میں اکثر اُن چھوٹے چھوٹے مدرسوں کے طلبہ سے جو صبح سویرے وظیفہ مانگنے دروازے پر دستک دیتے ہیں، پوچھتا ہوں کہ بیٹے! آپ کہاں کے رہنے والے ہیں؟ جواب ملتا ہے: ٹال دردیال، قلاگے وغیرہ۔
پھر پوچھتا ہوں کہ مدرسے میں کیا پڑھ رہے ہو؟ تو آگے سے جواب آتا ہے، ناظرہ یا تجوید۔ تو میرے ذہن میں یہ سوال آتا ہے کہ ایسا کون سا ناظرہ یا تجوید ہے، جو ٹال دردیال میں نہیں پڑھایا جاسکتا اور جس کے لیے والدین کو اپنے لختِ جگر یہاں کانجو بھیجنا پڑ رہا ہے۔
سوچ بچار کے بعد اس نتیجے پر پہنچا کہ اس کے کچھ دیگر عوامل ہیں۔ پاکستان میں مدارس کو دین کا قلعہ سمجھا جاتا ہے۔ یہاں علمِ دین کے متلاشی نوجوان، قرآنی تعلیمات اور سیرتِ نبویؐسے آشنا ہوکر راہِ ہدایت تلاش کرتے ہیں…… مگر اگر حقیقت کی آنکھ سے دیکھیں، تو ایک تلخ پہلو سامنے آتا ہے، جس پر شاید ہم میں سے بہت کم توجہ دیتے ہیں۔ مدارس میں زیرِ تعلیم لاکھوں بچوں کی ایک بڑی تعداد اُن معصوم روحوں پر مشتمل ہے، جو علم کے شوقین نہیں، بل کہ غربت اور مجبوری کے مارے وہاں آتے ہیں۔
گاؤں، دیہات اور چھوٹے شہروں کے ہزاروں والدین کے لیے اپنے بچوں کو کسی اچھے اسکول میں داخل کرانا ایک خواب ہے۔ کتابوں، یونیفارم، فیس اور ٹرانسپورٹ کے اخراجات ان کے بس سے باہر ہوتے ہیں۔ ان والدین کے لیے مدارس ایک سہارا بن جاتے ہیں، جہاں کم از کم دو وقت کی روٹی، رہنے کو چھت اور جسم ڈھانپنے کے لیے کپڑے کی دست یابی یقینی ہوتی ہے۔ دین سیکھنا یا نہ سیکھنا ثانوی بات بن جاتی ہے، ترجیح محض یہ ہوتی ہے کہ بچے کو بنیادی ضروریات فراہم ہوجائیں۔
مدارس ان بچوں کے لیے علم کا منبع نہیں، بل کہ مجبوری کی ایک قید بن جاتے ہیں۔ بچہ خود اپنی مرضی سے مدرسے نہیں جاتا، والدین اپنی بے بسی کی تھپکی دے کر اُسے مدرسے کی دہلیز پر چھوڑ آتے ہیں۔ وہاں وہ معصوم چہرہ جو اسکول میں دوستیوں کے خواب دیکھ سکتا تھا، مدرسے کی چار دیواری میں اُستاد کے ڈنڈے اور رٹے رٹائے اسباق کے سائے میں قید ہوجاتا ہے۔
یہ بات ہرگز مدارس کے کردار کو کم زور کرنے کے لیے نہیں کہی جا رہی۔ کیوں کہ مدارس معاشرے میں ایک اہم دینی و فلاحی کردار ادا کرتے ہیں، اور کئی مدارس میں بچوں کو شفقت اور محبت سے تعلیم دی جاتی ہے…… مگر افسوس کہ ایک بڑی تعداد ایسے مدارس کی بھی ہے، جو محض روایتی انداز میں تعلیم دیتے ہیں۔ وہاں بچے کو علم سکھانے کے بہ جائے رٹوانے پر زور دیا جاتا ہے۔ سبق یاد نہ ہونے پر مار پیٹ اور سخت سزائیں معمول بن جاتی ہیں۔ بچپن، جس کا مطلب آزادی، کھیل اور معصوم خواب ہونا چاہیے، وہاں پابندی، سختی اور خوف کی علامت بن جاتا ہے ۔
مسئلہ صرف دینی تعلیم تک محدود رہنے کا نہیں، مسئلہ اُن بچوں کے مستقبل کا ہے۔ مدارس کے ہزاروں فارغ التحصیل بچے زندگی میں آگے بڑھنے کے مواقع سے محروم رہ جاتے ہیں۔ اُنھیں کوئی ہنر آتا ہے، نہ دنیاوی تعلیم ہی میسر ہوتی ہے کہ وہ خود کو بدلتے وقت کے مطابق ڈھال سکیں۔ نتیجتاً، وہ یا تو دوبارہ اسی نظام کے حصہ بن جاتے ہیں، یا ساری عمر روزگار کے دروازوں پر دستک دیتے رہتے ہیں۔
حل کیا ہے؟
یہ ریاست کی بنیادی ذمے داری ہے کہ ہر بچے کو معیاری، مفت اور لازمی تعلیم دے۔ والدین کی غربت بچوں کا مستقبل برباد کرنے کا جواز نہیں بننی چاہیے۔ غریب خاندانوں کی معاشی مدد کی جائے۔ اُن کے بچوں کے لیے اسکول میں وظیفہ اور بنیادی ضروریات فراہم کی جائیں، تاکہ وہ صرف مجبوری کے تحت اپنے بچوں کو مدارس میں نہ بھیجیں۔
مدارس میں دینی تعلیم کے ساتھ دنیاوی تعلیم اور فنی تربیت شامل کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ بچوں کو صرف حافظ یا عالم نہیں، ایک باشعور، بااعتماد اور ہنر مند فرد بنانا چاہیے۔ نصاب میں جدید مضامین، کمپیوٹر تعلیم اور ذہنی تربیت کو بھی شامل کیا جائے۔
والدین کو بھی یہ سمجھانے کی ضرورت ہے کہ دینی تعلیم بلاشبہ ضروری ہے، مگر بچوں کو صرف دو وقت کی روٹی کے بدلے مدارس میں بھیج دینا ان کا حق تلف کرنے کے مترادف ہے۔ تعلیم بچے کا بنیادی حق ہے اور اس حق میں دنیاوی تعلیم کو بھی شامل کرنا چاہیے ۔
معاشرتی سطح پر عوامی شعور پیدا کیا جائے۔ میڈیا، سوشل پلیٹ فارم اور تعلیمی اداروں کے ذریعے یہ پیغام عام کیا جائے کہ مدرسہ صرف ایک پناہ گاہ نہیں، علم حاصل کرنے کا ادارہ ہے۔ وہاں وہی بچے آئیں، جو خود دینی علم حاصل کرنا چاہتے ہیں، نہ کہ وہ جو بھوک اور غربت کے ہاتھوں مجبور ہو کر آتے ہیں۔
نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ مدارس کی دیواروں میں مقید یہ معصوم چہرے ہم سے سوال کرتے ہیں: کیا ہم نے اُنھیں علم کا سفر کرنے دیا، یا محض غربت کا قیدی بنا دیا؟
اگر ہم نے اب بھی سنجیدہ اقدامات نہ کیے، تو یہ معصوم زندگیاں ہمارے اجتماعی ضمیر پر ایک بوجھ بن کر رہ جائیں گی۔ ہمیں فیصلہ کرنا ہوگا کہ ہم اپنے بچوں کو علم کا مسافر بنانا چاہتے ہیں یا مجبوریوں کا قیدی۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔










