گوبند رام باپو

Blogger Sajid Aman

محترم گوبند رام باپو مینگورہ شہر کی سماجی شخصیت اور روایتوں کے امین تھے۔
باپو ایک زبردست قوم پرست مینگروال، ایک دانش مند مشر، ایک رحم دل، صلح جو اور ایمان دار تاجر اور مصالحتی کمیٹی کے ممبر تھے۔ غیر مسلم سواتی شہری، سوات پر اپنا حق محبت اور عقیدت کے ساتھ جتاتے ہیں۔
باپو (یعنی ابا یا باپ) اُنھیں احتراماً پکارا جاتا تھا۔ اسی نام سے جانے پہچانے جاتے تھے۔
گوبند رام باپو کا تعلق سکھ مذہب سے تھا، مگر مینگورہ شہر کے اٹوٹ حصے کے طور پر ہر غم اور خوشی کے موقع پر پورے شہر کے ساتھ شامل رہتے۔ عیدین پر مبارک بادیں اور احترامِ رمضان المبارک خود پر لازم کیا ہوا تھا۔
اپنے بچوں کی تربیت بھی اُنھوں نے اعلا اقدار کو مدنظر رکھ کر کی۔ اُنھیں بھی معاشرتی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے کے لائق بنایا۔
1947ء میں تقسیمِ ہند کے بعد دنیا کی تاریخ کی سب سے بڑی نقلِ مکانی شروع ہوئی۔ یوں سوات کے غیر مسلم زعما کے جرگے نے بھی غیر یقینی صورتِ حال سے بچنے کے لیے ہندوستان جانے کا فیصلہ کیا۔ قافلہ لنڈاکی سوات کی سرحد پر پہنچا اور وہاں والی صاحب کے حکم پر اسے روک لیا گیا۔ خود والی صاحب ، کونسل سوات اور مشران نے جاکر غیر مسلم سواتیوں سے ترکِ وطن کی وجہ پوچھی، تو جواباً مستقبل کی غیر یقینی صورتِ حال کا خدشہ ظاہر کیا گیا…… لیکن مذکورہ قافلے سے اپیل کی گئی کہ وہ ترکِ وطن کا ارادہ ترک کردیں۔ ایک تو یہ کہ آپ کی جان کو خطرہ ہے۔ نیز کوئی سواتی آپ کی جان کو خطرے میں ڈال کر سکون کی زندگی بسر نہیں کر پائے گا۔ دوسرا یہ کہ اس وقت آپ کا جانا یہ ظاہر کرے گا کہ آپ سوات کے عوام سے خود کو الگ سمجھتے ہیں، سوات کو اپنی زمین نہیں سمجھتے اور مسلم آبادی سے آپ کا کوئی تعلق نہیں، جو دونوں اطراف کے لوگوں کی توہین ہے۔ اگر آپ کو بعد میں جانا ہوگا، تو ریاستِ سوات شایانِ شان طریقے سے آپ کو عزت سے رخصت کرے گی اور آپ مالی و جانی خطرے کے بغیر عزت سے ہندوستان جا سکیں گے۔
غیر مسلم سواتیوں کے جرگے نے متفقہ طور پر فیصلہ کیا کہ ہمارا وطن سوات ہے اور ہمارے اپنے سوات کے لوگ ہیں۔ ہم میں سے کوئی اپنا گھر اور وطن ترک نہیں کرے گا۔ یوں جشن اور اعزاز کے ساتھ وہ واپس آگئے۔ اس غیر مسلم آبادی نے سوات کی سماجی، معاشرتی اور معاشی ترقی میں نمایاں کردار ادا کیا۔
مذکورہ آبادی میں باپو ہر دل عزیز اور متحرک شخصیت تھے۔ جرگے کا حصہ اور سماجی خدمات میں پیش پیش تھے۔ اُن کا انتقال مینگورہ شہر کے لیے نقصان تھا۔
بنسری لال جو پختون قوم پرست اور ترقی پسند کارکن ہے، کے والد باپو کے انتقال کا رنج پورے مینگورہ شہر کو ہوا۔
 باپو کی آخری رسومات میں نہ صرف اُن کے دوستوں، جاننے والوں کی کثیر تعداد نے شرکت کی، بل کہ بے شمار لوگ خاندان کے غم میں شرکت کے لیے تین دن اُن کے گھر بھی حاضر ہوتے رہے۔
مینگورہ شہر ’’گوبند رام باپو‘‘ کو اُن کی عظمت، خدمات اور محبت پر خراجِ تحسین پیش کرتا ہے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے