پاکستان پیپلز پارٹی کی رہ نما اور ترجمان محترمہ شازیہ مری نے کہا ہے کہ وفاقی حکومت آئین کی مسلسل اور کھلی خلاف ورزی کر رہی ہے۔ اپنی اتحادی جماعت کو فیصلہ سازی میں اعتماد میں نہیں لیا جا رہا، جس دن پیپلز پارٹی نے اپنی حمایت ختم کر دی اُسی روز وفاقی حکومت بھی ختم ہو جائے گی۔
اپنے بیان میں شازیہ مری نے ’’میری ٹائم اینڈ سی پورٹ اتھارٹی‘‘ کے حوالے سے سخت ردِعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ وفاقی حکومت متواتر ایسے فیصلے کر رہی ہے، جن کے حوالے سے اعتماد میں نہیں لیا جا رہا۔ ’’پاکستان میری ٹائم اینڈ سی پورٹ اتھارٹی‘‘ کے قیام پر حکومت نے ہمیں اعتماد میں نہیں لیا۔ بار بار ہم یہ بات دہرا رہے ہیں کہ وفاقی حکومت کو پیپلز پارٹی کی حمایت حاصل ہے، جس دن یہ حمایت ختم کر دیں گے، وفاقی حکومت ختم ہو جائے گی۔
اُنھوں نے گذشتہ 11 ماہ سے مفاداتی کونسل کا اجلاس نہ بلائے جانے پر بھی کڑی تنقید کی۔
قارئین! جہاں تک پیپلز پارٹی کی حکومت سے ناراضی اور علاحدگی کی دھمکی کا تعلق ہے، تو ایسا پہلی بار نہیں ہوا۔ اس سے پہلے بھی پیپلز پارٹی کی طرف سے گاہے گاہے حکومتی رویے پر شکایات کا اظہار کیا جاتا رہا ہے۔
ابھی دو ماہ قبل بھی چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی جناب بلاول بھٹو زرداری حکومت سے سخت ناراض ہوگئے تھے۔ اُن کی ناراضی کی وجہ اس وقت بھی مبینہ طور پر حکومت کی وعدہ خلافی تھی۔ پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے حکومت کی جانب سے جوڈیشل کمیٹی میں مساوی نمایندگی کے وعدے کو پورا نہ کرنے پر احتجاجاً جوڈیشل کمیشن سے اپنا نام واپس لے لیا تھا۔
حکومت کی اہم اتحادی جماعت پیپلز پارٹی کے چیئرمین نے مسلم لیگ (ن) کی جانب سے اہم معاملات پر وعدہ خلافی اور مشاورت سے راہِ فرار اختیار کرنے کا الزم عائد کرتے ہوئے بلاول نے ناراضی کا اظہار کیا تھا۔
بلاول بھٹو زرداری کا موقف تھا کہ حکومت نے جوڈیشل کمیٹی میں مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی کی مساوی نمایندگی کے وعدے کو پورا نہیں کیا۔ تب یہ بھی کہا گیا تھا کہ حکومت کے ساتھ پی پی پی کے مستقبل کا فیصلہ اَب پاکستان پیپلزپارٹی کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کرے گی۔
بلاول بھٹو زرداری جو اُس وقت بہ غرضِ علاج، وطن سے باہر تھے، نے وطن واپسی پر سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کا اجلاس بلانا تھا، جس میں اہم فیصلے ہونے تھے۔ اُس کے بعد وزیرِ اعظم جناب شہباز شریف اور صدرِ مملکت جناب آصف علی زرداری کی ملاقات ہوئی، جس کے بعد یہ معاملہ کچھ ٹھنڈا پڑگیا تھا۔
اب ایک مرتبہ پھر پیپلزپارٹی کی طرف سے حکومت کو سخت وارننگ دے دی گئی ہے۔ البتہ یہ وارننگ شاید عملی شکل اختیار نہ کرسکے۔ ایسی دھمکیاں مستقبل میں کیش کروانے کے کام آتی ہیں۔
واقفانِ حال جانتے ہیں کہ ’’میثاقِ جمہوریت‘‘ (2007ء) کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ ن کے درمیان متعدد نورا کشتیاں ہو چکی ہیں…… لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ جہاں یہ نورا کشتیاں مذکورہ دونوں پارٹیوں کے لیے فائدہ مند ثابت ہوئیں، وہیں پر ملک کے لیے بھی یہ نیک شگون لے کر آئیں اور عوام بھی سکون سے رہے۔
محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی برسرِ اقتدار آئی، تو یہ میثاقِ جمہوریت ہی کا ثمر تھا کہ اس نے انتقامی سیاست کو دفن کر دیا اور ماضی کی سیاہ رات کو بھلا کر نئے عزم سے آغازِ سحر کی بنیاد رکھ دی۔ 2008ء سے 2013ء کا دور سیاسی لحاظ سے سنہری دور تھا۔ پورے پانچ سال میں کوئی ایک سیاسی مقدمہ بنا، نہ کوئی سیاسی قیدی جیل میں گیا۔ گو پیپلز پارٹی کے ساتھ ساتھ اس کا کریڈٹ مسلم لیگ ن کو بھی جاتا ہے کہ میاں نواز شریف پانچ سال تک فرینڈلی اپوزیشن کے طعنے سنتے رہے، مگر انھوں نے صبر کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا اور ہر قسم کے ایڈونچر سے اجتناب کیا۔
دراصل آصف زرداری اور نواز شریف منجھے ہوئے سیاست دان ہونے کے ساتھ ساتھ نہایت سوچ سمجھ کر سیاست کی بساط پر چالیں چلتے ہیں۔ دونوں نے ماضی سے بہت کچھ سیکھا ہے۔ وہ سمجھ گئے ہیں کہ آپس کی لڑائی نے ہمیشہ ان دونوں (پارٹیوں) کا نقصان کیا ہے اور ان کی چپقلش سے ہر دفعہ ’’تیسری قوت‘‘ کو موقع ملا ہے۔ تاہم اپنے ورکرز کو مطمئن رکھنے کے لیے اختلاف اور مخالفت کے متعدد ڈرامے بھی رچائے جاتے رہے ہیں۔
2013ء میں نواز شریف برسرِ اقتدار آئے، تو آصف زرداری نے بھی اپنا طے شدہ کردار بہ خوبی نبھایا جو تیسری قوت کو پسند نہیں آیا۔ ملک سیاسی اور معاشی استحکام کی جانب چل پڑا تھا۔ دونوں پارٹیوں کی لیڈر شپ نے صوبوں کو زیادہ بااختیار بنا دیا تھا۔ طالع آزماؤں کو اپنا کردار محدود ہوتے ہوتے ختم ہونے کی فکر پڑگئی تھی۔ چناں چہ عمران خان کی صورت میں نیا سیاسی مہرہ آگے بڑھایا گیا اور ملک کو تیزی سے تنزل کے راستے کی طرف گام زن کر دیا گیا۔ وہ تو عمران خان کی سیمابی طبیعت نے انھیں نچلا نہ بیٹھنے دیا اور وہ اپنے لانے والوں ہی سے ٹکرا گئے، جس کے نتیجے میں آج کل پابندِ سلاسل ہیں۔ ورنہ تو 1973ء کا آئین ردی کی ٹوکری میں پھینک کر 2035ء تک حکومت کرنے کی منصوبہ بندی کرلی گئی تھی۔
پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن نے موقع سے فائدہ اُٹھایا اور ’’تحریکِ عدم اعتماد‘‘ کو کام یاب کروا کر اپنے سیاسی مستقبل کو بچالیا۔
گو دونوں پارٹیوں ہی نے بہت بڑا ’’رِسک‘‘ لیا تھا۔ معیشت کی راہ میں بچھی ہوئی بارودی سرنگوں کا اُنھیں اندازہ تو تھا، مگر سنگینی اور خطرناکی کا پتا نہ تھا۔ یہ سرنگیں صاف کرنے کا سلسلہ تاحال جاری ہے۔
گذشتہ جون میں بھی بجٹ پاس ہونے کے موقع پر بلاول بھٹو حکومت سے ناراض ہوگئے تھے۔ بہ ظاہر ان کا موقف یہ تھا کہ انھیں بجٹ کی تیاری کے موقع پر اعتماد میں نہیں لیا گیا، لیکن اصل وجہ یہ تھی کہ وہ پنجاب میں ’’پاؤر شیئرنگ‘‘ چاہتے تھے۔ تب حکومت نے انھیں پنجاب میں حصہ دینے کا وعدہ کر کے منا لیا تھا، لیکن حقیقت میں ایسا نہ ہوسکا۔
وزیرِ اعلا پنجاب مریم نواز شریف اَڑ گئیں اور یہ بیل منڈھے نہ چڑھ سکی۔ اَب بھی ’’میری ٹائم اینڈ سی پورٹ اتھارٹی‘‘ اصل مسئلہ نہیں ہے۔ بلاول پنجاب میں نئی صف بندی کرنا چاہتے ہیں اور اس مقصد کے لیے اُنھیں مسلم لیگ ن سے پاؤر شیئرنگ چاہیے۔
جواب میں مسلم لیگ ن سندھ میں وہی شیئرنگ چاہتی ہے، جسے ماننے میں بلاول تذبذب کا شکار ہیں۔ دیکھیں اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے!
یہ تو طے ہے کہ بلاول حکومت سے نکلنے کی غلطی کبھی نہیں کریں گے۔ ایسی صورت میں ملک کی صدارت، دو صوبوں کی گورنرشپ، بے شمار آئینی اداروں کی سربراہی کے ساتھ ساتھ ممکنہ ’’عدم قبولیت‘‘ کا سامنا بھی کرنا پڑسکتا ہے۔ فی الحال محمود و ایاز ایک ہی صف میں کھڑے ہیں۔ ایک اور رکاوٹ ’’میثاقِ جمہوریت‘‘ بھی ہے، جس کی پابندی جناب نواز شریف اور آصف زرداری دونوں ہی کرنا چاہتے ہیں۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔