم علی شاہ بھی اس دفعہ اس کی حمایت کریں گے۔ پی ٹی آئی کے امیدوار مطیع اللہ کو پچھلے الیکشن میں 25 ہزار ووٹ ملا تھا۔ مولانا نسیم علی شاہ کو 45 ہزار، جب کہ اکرام خان درانی کو 71 ہزار ووٹ ملا تھا۔ اگر پی ٹی آئی کی طرف سے ملک ناصر خان کو میدان میں اتارا جاتا ہے، تو پھر مقابلہ بہت کانٹے کا ہوگا۔
صوبائی اسمبلی پی کے 70 اکرام خان درانی کا آبائی حلقہ ہے۔ وہاں سے بھی اکرام درانی امیدوار ہوں گے۔ اس حلقے سے اکرام درانی مسلسل تین انتخابات سے جیتتے چلے آ رہے ہیں۔ پچھلی دفعہ دو حلقے جیتنے کے بعد آپ نے قومی حلقہ رکھا اور یہ حلقہ اپنے کزن اعظم درانی کے لیے چھوڑا۔ اعظم درانی 3 ہزار کی لیڈ سے ضمنی الیکشن میں کامیاب ہوئے تھے۔ اس کے مقابلے میں پی ٹی آئی کے ملک عدنان کو 20 ہزار ووٹ ملے تھے۔ ملک عدنان اور پی ٹی آئی نے اکرم درانی پر دھاندلی کا الزام بھی لگایا تھا۔ اس حلقے میں پی ٹی آئی کے کئی رہنما ٹکٹ کے خواہشمند ہیں، جن میں ضلعی صدر مطیع اللہ خان، انجینئر اسفندیار خان، سابق ضلعی جنرل سیکرٹری آصف رحمان شامل ہیں، لیکن حلقے کی صورت حال کا اگر جائزہ لیا جائے، تو سب سے مضبوط امیدوار ملک عدنان ہے اور امکان یہی ہے کہ ٹکٹ ملک عدنان کو دیا جائے گا۔
حلقہ پی کے 71 میں موجودہ ایم پی اے فخر اعظم وزیر ہے۔ اس کا تعلق پی پی پی سے ہے۔ وہ سابق وزیر محنت شیر اعظم خان کے فرزند ہیں۔ پی کے 71 میں رنر اَپ امیدوار ملک تیمور باز خان کا تعلق عوامی نیشنل پارٹی سے ہے۔ یہاں جمیعت علمائے اسلام اور پی ٹی آئی کے امیدوار بھی کھڑے تھے، لیکن 2013ء میں اصل مقابلہ اے این پی اور پی پی پی کا تھا۔ اس وقت تحریک انصاف نے وہاں پنجے گاڑھ دیے ہیں۔ یہاں پی پی پی کی طرف سے شیر اعظم وزیر، اے این پی کی طرف سے تیمور باز خان اور پی ٹی آئی کی طرف سے افسر اللہ، انور خان اور فہیم سکندری میں سے ایک کو اتارا جائے گا۔ یہاں مقابلہ ان تین پارٹیوں میں ہوگا۔
پی کے 72 میں موجودہ صوبائی مشیر ملک شاہ محمد کا تعلق پی ٹی آئی سے ہے۔ آپ 2013ء میں آزاد حیثیت سے جیتے تھے اور بعد میں پی ٹی آئی میں شامل ہوئے۔ پی ٹی آئی کی طرف سے غالب امکان یہ ہے کہ اسے ٹکٹ دیا جائے گا، لیکن اس پر جمیعت علمائے اسلام کی طرف سے نااہلی کیس چل رہا ہے۔ اگر اس کیس میں وہ پھنس جاتے ہیں، تو پی ٹی آئی کو نئے امیدوار کی تلاش کرنی ہوگی اور ذرائع کے مطابق نئے امیدواروں میں ڈاکٹر صاحب زمان، سابق ایم پی اے عدنان وزیر یا جعفر شاہ میں سے کسی ایک پر ہاتھ رکھا جائے گا۔ واضح رہے کہ ڈاکٹر صاحب اور عدنان وزیر کا تعلق بالترتیب ن لیگ اور قومی وطن پارٹی سے ہے۔ ان کی پی ٹی آئی میں شمولیت کا فیصلہ ان کی صوابدید پر ہے۔ یہاں امکانات کی بات ہو رہی ہے۔ جے یو آئی کی طرف سے سابق ایم پی اے حامد شاہ کے بارے میں زیادہ امکان ہے کہ وہ میدان میں ہوں گے اور قومی وطن پارٹی کی طرف سے عدنان وزیر۔ چاروں امیدوار یعنی پی ٹی آئی کا، جے یو آئی کا اور قومی وطن پارٹی اور ن لیگ کے مضبوط ووٹ بینک کے حامل ہیں۔
پی کے 73 بنوں کا اہم حلقہ ہے۔ موجودہ ایم پی اے ملک ریاض خان اسی حلقے سے ہے۔ آپ کا تعلق جے یو آئی سے ہے۔ 2018ء کے دنگل کے لیے جے یو آئی نے اکرم درانی کے فرزند زاہد درانی کو اتارا ہے۔ زاہد درانی کا تعلق اس حلقے سے نہیں ہے۔ اس لیے اس کے مخالفین نے اسے ’’امپورٹڈ‘‘ ابھی سے الیکشن بیانیہ بنایا ہے۔ زاہد درانی کے مقابلے میں پی ٹی آئی سے غالب امکان ہے کہ سابقہ امیدوار ملک پختون یار کو میدان میں اتارا جائے گا۔ ملک کا خاندان 1997ء سے اس حلقے میں رنر اَپ رہا ہے۔ 1993ء میں آپ کے والد اس حلقے سے ممبر تھے۔ 2008ء اور 2013ء میں پختونیار کے بھائی اسدیار شہید اور خود پختونیار نے زبردست مقابلہ کیا تھا۔ 2008ء کے انتخابات میں پختون یار محض چند سو ووٹوں کے مارجن سے ہار گئے تھے۔ اس حلقے میں عام بیانیہ یہ ہے کہ 2008ء اور 2013ء میں پختونیار خاندان یہ سیٹ جیتا تھا لیکن ان کے ساتھ زبردست دھاندلی ہوئی۔ پختونیار نے 2013ء کی دھاندلی کے خلاف تپتی دھوپ میں تین دن تک دھرنا بھی دیا تھا لیکن کوئی شنوائی نہیں ہوئی۔ پختونیار کے علاوہ پی ٹی آئی سے دیگر نوجوان لیڈروں کا نام بھی لیا جا رہا ہے لیکن میرے ذرائع کے مطابق یہ ٹکٹ پختونیار کو پی ٹی آئی کی طرف سے ملے گا۔ وزیر اعلیٰ پرویز خٹک نے اس حلقے میں پختونیار پر اپنا دستِ شفقت رکھا ہے۔ اسے تقریباً ایک ارب فنڈ سے نوازا ہے، جو سڑکوں، بجلی کے پراجیکٹس، پل، آبپاشی منصوبوں، مسجدوں کے سولرائزیشن اور گیس و سینٹیشن پراجیکٹس میں استعمال ہوگا۔ پانچ یونین کونسلز پر مشتمل ککی کو تحصیل کا درجہ بھی پختونیار نے دلوایا ہے ۔ ان حالات میں حلقے کے عوام میں پختونیار کے بارے میں بہت اچھی رائے بنی ہے کہ ایک شخص جو بغیر منسٹری اور ممبری کے حلقے کی اتنی خدمت کر سکتا ہے، اگر منسٹر یا ممبر بنتا ہے، تو پھر تو حلقے کو مثالی حلقہ بنا سکے گا۔
پاکستان تحریک انصاف نے بنوں کو مجموعی طور پر پانچ ارب کا فنڈ دیا ہے۔ ایک ارب حلقہ پی کے 73 کو، دو ارب پی کے 72 کو، ڈیڑھ ارب سے دو ارب تک بنوں سٹی، پی کے 70 اور 71 کو۔ جمیعت علمائے اسلام بھی یہاں کی مضبوط جماعت ہے ۔ ان کی لیڈروں نے بھی بنوں میں کئی ایک بڑے پراجیکٹ کیے ہیں۔ اے این پی اور پی پی پی بھی ایک حلقے کی حد تک مضبوط ہیں۔ دیکھتے ہیں اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے؟ فی الحال تو یوں لگ رہا ہے کہ بنوں میں پی ٹی آئی اور جمیعت کے درمیان گھمسان کا رن ہوگا۔
………………………………………………………..
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔