لیکن مَیں نے اس کی بالکل پروا نہیں کی۔ مجھے والی صاحب کے الفاظ یاد تھے۔ انھوں نے یقین دہانی کی تھی کہ اگر مجھے کوئی مسئلہ درپیش ہو، تو میں ذاتی طور پر ان کے پاس جا سکتا ہوں۔ پہلے چار پانچ مہینے جیسے ایک دن کی طرح گزر گئے۔ ہم نے ریاست کے تمام 4000 مربع میل، جہاں ہم سڑک کے ذریعے رسائی حاصل کرسکتے تھے، کا دورہ کیا۔ ہمارے پاس کوئی پنج سالہ یا یک سالہ منصوبہ نہیں تھا، لیکن روزانہ کی بنیاد پر کام کیا۔ اس لیے ہم مسلسل آگے بڑھ رہے تھے۔ ریاست میں ہر جگہ سکول، ڈسپنسریاں، ہسپتال، رہایشی کالونیاں، تحصیل کی عمارتیں اور مسجدیں بنائی گئیں۔
اولاً فیلڈ سٹاف کو کوئی مخصوص سیکشن الاٹ نہیں کیا گیا، لیکن جلد ہی سٹاف کو سسٹم کے ہم وار چلانے اور کوالٹی کنٹرول یقینی بنانے کے لیے بھی تیار کیا گیا۔ بونیر میں ’’سٹیٹ P.WD‘‘ کی اپنی ذیلی شاخ تھی، جس کے سربراہ عابد مستری تھے۔ وہ وہاں 1928ء سے کام کر رہے تھے۔ ان کی مدد تین بابو، ایک بڑھئی، ایک لوہار اور ایک پلمبر کر رہا تھا۔ ہمارے افسر نے اپنے پسندیدہ بابو کو سیدو شریف کے علاقے میں رکھا اور باقیوں کو دور دراز کے سٹیشنوں پر تعینات کر دیا۔
ایک دن مجھ سے کہا گیا کہ ایک جوڑا اضافی کپڑے لے کر چکیسر جانے کے لیے تیار ہو جاؤں، جہاں 10 بستروں کا ایک وارڈ، اُو پی ڈی اور ایک آپریشن تھیٹر بنایا جانا تھا۔ مَیں اپنے گھر سے اتنا دور کبھی نہیں رہا تھا۔ تب مَیں 19 سال کا تھا اور اب بھی تنہا ہونے سے ڈرتا تھا۔ پہلے مَیں نے سوچا کہ جا کر والی صاحب کو بتاؤں، لیکن میں جرات نہ کرسکا اور آنے والے واقعات کے لیے خود کو ذہنی طور پر تیار کرلیا۔
خوش قسمتی سے، میری ایک کزن کے شوہر وہاں ڈسپنسر تھے۔ اس کا نام سلطان محمد تھا۔ وہ اصل ’’سیدو وال‘‘ اور پیر محمد خان ہیڈ ماسٹر صاحب کے چھوٹے بھائی تھے۔ سیدو شریف کو چھوڑنا میرے لیے مشکل تھا، خاص طور پر جب لکہ میری نئی نئی دوستی سر ہمایوں خان، اکنامکس کے لیکچرر اور شاڈیرئی کے ایک طالب علم اقبال احمد خان سے ، جو کالج کالونی کے بنگلہ نمبر 43 میں ہمایوں خان کے ساتھ رہتے تھے، سے ہوگئی تھی۔ مَیں اپنا زیادہ تر فارغ وقت وہاں گزارتا تھا اور کچھ راتیں بھی وہیں گزاری تھیں۔
لیکن مَیں یہ بھی سوچتا تھا کہ میری معمول کی زندگی میں آنے والی تبدیلی مجھے اپنے پیشہ ورانہ علم میں نئی جہتیں تلاش کرنے کے قابل بنائیں گی، کیوں کہ پہاڑی علاقوں میں عمومی حالات سوات کے میدانی علاقوں سے مختلف تھے۔ چناں چہ اگلی صبح مَیں نے اپنے والد اور والدہ صاحبہ سے رخصت لی اور اپنا بیگ لے کر کالج کالونی میں اپنے باس کے گھر چلا گیا۔ ہمارے پک اَپ ڈرائیور، میاں دمے استاد نے مجھ سے بیگ لے کر پک اَپ کے پچھلے حصے میں رکھ دیا۔ صاحب باہر نکلے، مجھ سے ہاتھ ملایا اور مجھے اپنے پہلو میں اگلی نشست پر بٹھا دیا اور ہم اپنی منزل چکیسر کی طرف روانہ ہوگئے۔ (جاری ہے)
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔