مادرسری نظام کیا تھا اور کیا یہ کبھی واپس آسکتا ہے؟

Doctor Mubarak Ali

تحریر: ڈاکٹر مبارک علی 
آج ہم عورت کو جس بے بسی اور بے کسی کے عالم میں دیکھتے ہیں اور جو معاشرے میں مرد کے تعصبات کا شکار ہے، وہ روایت کی زنجیروں میں اس قدر بندھی ہوئی ہے کہ یہ زنجیریں آہستہ آہستہ ٹوٹ رہی ہیں۔ عورت تاریخ میں اس دور کو یاد کر رہی ہے، جب معاشرے میں ’’مادرسری نظام‘‘ تھا۔
انسانی تاریخ کا سب سے طویل عہد شکار اور غذا جمع کرنے کا ہے، جو لاکھوں سال تک قائم رہا۔ اُس عہد میں نہ توعورت اور مرد کے درمیان فرق تھا، نہ جائیداد کا ادارہ، نہ قانون تھا، نہ ریاستی ادارے تھے اور نہ حکم ران طبقے۔
عورتیں اور مرد 30 سے 50 کی تعداد میں گروہوں کی شکل میں خانہ بہ دوش زندگی گزارتے تھے اور ان کا فطرت سے گہرا رشتہ تھا۔ گیت اور رقص ان کی زندگی کا حصہ تھے ۔
عورت اور مرد اپنے گروہ میں آزاد تھے۔ اُس عہد کی روایات کا انسانی تہذیب کے ارتقا میں گہرا اثر ہوا اور جب انسان نے خانہ بہ دوشی ترک کی اور بستیاں آباد کیں، تو اُس نے ماضی کے تسلسل کو جاری رکھنے کی کوشش کی۔
آج کے اس دور میں جب مرد کی برتری پوری طرح قائم ہے، تاریخ کے دُور دراز دور میں مادرسری کا دور ایک خواب نظر آتا ہے، لیکن ماہرینِ علمِ بشریات اور آثارِ قدیمہ نے ان مٹے ہوئے نشانات کو اُبھارا ہے، جن کی مدد سے ہم مادرسری عہد کی تصویر کشی کرکے اس کی تاریخی اہمیت کو واضح کرتے ہیں۔ اُنھوں نے جنگلوں اور پہاڑوں میں آباد قبیلوں میں رِہ کر اُن کی زندگی کا مطالعہ کیا۔ اس کی مدد سے اُنھوں نے ماقبل تاریخ مادرسری تہذیب کی نشان دہی کی۔
یہاں اس مغالطے کا اِزالہ ضروری ہے کہ قدیم دور میں دنیا میں عورت راج قائم تھا اور مرد عورت کی بالادستی تلے کام کرتے تھے۔ اس کے بہ جائے ماہرین سمجھتے ہیں کہ عورت کو مرد کے برابر حیثیت حاصل تھی، اور یہ حیثیت اس لیے تھی کہ عورت ماں تھی، وہ بچوں کو جنم دیتی تھی، اُن کی پرورش کرتی تھی اور یہ اس کے زیرِ اثر رہتے تھے۔ اس حیثیت سے وہ خاندان کی سربراہ تھی۔ خاندان کے افراد مع شوہر، اُس کی بات کو اہمیت دیتے تھے۔ تاہم یہ اُس زمانے کی بات ہے جب ریاست وجود میں نہیں آئی تھی۔ اس لیے ریاستی ادارے بھی نہیں تھے اور طاقت کے لیے کوئی ذرائع بھی نہیں تھے۔ اس لیے مادرسری نظام میں عورت کو کوئی سیاسی طاقت حاصل نہیں تھی کہ جس کی مدد سے وہ مردوں پر اپنا تسلط قائم کرسکے۔
اس کے برعکس عورت اور مرد کے درمیان مساوات کا اُصول تھا اور اس اُصول نے معاشرے میں توازن اور امن کو برقرار رکھا تھا۔ تصادم کے نہ ہونے کی وجہ سے معاشرے میں سیاست کے بہ جائے ثقافت کا فروغ ہوا۔ ثقافت کی اُن روایات کا تعلق گیتوں اور رقص سے تھا، جو معاشرے کی زندگی کو خوش گوار بناتا تھا۔
ماہرینِ آثارِ قدیمہ نے جو اوزار اور آلات دریافت کیے ہیں، اُن کی مدد سے ہم اندازہ لگاسکتے ہیں کہ کام کاج میں اور محنت کی تقسیم میں مرد اور عورت کے درمیان کوئی تعصب اور فرق نہیں تھا۔
جس عہد میں انسان قبیلوں کی صورت میں رہتا تھا اور غذا کی تلاش میں ایک جگہ سے دوسری جگہ جاتا تھا، اُس دور میں عورت زیادہ بچے بھی پیدا نہیں کرتی تھی۔ کیوں کہ بچوں کے ساتھ سفر کرنا مشکلات کا باعث ہوتا تھا۔
جب معاشرے میں رشتوں کی ابتدا ہوئی، تو بچے ماں کی جانب سے منسوب ہوتے تھے اور خاندان میں بھی ماں کے بھائیوں اور ماں باپ کی زیادہ عزت تھی، جب کہ باپ اور اس کے رشتے داروں کو اہمیت نہیں دی جاتی تھی۔ شادی کے بعد مرد عورت کے گھر آ کر رہتا تھا۔
لیکن مادر سری نظام میں عورت کی حیثیت آقا یا مالک کی نہیں تھی اور یہ نظام چوں کہ مضبوط روایات پر بھی نہیں تھا، اس لیے یہ جلد ہی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوگیا۔ اس تاریخی عمل نے آہستہ آہستہ پدرسری کے نظام کو اُبھارا اور اس نے مساوات کی جگہ عدم مساوات کے اُصول پر مرد کی برتری کو قائم کرکے عورت کو اس کے ماتحت کر دیا۔
مادرسری نظام کا اثر مذہبی اکائی پر بھی ہوا، لہٰذا اس کے زیرِ اثر دیویوں کی پوجا شروع ہوئی۔ خیال کیا جاتا ہے کہ وادیِ سندھ کی تہذیب میں مادرسری نظام تھا، جس کی وجہ سے دیویوں کی مورتیاں ملی ہیں۔
1500 قبلِ مسیح میں جب آریہ ہندوستان میں آئے، تو یہ اپنے ساتھ مرد دیوتا لائے، لیکن یہاں آباد ہونے کے بعد اُنھوں نے وادیِ سندھ کی قدیم دیویوں کو اپنے مذہب میں شامل کرلیا۔ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ پدرسری نظام میں مادر سری کی روایات کو یک سر ختم نہیں کیا، بل کہ اُنھیں اپنا کر اپنے کلچر کا حصہ بنالیا۔
اس وقت بہت سی عورتوں کی تحریکیں اور ’’فیمینزم‘‘ کی تھیوری کے تحت اپنے کردار کو تلاش کر رہی ہیں اور مادرسری نظام کی یادیں تازہ کرکے اپنے گم شدہ مقام کو دوبارہ سے حاصل کرنے کی جستجو میں ہیں۔ اس لیے سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا مادرسری کے نظام کا احیا ہوسکتا ہے اور کیا مادرسری کلچر کے تحت دنیا سے جنگوں اور خوں ریزی کا خاتمہ ہو سکتا ہے اور کیا جو نظام امن کو قائم کرکے انسان کی زندگی کو پُرمسرت بناسکتا ہے؟
ایسا ممکن تو ضرور ہے، مگر اس نظام کو واپس لانے کے لیے مذہبی، سیاسی، معاشی، معاشرتی اور فطری بندھنوں کو توڑنا ہوگا اور سب سے بڑھ کر یہ کہ مرد کی ذہنیت کو بدلنا ہوگا کہ وہ عورت کو برابر کا مقام دے جو مادرسری نظام میں موجود تھا۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے