یاد کرتا ہے زمانہ انہی انسانوں کو

موت ایک اٹل حقیقت ہے، اس سے انکار ممکن نہیں۔ دنیا میں روز لاکھوں انسان پیدا ہوتے ہیں اور لاکھوں فنا ہوتے ہیں لیکن ان میں سے بہت کم ایسے ہوتے ہیں جو اپنے پختہ اور صاف کردار، اصول، امانت، صبر اور حب الوطنی کی صفات سے مالا مال ہوتے ہیں۔ ایسے لوگ اگر دنیا سے چلے جاتے ہیں، تو اپنے پیچھے خوشگوار یادیں چھوڑ کر تاریخ میں امر ہوجاتے ہیں۔ مذکورہ صفات کے حامل انسانوں میں ریٹائرڈ ائیر مارشل اصغر خان (مرحوم) بھی شامل ہیں جن کا گذشتہ پانچ جنوری 2018ء کو ستانوے سال کی عمر میں انتقال ہوا۔ کالم تحریر کرتے وقت ہمیں اُردو کی ایک پرانی اُردو فلم ’’ہم راہی‘‘ کے ایک گانے کے درج ذیل ابتدائی بول یاد آئے جو ائیر مارشل (مرحوم) پہ صادق آتے ہیں۔
یاد کرتا ہے زمانہ اُنہی انسانوں کو
روک لیتے ہیں جو بڑھتے ہوئے طوفانوں کو
(ریٹائرڈ) ائیر مارشل اصغر خان (مرحوم) جنہیں لوگ بابائے فضائیہ اور شاہین پاکستان کے نام سے بھی یاد کرتے ہیں، تاریخ میں پہلے مسلمان ائیر مارشل ہیں۔ 1965ء کی پاک بھارت جنگ سے پہلے آپ پاک فضائیہ کے سربراہ تھے۔ جنگِ ستمبر 1965ء سے تھوڑا عرصہ پہلے ریٹائرڈ ہوئے۔ ان کی ریٹائرمنٹ کے بعد ائیر مارشل نور خان کو پاک فضائیہ کا سربراہ بنایا گیا لیکن ایئر مارشل اصغر خان (مرحوم) نے اپنے دور میں اپنی خداداد صلاحیت اور انتھک محنت سے پاکستان ائیر فورس کو بہترین تعلیم و تربیت، ہنر اور آلات سے آراستہ کرکے اسے دنیا کی بہترین اور ناقابل تسخیر قوت بنایا۔ یہی وجہ ہے کہ 1965ء کی پاک بھارت جنگ میں پاک فضائیہ نے دشمن کے خلاف تاریخی کردار ادا کیا۔

مرحوم کی قائد اعظم کے ساتھ ایک نایاب تصویر (Photo: Dawn)

ائیر فورس سے ریٹائرمنٹ کے بعد (مرحوم) کو پی آئی اے کا چیئر مین بنا دیا گیا۔ ان کی سربراہی میں پی آئی اے نے کافی ترقی کی اور ان ہی کی قائدانہ صلاحیتوں اور کاوشوں کی وجہ سے پی آئی اے دنیا کی بہترین ائیر لائن بن گئی۔ یہاں تک کہ اس زمانے میں ’’با کمال لوگ لاجواب سروس‘‘ کا نعرہ پی آئی اے کا موٹو بلکہ مونو گرام بن گیا۔ ان کے چیئرمین شپ کے زمانے کی بات ہے کہ ایک دن گورنر مشرقی پاکستان عبدالمنعم خان کراچی سے بذریعہ پی آئی اے ڈھاکہ واپس جارہے تھے۔ مقررہ دن کسی وجہ سے گورنر عبدالمنعم خان فلائٹ روانگی سے دس منٹ بعد پہنچے، تو فلائٹ روانہ ہوچکی تھی۔ اس بات کا گورنر عبدالمنعم خان کونہایت رنج ہوا۔ انہوں نے یہ بات بطورِ شکایت صدر ایوب خان (مرحوم) کے گوش گزار کی۔ صدر نے یہ بات ائیر مارشل (مرحوم) سے کی، تو ائیر مارشل اصغر خان (مرحوم) نے کہا کہ پی آئی اے کی فلائٹ کے اپنے مقررہ اوقات ہوتے ہیں۔ گورنر صاحب کوپابندیٔ اوقات اور ڈسپلن پر پی آئی اے کی ستائش کرنی چاہئے تھی، نہ کہ شکایت۔ پی آئی اے سے سبک دوشی کے بعد (مرحوم) ائیر مارشل نے عملی سیاست میں قدم رکھا اور تحریکِ استقلال کے نام سے ایک ملک گیر سیاسی پارٹی بنائی۔ 1970ء میں ہم جماعت ہشتم میں پڑھتے تھے۔ گراسی گراؤنڈ مینگورہ میں تحریک استقلال کا جلسہ تھا۔ ہم بھی جلسہ میں موجود تھے۔ ائیر مارشل (مرحوم) نے ایک واقعہ سنایا کہ برطانوی دور میں وہ پائلٹ تھے۔ انگریز حکومت نے انہیں پیرپگاڑا خاندان پر بمباری کرنے کا حکم دیا، لیکن انہوں نے صاف انکار کیا۔
1977ء میں بھٹو (مرحوم) حکومت کے خلاف پی این اے کی تحریک میں ائیر مارشل (مرحوم) نے بھر پور حصہ لیا۔ حالات جب زیادہ سنگین ہوتے رہے، تو ائیر مارشل نے ہی اس وقت کے آرمی چیف جنرل ضیاء الحق (مرحوم) کو آئینی کردار ادا کرنے کے لیے خط لکھا تھا۔ بعد میں جنرل ضیاء الحق نے مارشل لا نافذ کرکے اقتدار سنبھال لیا۔ چناں چہ کئی لوگ مارشل لا کے نفاذ کا ذمہ دار ائیر مارشل صاحب کو ہی ٹھہراتے تھے۔ اس بارے ائیر مارشل (مرحوم) کہا کرتے تھے کہ انہوں نے فوج کو اقتدار سنبھالنے کی دعوت اس لیے دی تھی کہ وہ تین ماہ کے اندر اندر انتخابات کروا کر اقتدار پُرامن طور پر عوامی نمائندوں کو سونپ دے لیکن یہ انسانی فطرت ہے کہ ایک دفعہ کرسیِ اقتدار کا مزہ کوئی لے، تو تاحیات اس سے چمٹا رہنے کی کوشش کرتا ہے۔

برطانوی دور میں وہ پائلٹ تھے۔ انگریز حکومت نے انہیں پیرپگاڑا خاندان پر بمباری کرنے کا حکم دیا، لیکن انہوں نے صاف انکار کیا۔ (Photo: The News International)

جیسا کہ دنیا جانتی ہے کہ پاکستانی سیاست جھوٹ، فریب، منافقت، سرمایہ پرستی اور کرپشن کا ملغوبہ ہے، تو ظاہر ہے کہ ایسی سیاست میں ائیر مارشل (مرحوم) جیسے صاف ستھرے اور کھرے کردار اور امانت وراستی کا پیکر کس طرح چل سکتا تھا؟ لہٰذا گذشتہ کافی عرصہ سے ائیر مارشل صاحب خاموشی اور گوشہ نشینی کی زندگی گزارتے رہے۔ انہوں نے ملک کی مشہور بینک سکینڈل کو بھی عدالت میں چیلنج کیا تھا، لیکن ان کی زندگی میں اس کا فیصلہ نہ ہوسکا۔
(مرحوم) ائیر مارشل مڈل کلاس سے تعلق رکھتے تھے۔ وہ جاگیردار تھے نہ سرمایہ دار۔ اتنے بڑے اور کلیدی عہدے پر فائز ہونے کے باوجود انہوں نے جاگیر بنائی نہ فارمز، نہ ان کے کارخانے تھے اور نہ اندرون و بیرونی ملک اکاؤنٹس یا پراپرٹی اور نہ ان کے کوئی مالیاتی یا اخلاقی سکینڈلز بنے۔ وہ ایک صاف گو اور صاف کردار کے آدمی تھے۔ اُن کی وفات سے ایک اُجلی شخصیت اور اُن سے وابستہ ایک زریں عہد کا خاتمہ ہوا۔ خدا انہیں کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے۔
ایسے لوگ صدیوں بعد پیدا ہوتے ہیں۔ بقول شاعر
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا

……………………………………….

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔