ماحولیاتی المیہ

Blogger Journalist Comrade Amjad Ali Sahaab

دریاؤں میں طغیانی، گلیشیئر پھٹنے کے خطرات (GLOFs) اور مون سون کی شدید بارشوں کی پیشین گوئیوں کے ساتھ، پاکستان ایک اور ممکنہ سیلابی تباہی کے دہانے پر کھڑا ہے۔ 26 جون سے اب تک، ملک میں اَن گنت قیمتی جانیں اچانک آنے والے سیلابوں اور مکانات کے منہدم ہونے کی وجہ سے ضائع ہو چکی ہیں، جس کی وجہ سے 2022ء کے تباہ کن سیلاب کی دردناک یادیں تازہ ہو گئی ہیں۔ مذکورہ سیلاب میں سیکڑوں افراد جان بہ حق، لاکھوں بے گھر اور 33 ارب ڈالر سے زائد کا معاشی نقصان اٹھانا پڑا تھا۔ اقوامِ متحدہ نے اُس وقت مذکورہ سیلاب کو ’’ماحولیاتی المیہ‘‘ (Climate Catastrophe) قرار دیا تھا، جنھوں نے پاکستان کے سیلاب کی پیشگی وارننگ اور آفات سے نمٹنے کے نظام میں موجود سنگین ترین خامیاں یا کمیوں کی نقاب کشائی کردی۔
تاہم، سوات (خیبر پختونخوا کا ایک ضلع) میں حالیہ سانحے، جہاں بپھرے ہوئے دریا نے کئی سیاحوں کو موت کی آغوش میں سُلا دیا، یہ ظاہر کرتا ہے کہ مذکورہ خامیوں کو دور کرنے کی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی گئی۔ حالیہ ایک تحقیقاتی رپورٹ نے اُن علاقوں میں نمایاں ’’ٹیلی میٹری خلا‘‘ کی باقاعدہ طور پر نشان دہی کی ہے، جو سیلاب کا زیادہ شکار ہوتے ہیں۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اگر موثر اور فعال ابتدائی سیلاب وارننگ سسٹم ہوتا، تو پانی کے اچانک اضافے کی بالکل وقت پرپیشین گوئی کی جا سکتی تھی، جس سے سیاحوں کی جان بچائی جا سکتی تھی۔ رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ ریسکیو عملے کے پاس ضروری اوزار سرے سے موجود نہیں تھا، جن کی مدد سے وہ لوگوں کو بچا پاتے۔
پاکستان دنیا کے اُن ممالک میں شامل ہے، جو موسمیاتی تبدیلیوں کے خطرات سے سب سے زیادہ دوچار ہیں۔ شدید موسم کے واقعات جیسے کہ سیلاب، شدید گرمی، خشک سالی اور موسلا دھار بارشیں، گذشتہ چند دہائیوں میں تیزی سے بڑھ گئی ہیں، لیکن اس کا بالکل یہ مطلب نہیں کہ موسمیاتی تبدیلی کو سیلاب کی ابتدائی وارننگ کے نظام میں خامیوں یا آفات سے نمٹنے کی تیاری کی کمی کو جواز بنانے کے طور پر استعمال کیا جائے۔
دیگر ممالک کا تجربہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ ابتدائی پیشین گوئی اور بروقت اطلاع رسانی کا عمل، مون سون کے سیلاب سے واقع ہونے والی اموات کی تعداد کو نمایاں طور پر کم کر سکتا ہے۔ اسی طرح، سیلاب برداشت کرنے والا انفراسٹرکچر معاشی نقصان کو بڑی حد تک کم کرنے میں مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔ حال ہی میں، نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) کے چیئرمین نے آفات کے اثرات کو کم کرنے کے لیے پیشگی تیاری اور بروقت انتباہات جاری کرنے کی اہمیت پر زور دیا تھا۔ اُنھوں نے مختلف سرکاری محکموں اور اداروں کے درمیان مربوط کوششوں کی بھی تاکید کی تھی۔ این ڈی ایم اے کے چیئرمین کے اس عمل سے ظاہر ہوتا ہے کہ شعور تو موجود ہے، مگر عمل درآمد کی کمی ہے۔
جب موسمی آفات کے واقعات کی شدت اور تکرار بڑھتی جا رہی ہو، تو پاکستان ہر سانحے کے بعد انکار کی حالت میں کہا رہ سکتا ہے۔ ہر سال کی بے عملی کا مطلب ’’مزید جانیں خطرے میں ڈالنا‘‘ اور ’’بچاو اور بہ حالی کی لاگت میں اضافہ کرنا‘‘ ہی ہے۔ اگرچہ وزیرِ اعظم اور دیگر حکومتی اہل کار موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کو اُجاگر کرنے میں تھکنے کا نام نہیں لیتے، لیکن سیلاب وارننگ سسٹم اور آفات سے نمٹنے کی تیاری کے لیے درکار سرمایہ کاری کی کمی، ترقیاتی ترجیحات کی غلط سمت اور بیوروکریسی کی سست روی کو بہ ہر حال ظاہر کرتی ہے…… مگر اب بے دلی سے اٹھائے گئے اقدامات کا وقت ختم ہوچکا ہے۔
جب تک ہم اپنی ترقیاتی پالیسیوں کو از سرِ نو ترتیب دے کر کم زور اور خطرے سے دوچار طبقات کو قومی پالیسی سازی کے مرکز میں نہیں لاتے، یہ ملک موسمیاتی تبدیلی سے پیدا ہونے والی تباہیوں کا شکار ہوتا رہے گا۔ اب وقت آ گیا ہے کہ حکومت سیلاب سے محفوظ انفراسٹرکچر، ٹیلی میٹری اسٹیشن اور آفات سے نمٹنے کی تیاری کے عمل میں سرمایہ کاری کو ترجیح دے، تاکہ عوام اور معیشت کو بدلتے ہوئے موسمیاتی منظرنامے کے مضر اثرات سے محفوظ رکھا جاسکے۔
(اداریہ: روزنامہ ڈان، شائع شدہ 6 جولائی 2025ء، مترجم "کامریڈ امجد علی سحابؔ”)

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے