وفاقی وزیرِ اطلاعات و نشریات جناب عطا تارڑ نے حکومت کی طرف سے عندیہ دیا ہے کہ پاکستان تحریکِ انصاف پر بہ طور سیاسی جماعت پابندی لگانے کا فیصلہ کر لیا گیا ہے۔
اُنھوں نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے بتایا کہ سابق صدر جناب عارف علوی، قاسم سوری اور سابق وزیرِ اعظم عمران خان پر آرٹیکل 6 کا مقدمہ بنانے کا فیصلہ بھی کیا گیا ہے۔ یہ آرٹیکل 6 کا مقدمہ قاسم سوری کے بہ طور ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی اپنے اختیارات سے تجاوز کرتے ہوئے وزیرِ اعظم عمران خان کے خلاف اپوزیشن کی طرف سے پیش کی گئی تحریکِ عدمِ اعتماد پر رائے شماری کروانے کی بہ جائے اسے غیر موثر کرنے کے ’’جرم‘‘ میں بنایا جائے گا، جنھوں نے آئین سے انحراف کرتے ہوئے اس پر کارروائی سے انکار کر دیا تھا۔
عمران خان نے اُس وقت کے سپیکر قومی اسمبلی جناب اسد قیصر سے بھی یہی فرمایش کی تھی، جنھوں نے معاملے کی سنگینی کو دیکھتے ہوئے صاف انکار کر دیا تھا۔ ڈپٹی اسپیکر جناب قاسم سوری جو مبینہ طور پر ایک متنازع الیکشن جیت کر آئے تھے اور قریباً ساڑھے تین سال سے چیف جسٹس آف پاکستان کی آشیرباد (اسٹے آرڈر) کی چھتری کے نیچے پناہ لیے ہوئے تھے، وہ عمران خان کے ممنونِ احسان تھے۔ چناں چہ اُنھوں نے یہ بڑا رسک لینے کا فیصلہ کرلیا۔ اب اس فیصلے کے مضمرات سامنے آگئے ہیں۔ قاسم سوری اپنی بہادری کی قیمت اَدا کرنے جا رہے ہیں۔
جناب عمران خان بھی اسی معاملے میں آرٹیکل 6 کی زد میں آ رہے ہیں۔ اُنھوں نے قاسم سوری کی رولنگ کے فوراً بعد صدرِ مملکت جناب عارف علوی کو قومی اسمبلی توڑنے کی ایڈوائس جاری کی تھی، جب کہ سابق صدر جناب عارف علوی اس ایڈوائس کی منظوری کی پاداش میں آرٹیکل 6 کا سامنا کرنے جا رہے ہیں۔
اگر عمران خان اور پی ٹی آئی کے مستقبل کے حوالے سے کوئی ابہام تھا، تو عطا تارڑ کی پریس کانفرنس نے اسے بھی دور کر دیا ہے۔ یہ فیصلہ پی ٹی آئی پر لگنے والی متوقع پابندی کا ابتدائیہ بھی ثابت ہوسکتا ہے۔ پاکستان میں جب کوئی ارادہ کرلیا جاتا ہے، تو پھر فیصلہ آنے میں دیر نہیں لگتی۔
سپریم کورٹ نے پی ٹی آئی کے حق میں مخصوص نشستوں کا فیصلہ دے کر سب کو حیران، بل کہ انگشتِ بہ دنداں کر دیا ہے۔ پی ٹی آئی کو اس فیصلے کے ذریعے ایسا بڑا ریلیف دیا گیا ہے جس کا اس نے کبھی مطالبہ ہی نہیں کیا تھا۔ پشاور ہائی کورٹ اور اس کے بعد سپریم کورٹ میں جب یہ کیس گیا تھا، تو پی ٹی آئی کسی موقع پر بھی اس کیس میں فریق ہی نہیں تھی۔ کیس میں فریق سنی اتحاد کونسل تھی، مگر ’’بینیفشری‘‘ پی ٹی آئی ٹھہری۔ حکومتی ایوانوں میں تو جو ہلچل مچنی تھی، سو وہ مچی…… لیکن باقی مقتدر حلقوں میں بھی اس فیصلے کو پسندیدگی کی نظر سے نہیں دیکھا گیا۔ البتہ کچھ دانش ور اور سیاسی پنڈت بہت دور کی کوڑی لے کر آئے کہ چوں کہ پی ٹی آئی قومی اسمبلی میں لارجسٹ پارٹی بننے جا رہی ہے، لہٰذا شہباز شریف حکومت کے دن گنے جاچکے ہیں۔ کچھ متعصب دانش ورانِ سیاست نے تو جناب آصف زرداری اور عمران خان میں کئی روز پہلے ہی صلح ہونے کی خبر بریک کرتے ہوئے جناب عمران خان کو جیل سے سیدھا وزیرِ اعظم ہاؤس لینڈ کرنے کا نقشہ بھی کھینچ دیا تھا۔ ایک بزعمِ خود بڑے صحافی نے یہ ’’راز‘‘ بھی منکشف کیا تھا کہ اسٹیبلشمنٹ میاں شہباز شریف سے اُکتا چکی ہے اور اب اُن سے جان چھڑانا چاہتی ہے۔
آگے بڑھنے سے پہلے ہمیں یہ بات سامنے رکھنے کی ضرورت ہے کہ موجودہ حکومت کے ساتھ عمران خان کی سیاسی مخالفت ہے، لڑائی یا جنگ نہیں۔ عمران خان کی لڑائی، بل کہ جنگ مقتدرہ سے ہے۔ اسٹیبلشمنٹ نے سانحہ 9 مئی کی تحقیقات ہر لحاظ سے مکمل کرلی ہیں۔ وہ اس کے ذمے داروں کا تعین بھی کر چکی ہے، بل کہ اپنے اندر کے ذمے داروں کو تو باقاعدہ سزا بھی دے چکی ہے۔ اب سویلین کی باری ہے۔ فوج نے اپنے اس بیانیہ کو بارہا دہرایا ہے کہ جو کام دشمن فوج سات دہائیوں میں نہ کر سکی، اُسے ملک کے اندر سے ہمارے اپنوں نے کر دکھایا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ فوج 9 مئی کے تمام کرداروں کو کیفرِ کردار تک پہنچانا چاہتی ہے۔ فوج واضح طور پر عمران خان کو اس سانحہ کا ماسٹر مائنڈ سمجھتی ہے۔ فوج تو عمران خان پر فوجی عدالت میں 9 مئی کا مقدمہ چلانا چاہتی تھی، مگر جناب شہباز شریف اور آصف زرداری آڑے آ گئے اور اُنھوں نے ایسا نہیں ہونے دیا۔ کیوں کہ وہ جانتے تھے کہ اس کے بڑے دور رس اثرات ہوں گے۔ مستقبل میں ن لیگ اور پیپلز پارٹی پر بھی اسی طرح کے سوالات اُٹھیں گے، جن سوالات کا جناب عمران خان کو سامنا ہے۔ عمران خان نے اپنے دور میں فوجی عدالتوں کی نہ صرف حمایت کی تھی، بل کہ فوجی عدالتوں کے سزا یافتہ لوگوں کو پشاور ہائی کورٹ سے ریلیف ملنے پر اس ریلیف کے خلاف باقاعدہ سپریم کورٹ میں چلے گئے تھے، جس پر 2019ء میں سپریم کورٹ نے اسٹے دے دیا اور وہ لوگ جیلوں سے رہا نہ ہوسکے۔ یہی وجہ ہے کہ جب جون 2013ء میں عمران خان فوجی عدالتوں کے خلاف سپریم کورٹ گئے، تو انہیں ہر جانب سے شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔ سانحہ 9 مئی کے بعد عمران خان کسی کے ڈارلنگ نہیں رہے۔ مستقبلِ بعید کا تو پتا نہیں، مگر مستقبلِ قریب میں عمران خان جیل سے باہر آتے نظر نہیں آ رہے۔ اُنھیں ’’قرار واقعی‘‘ سزا دینے کا فیصلہ ہوچکا ہے۔ سنا ہے کہ عمران خان نے گذشتہ سال 9 اور 10 جولائی کی درمیانی شب ایک مشترکہ دوست کے ذریعے ’’غلط فہمیاں‘‘ دور کرنے کے لیے پیغام بھیجا تھا، مگر اُدھر سے جواب ملا تھا کہ ’’ہمیں کوئی غلط فہمی نہیں۔ ہر چیز صاف اور واضح ہے۔‘‘
ان حالات میں سپریم کورٹ کا فیصلہ جلتی پر تیل ڈالنے کے مترادف ثابت ہوا ہے۔ حکومت اور اسٹیبلشمنٹ عمران خان پر آرٹیکل 6 کے کیس کو مسلسل ٹالتی آ رہی تھی۔ مَیں نے پہلے بھی ایک کالم میں گزارش کی تھی کہ حکومت کے پاس ہمیشہ بہت سے آپشن ہوا کرتے ہیں۔ جب وہ کسی کے خلاف کچھ کرنا چاہتی ہے، تو جواز ہاتھ باندھ کر قطار میں کھڑے ہو جاتے ہیں۔ حکومتی فیصلے کے بعد نیا مقدمہ عمران خان اور پی ٹی آئی کے لیے بہت خطرناک ثابت ہوسکتا ہے۔ پوری قوم اس مقدمے کے حقائق سے پہلے ہی آگاہ ہے۔ یہ مقدمہ بھی کافی طول کھینچے گا، جس کا مطلب یہ ہے کہ عمران خان جلدی جیل سے باہر نہیں آ سکیں گے۔ اور اگر ان پر آرٹیکل 6 ثابت ہوگیا، تو نہ صرف ان کا اپنا سیاسی مستقبل تاریک ہو سکتا ہے، بل کہ پی ٹی آئی بھی بہ طور سیاسی جماعت اپنا وجود برقرار نہ رکھ پائے گی۔
دوسری طرف سپریم کورٹ کے فیصلے کے باوجود پی ٹی آئی کو ریلیف ملتا نظر نہیں آ رہا۔ الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف سٹینڈ لے لیا ہے۔ حکومت نے بھی ریویو میں جانے کا فیصلہ کر لیا ہے۔
آگے چل کر حالات کیا رُخ اختیار کرتے ہیں؟ اس بارے میں کچھ کہنا قبل از وقت ہے کہ ہمارا ملک معجزوں کی سرزمین ہے۔ صبح کے تخت نشین شام کو مجرم ٹھہر جاتے ہیں۔ تخت سے تختے اور تختے سے تخت کا سفر طے کرنے میں بعض اوقات چند پل ہی لگتے ہیں۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔