وزیرِ اعلا پنجاب مریم نواز کے وِژن ’’ہنر مند اسیر‘‘ کے تحت پنجاب کی جیلیں اب جرائم کی یونیورسٹیاں نہیں، بل کہ اصلاح گھر بنتی جارہی ہیں، جہاں قیدی نہ صرف ہنر مند بن رہے ہیں، بل کہ جیل کے اندر بیٹھ کر پیسے بھی کما نا شروع ہوچکے ہیں۔ ان سب کاموں کا کریڈٹ بلا شبہ آئی جی جیل خانہ جات میاں فاروق نذیر کو جاتاہے، جنھوں نے پنجاب کی مختلف جیلوں میں ہنرمندی کے شعبہ جات قائم کرنے میں دن رات کام کیا اور اب پنجاب کی جیلوں میں عالمی معیار کے سامان کی تیاری کا آغاز ہوچکا ہے۔
جیل کے اندر تیار کیے جانے والے کھیلوں کا سامان، جوتے اور ہینڈی کرافٹس (دست کاری) نے تو سب کو مات دے دی، جب کہ باقی شعبوں ٹیلرنگ، پلمبنگ اور کار پینٹر جیسے کاموں میں بھی پنجاب کی جیلیں سب سے آگے ہیں۔ ان کاموں سے قیدیوں کی زندگی میں مثبت تبدیلیاں لانے اور اُنھیں معاشرے میں دوبارہ سے مفید اور کارآمد شہری بننے میں مدد ملے گی۔
میاں فاروق نذیر پنجاب کی جیلوں کے سربراہ ہیں۔ اُن کا عہدہ انسپکٹر جنرل آف پریزنز کہلاتا ہے۔ وہ صوبے کی تمام 43 جیلوں کے انتظام اور نگرانی کے ذمے دار ہیں۔ میاں فاروق نذیر ایک سینئر پولیس آفیسر ہیں اور ان کے پاس جیل انتظامیہ کا وسیع تجربہ ہے۔ اُنھوں نے قیدیوں کی فلاح و بہبود اور جیلوں میں اصلاحات لانے کے لیے کئی اقدامات کیے ہیں۔ اگر جیلوں کے حوالے سے ان کی ذمے داریوں کا ذکر کیا جائے، تو جیلوں میں امن و امان برقرار رکھنا، قیدیوں کی حفاظت کو یقینی بنانا، قیدیوں کو مناسب خوراک، رہایش اور طبی سہولیات فراہم کرنا، قیدیوں کی تعلیم و تربیت کا انتظام کرنا، تاکہ وہ معاشرے کے کار آمد شہری بن سکیں، جیل کے عملے کی تربیت اور کارکردگی کی نگرانی کرنا، جیلوں میں اصلاحات کے لیے پالیسیاں بنانا اور ان پر عمل در آمد کروانااہم ترین ذمے داری ہے، جسے وہ اپنی ٹیم کے ذریعے بہ خوبی سرانجام دے رہے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ پنجاب کی جیلیں سندھ، بلوچستان اور خیبر پختونخوا سے یقینی طور پر بہتر ہیں۔ حالاں کہ پنجاب کی جیلیں اپنی گنجایش سے 173.6 فی صد زیادہ بھری ہوئی ہیں، جو کہ ملک بھر میں بند قیدیوں میں سے سب سے زیادہ ہے۔ سندھ میں یہ شرح 161.42 فی صد، بلوچستان میں 115.60 فی صد اور خیبر پختونخوا میں 102.50 فی صد ہے۔
آئی جی جیل خانہ جات پنجاب میاں فاروق نذیر نے قیدیوں کی فلاح و بہبود اور جیلوں میں اصلاحات لانے کے لیے بہت اہم اقدامات کیے ہیں، جن میں نئی بیرکوں کا قیام، جدید جیل ہسپتال، قیدیوں کے لیے ہنر مندی کے پروگرام اور لائبریریوں کا قیام اس طر ح کے اصلاحاتی پروگرام دیگر صوبوں میں نمایاں نظر نہیں آتے۔ اگر جیلوں میں اخراجات کے حوالے سے دیکھا جائے، تو خیبر پختونخوا قیدیوں پر یومیہ خرچ کے لحاظ سے پنجاب اور سندھ سے آگے ہے اور بلوچستان ان سب جیلوں سے زیادہ خرچ کرنے والا صوبہ ہے۔ پنجاب اور سندھ فی قیدی یومیہ تقریباً ایک جیسی رقم خرچ کرتے ہیں۔
جیلوں میں اگر ملازمین کی تربیت کے حوالے سے بات کی جائے، تو بلوچستان 70 فی صد جیل عملہ غیر تربیت یافتہ ہے اور صوبے میں کوئی تربیتی مرکزبھی موجود نہیں، جب کہ پنجاب میں نیشنل اکیڈمی فار پریزنز ایڈمنسٹریشن (NAPA) موجود ہے، جو جیل کے عملے کی تربیت میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ پنجاب کی جیلیں نہ صرف قیدیوں کو اُن کے جرائم کی سزا دیتی ہیں، بل کہ اُنھیں معاشرے کے کار آمد فرد کے طور پر دوبارہ بہ حال کرنے میں بھی اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ اس مقصد کے حصول کے لیے جیلوں میں مختلف ہنر مندانہ کاموں کی تربیت اور مواقع فراہم کیے جاتے ہیں، جو قیدیوں کو نہ صرف دورانِ قید مصروف رکھتے ہیں، بل کہ رہائی کے بعد باعزت روزگار کمانے کے قابل بھی بناتے ہیں۔
پنجاب کی جیلوں میں رائج ہنر مندانہ کاموں کی ایک وسیع رینج موجود ہے، جہاں قیدیوں کی دل چسپی، تعلیمی قابلیت اور جیل کے وسائل کو مدنظر رکھتے ہوئے تربیتی پروگرام ترتیب دیے جاتے ہیں۔ ان کاموں کو بنیادی طور پر دو حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے: روایتی ہنر مندانہ کام اور جدید ہنر مندانہ کام۔
٭ روایتی ہنر مندانہ کام:۔ یہ وہ کام ہیں، جو طویل عرصے سے جیلوں میں رائج ہیں اور جن میں مہارت حاصل کرنے کے بعد قیدی بہ آسانی روزگار حاصل کرسکتے ہیں۔ ان میں سے چند اہم کام یہ ہیں:
٭ درزی کا کام (ٹیلرنگ):۔ یہ ایک مقبول ہنر ہے، جس میں قیدی مردانہ، زنانہ اور بچوں کے کپڑے سلائی کرنا سیکھتے ہیں۔ اُنھیں سلائی مشینوں کا استعمال، کپڑوں کی کٹنگ اور مختلف ڈیزائن بنانے کی تربیت دی جاتی ہے۔ جیلوں میں قیدیوں کے لیے وردیاں اور دیگر کپڑے بھی عموماً یہی قیدی تیار کرتے ہیں۔
٭ بڑھئی کا کام (کارپینٹر):۔اس ہنر کے تحت قیدی لکڑی سے مختلف اشیا بنانا سیکھتے ہیں، جن میں فرنیچر، دروازے، کھڑکیاں اور دیگر آرایشی سامان شامل ہیں۔ انھیں لکڑی کاٹنے، جوڑنے اور پالش کرنے کی تربیت بھی دی جاتی ہے۔
٭ لوہار کا کام (بلیک اسمتھ):۔ اگرچہ یہ ہنر اب پہلے کی طرح عام نہیں رہا، لیکن بعض جیلوں میں قیدی لوہے سے مختلف اوزار اور دیگر ضروری اشیا بنانا سیکھتے ہیں۔ انھیں بھٹی استعمال کرنے اور لوہے کو شکل دینے کی تربیت دی جاتی ہے۔
٭ جوتے سازی (شو میکنگ):۔ اس ہنر کے تحت قیدی مختلف قسم کے جوتے بنانا اور ان کی مرمت کرنا سیکھتے ہیں۔ انھیں چمڑے کی کٹائی، سلائی اور جوڑوں کو جوڑنے کی تربیت دی جاتی ہے۔ اس وقت پنجاب کی جیلوں میں بہترین جوتے تیار ہورہے ہیں، جو کسی بھی بین الاقوامی برانڈ سے کم نہیں۔
٭ قالین بافی (کارپیٹ ویونگ):۔ بعض جیلوں میں قیدیوں کو قالین بافی کی تربیت بھی دی جاتی ہے، جس میں وہ مختلف ڈیزائنوں کے خوبصورت اور قیمتی قالین تیار کرتے ہیں۔ یہ ایک ایسا ہنر ہے، جس میں صبر اور توجہ کی ضرورت ہوتی ہے۔
اس طرح اگر جدید ہنر مندانہ کاموں کا ذکر کیا جائے، تو ان میں کمپیوٹر کی تربیت، جیلوں میں قیدیوں کو ایم ایس آفس (ورڈ، ایکسل، پاورپوائنٹ) اور انٹرنیٹ کے بنیادی استعمال کی تربیت دی جاتی ہے۔ بعض جیلوں میں گرافک ڈیزائننگ اور ویب ڈویلپمنٹ جیسے جدید کورسز بھی کرائے جاتے ہیں۔
٭ پلمبنگ:۔ یہ ایک ایسا ہنر ہے جس کی ہر جگہ ضرورت ہوتی ہے۔ قیدیوں کو پائپ لائن کی تنصیب، مرمت اور دیگر متعلقہ کاموں کی تربیت دی جاتی ہے۔
٭ الیکٹریشن:۔ اس میں قیدیوں کو بجلی کی وائرنگ، مرمت اور مختلف برقی آلات کے استعمال کی تربیت دی جاتی ہے۔ یہ ایک ایسا ہنر ہے جس میں حفاظتی اصولوں کی سختی سے پابندی کرنا سکھایا جاتا ہے۔
٭ آٹو مکینک:۔بعض بڑی جیلوں میں قیدیوں کو گاڑیوں کی بنیادی مرمت اور دیکھ بھال کی تربیت بھی دی جاتی ہے۔
٭ بیوٹی پارلر:۔خواتین قیدیوں کے لیے بیوٹی پارلر کے مختلف کورسز جیسے میک اَپ، ہیئر اسٹائلنگ اور سکن کیئر کی تربیت فراہم کی جاتی ہے۔
مذکورہ تمام ہنر مندانہ کاموں کے بہت سے فوائد سامنے آرہے ہیں۔ یہ قیدیوں کو ایک مثبت مشغلہ فراہم کرتے ہیں اور انھیں مجرمانہ سرگرمیوں سے دور رکھنے میں مددگار ثابت ہوتے ہیں اور تربیت حاصل کرنے کے بعد قیدی رہائی کے بعد اپنا روزگار تلاش کرنے یا اپنا کاروبار شروع کرنے کے قابل ہو جاتے ہیں، جس سے وہ معاشرے پر بوجھ نہیں بنتے، جب کہ قیدی جیل میں کام کر کے آمدنی بھی حاصل کر تے ہیں، جس سے وہ اپنے اہلِ خانہ کی مدد کر سکتے ہیں، یا رہائی کے بعد اپنے لیے کچھ رقم جمع کر سکتے ہیں۔
ان کاموں کی سب سے اہم بات یہ بھی ہے کہ جب قیدی کوئی نیا ہنر سیکھتے ہیں اور اس میں مہارت حاصل کرتے ہیں، تو اُن کے اعتماد میں اضافہ ہوتا ہے اور وہ خود کو معاشرے کا ایک کار آمدشہری محسوس کرتے ہیں۔
اس طرح ہنر مندانہ کاموں میں مشغول قیدی زیادہ نظم و ضبط کا مظاہرہ کرتے ہیں اور جیل کا ماحول بھی نسبتاً پُرسکون رہتا ہے۔
پنجاب کی جیلوں میں ہنر مندانہ کاموں کی فراہمی ایک مثبت قدم ہے، لیکن اس میں کچھ چیلنج بھی موجود ہیں، جن پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
بعض جیلوں میں مناسب تربیت کے لیے ناکافی وسائل، جیسے کہ اوزار، مشینیں اور تربیت کاروں کی کمی ہے، جب کہ قیدیوں کی تیار کردہ مصنوعات کو مارکیٹ تک پہنچانے اور ان کی فروخت کو یقینی بنانے کے لیے مارکیٹنگ کا موثر نظام موجود نہیں۔ جیلوں میں اگر کرپشن کی بات کی جائے، تو اس وقت پنجاب کی چند اہم جیلوں میں مبینہ طور پر لوٹ مار کا سلسلہ جاری ہے، جن کی نشان دہی بھی کی جاسکتی ہے۔
ان چیلنجوں پر قابو پا کر پنجاب کی جیلیں قیدیوں کی اصلاح اور بہ حالی کے عمل کو مزید موثر بنا سکتی ہیں۔
حکومت اور متعلقہ اداروں کو چاہیے کہ وہ جیلوں میں ہنر مندانہ تربیت کے پروگراموں کو مزید وسعت دیں۔ جدید کورسز متعارف کروائیں۔ وسائل کی فراہمی کو یقینی بنائیں اور قیدیوں کی رہائی کے بعد ان کی مدد کے لیے موثر اقدامات کریں۔ اس طرح پنجاب کی جیلیں نہ صرف سزایا قید کی جگہیں رہیں گی، بل کہ اصلاح اور بہ حالی کے مراکز کے طور پر بھی اپنی اہمیت کو اجاگر کریں گی۔
یہاں ایک اور بات کا ذکر بھی ضروری ہے کہ سابق آئی جی جیل خانہ جات مرزا شاہد سلیم بیگ نے بھی اپنے دور میں جیلوں میں بند قیدیوں اور جیلوں کے ملازمین کے فلاح و بہبود کے لیے بہت سے اقدامات کیے تھے، جو قابلِ تعریف ہیں۔ اس حوالے سے وہ خراجِ تحسین کے لائق ہیں۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔










