ہم ایک ایسے ملک کے شہری ہیں جس میں ’’دھونس‘‘ اور دھاندلی سکہ رائج الوقت ہیں۔ طاقت کے ذریعے اقتدار پر قبضہ ہماری روایت بنتی جا رہی ہے۔ جمہور کی آواز بے وقعت بنی ہوئی ہے، جب کہ ووٹ کا تقدس روز بہ روز اپنی تقدیس کھوتا جا رہا ہے۔ گویا ووٹ ایک ایسی شے ہے، جسے جیسا چاہو بنالو، جیسا چاہو دکھالو، جیسا چاہو گن لو…… کوئی کچھ نہیں کر سکتا۔
فارم 47 کا مصرف بھی تو یہی ہے کہ مرضی اُس کی جس کے ہاتھ میں اقتدار ہے۔ وزیرِ اعلا کے سامنے ایک ڈپٹی کمشنر (ڈی سی) کی کیا اوقات ہے؟ وہ تو وزیرِ اعلا کی خوش نودی کے لیے ناک سے لکیریں نکالنے کے لیے تیار بیٹھا ہوتا ہے، چہ جائیکہ وہ انتخابی نتائج کا اعلان اس کی مر ضی و منشا کے خلاف کر دے۔
طارق حسین بٹ کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/butt/
8 فروری کے بعد 21 اپریل کو لاہور اور گجرات میں جو کچھ ہوا، اُس نے سب کو مبہوت کر دیا۔ گجرات کے چوہدریوں نے تو دھاندلی کی انتہا کر دی۔ سرِ عام صحافیوں کو گرفتار کیا اور انھی پونگ سٹیشن تک رسائی سے محروم رکھا۔ سب کچھ اپنی مرضی سے سر انجام دیا اور اپنی جیت کا اعلان بھی کر وا دیا۔ ایک ایسی جیت جس پر دوست بھی سوال اُٹھا رہے ہیں۔ ووٹ ایک مقدس امانت ہے، لیکن اس کا استعمال بھی ممنوع قرار پا رہا ہے۔ صرف جلنا اوr کڑھنا ہی ووٹر کا مقدر بنتا جا رہا ہے۔ وہ بے بسی میں بہت کچھ سوچتا ہے، لیکن وقت کی مجبوریاں اُسے بے بس کر دیتی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اگر ووٹ سے کچھ نہیں بدل سکتا، تو پھر حکم ران کیسے بدلیں گے؟ طالع آزماؤں کی حرص وہوس تو اپنی جگہ ہے، لیکن ہماری سیاسی اشرافیہ بھی اقتدار کے حصول میں ساری حدیں پھلانگ جاتی ہے۔ دھاندلی ایک معمولی لفظ بن کر رہ گیا ہے۔ حالاں کہ اسی سے قوموں کی تباہی و بربادی کی کہانی رقم ہوتی ہے۔ جو کچھ ہماری آنکھیں دیکھ رہی ہیں، وہ انتہائی حیرت انگیز ہے لیکن اسٹیبلشمنٹ کو کچھ نظر نہیں آ رہا۔ کیوں کہ بے شمار طاقت اس کی مٹھی میں بند ہے۔
ہر سیاسی جماعت کی خواہش ہے کہ اس کی اولاد ہی پاکستانی اقتدار کی مسند کی سزاوار بنے۔ بھلے ہی وہ اس کی اہل ہو یا نہ ہو۔ پی پی پی ، مسلم لیگ (ن)، جمعیت العلمائے اسلام، اے این پی، بی این پی مینگل، مسلم لیگ (ق) اور نیشنل پارٹی اسی راہ کی راہی ہیں اور ان سب نے اپنی اولادوں کو اقتدار کے لیے تیار کرلیا ہے۔ قیادت کی شمع گھر ہی میں رکھ لی جاتی ہے اور یوں عوام کی ساری جد و جہد چند خاندانوں کی غلامی اور حا شیہ برداری بن کر رہ جاتی ہے۔ ہمارے ہاں سیاست چند جزیروں کی شکل اختیار کرگئی ہے، جہاں پر متعلقہ چوہدریوں کو چھیڑنا ممکن نہیں ہوتا۔ یہ سلسلہ نسل در نسل چلتا ہے اور اس کی سرپرستی ایک ایسے انسان کی چھڑی میں قید ہو جاتی ہے جس سے سارے خائف رہتے ہیں۔ وہ چھڑی جس کی طرف اُٹھ جائے، وہ سیدھا جیل سدھارتا ہے اور اُس پر درجنوں مقدمات قائم ہوجاتے ہیں اور پھر جیل میں جس طرح کی کہانیاں جنم لیتی ہیں، وہ کسی سے مخفی نہیں۔ پرویز الٰہی اس کی زندہ مثال ہے۔
لیڈر شپ کی قربانیاں اپنی جگہ اہم ہوتی ہیں اور قوم انھیں سدا خراجِ تحسین بھی پیش کرتی رہتی ہے، لیکن جمہوری کلچر کی اپنی دنیا ہوتی ہے، جس میں سینئر قیادت ملک و قوم کی بھاگ ڈور اپنے ہاتھ میں لے لیتی ہے۔ تا کہ بر وقت اوردا نش مندانہ فیصلوں سے قوم کی قسمت بدلی جائے۔ ریاست کی ذمے داریاں کوئی معمولی بات نہیں ہوتیں۔ اس کے لیے عقل و دانش اور تدبر کی ضرورت ہوتی ہے، جو عملِ مسلسل اور مشاہدہ کے بعد ہاتھ آتی ہے۔ یہاں تو ایک نو نہال کو پارٹی کی قیادت تھما دی جاتی ہے اور پھر جو ملک و قوم کا حشر ہو تا ہے، وہ سب کے سامنے ہے۔ اسے ہم ایک مثال سے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔اس طرح کی مثالوں سے صحنِ چمن بھرا پڑا ہے۔
سینیٹ کے نئے چیئرمین سید یوسف رضا گیلانی ملتان سے تعلق رکھتے ہیں۔ یہ محمد خان جونیجو کی کابینہ میں وزیرِ ریلوے تھے۔ بی بی شہید کی عوامی مقبولیت کے سحر سے پی پی پی میں شامل ہوئے اور پھر وفاقی وزیر بن گئے۔ 1993ء میں سپیکر قومی اسمبلی بنے اور پھر 2008ء میں وزیرِ اعظم پاکستان کا منصب سنبھالا۔ اُن کی اولاد بھی اقتدار کے جھولے لیتی رہتی ہے۔ نہ وہ گزرے ہوئے کل کچھ کرسکے تھے اور نہ آنے والے کل کچھ ہی کرسکیں گے۔ کیوں کہ یہ رو بوٹ ہیں جو ہر قسم کی فکری صلاحیت سے عاری ہیں۔ وہ ’’یس سر‘‘ کا ہنر جانتے ہیں اور اقتدار کے لیے یہی کافی ہے۔ عوامی سپر میسی کا نعرہ عوام کو بے وقوف بنانے کے لیے ہوتا ہے، جب کہ اولین مقصد اولاد کو اقتدار تک لے جانا ہو تا ہے:
ہم کو اُن سے ہے وفا کی اُمید
جو نہیں جانتے وفا کیا ہے
دیگر متعلقہ مضامین:
گندم سکینڈل، حکومت کہاں کھڑی ہے؟
اندھی طاقت
اچھائیوں میں مقابلہ و موازنہ کیجیے
بھیک سے مزدوری بہتر ہے
بے چینی (اینزائٹی) کا نفسیاتی جایزہ
اس وقت گھٹن اپنے عروج پر ہے۔ کہیں سے کوئی ایسی خوش بو ہم تک نہیں پہنچ رہی، جو آزادیوں کی نویدبن سکے۔ وہی چند خاندان، وہی چند چہرے جو کرپشن، لوٹ کھسوٹ اور بد دیانتی کی تصویر ہیں۔ جو کوئی لب کشائی کی جرات کرتا ہے، اُسے جیل میں ٹھونس دیا جاتا ہے۔ صحافیوں کے لیے زمین روز بہ روز تنگ ہو رہی ہے۔ لہٰذا سچ تک رسائی بھی مشکل ہو تی جا رہی ہے۔ گندم سکینڈل میں جو کچھ ہوا اور جس طرح ہوا، اُس میں سارے بڑے عہدے دار ملوث ہیں، لیکن کسی کو کچھ نہیں ہوگا۔ ایک کمیشن بھی بن جائے گا، جو معاملہ کی چھان بین کرے گا، لیکن بعد میں سب داخلِ دفتر کر دیا جائے گا۔ ایسے کئی کمیشن ماضی میں بنتے رہے، لیکن ان کی کوئی رپورٹ عوام تک نہ پہنچ پائی۔ کمیشن در اصل معاملہ پر مٹی پاؤ کے لیے استعمال ہو تا ہے۔ عوام سادہ لوحی پر کسی سزاو جزا کی امید سجا لیتے ہیں، لیکن ایسا ہو تا نہیں۔ کمیشن کا مقصد آنکھوں میں دھول جھونکنا ہوتا ہے اور وہ اس میں کامیاب ہوجاتا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ کوئی اپنے ہاتھوں سے اپنے گلے کے لیے تلوار نہیں مانگتا۔ لہٰذا انکوائری کی ساری دہائی عوام کو بے وقوف بنانے کے مترادف ہوتی ہے۔ میڈیا اپنی ریٹنگ کے پیشِ نظر کچھ دن گندم سکینڈل کو اُچھالے گا، لیکن بعد میں اس سے دست کش ہوجائے گا۔ جب وزیرِ دا خلہ، نگران وزیرِ اعظم، ڈپٹی وزیرِ اعظم اور وزیرِ اعظم براہِ راست ملوث ہوں، توفیصلہ کیسے ہوگا؟
خفیہ ہاتھوں کی جادوگری تو ابھی تک منظرِ عام پر نہیں آئی۔ جب آئے گی، تو پتا چلے گا کہ اصلی مجرم کون ہیں اور پردے کے پیچھے کس کس نے قومی دولت کو ہڑپ کیا ہے؟
اس وقت کسانوں کو شدید مالی نقصان کا سامنا کرنا پڑرہا ہے، جس سے ان کا جینا دوبھر ہوگیا ہے۔ ان کی بے بسی ایک ایسی داستان بیان کر رہی ہے، جس سے پورا ملک ان کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کر رہا ہے۔ حرص و ہوس کی انتہا تو دیکھیے کہ اپنے مفادات کے لیے ریاست نے کسانوں کو سرخ جھنڈی دکھا دی ہے، جس سے کسان کو مالی مشکلات کا سامنا کر پڑ رہا ہے۔ وہ گندم کے ڈھیر لگا کر بیٹھا ہوا ہے، لیکن کوئی اس کا خریدار نہیں۔اس کی تو اصلی جمع پونجی بھی ضائع ہو رہی ہے اور وہ سڑکوں پر دھکے کھا رہا ہے، لیکن اشرافیہ کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگ رہی۔ اپوزیشن کی کچھ جماعتیں ان کے ساتھ دھرنا دینے کے لیے پُرعزم ہیں، لیکن ان کی آواز بھی انتہائی کم زور ہے۔ حکومت اور اسٹیبلشمنٹ یک جا ہوجائیں، تو احتجاج میں دم خم نہیں رہتا اور یہی سب کچھ عوام بھگت رہے ہیں۔ آئین و قانون کو جس طرح پسِ پشت ڈالا جا رہا ہے اور جبر کی فضا کو جس طرح پروان چڑھایا جا رہا ہے، اُس نے ملکی معیشت کو تباہ و برباد کر کے رکھ دیا ہے۔ عوا می مفادات کو ترجیح دی جائے گی، تو ملک ترقی کی جانب پیش قدمی کرے گا۔ جبر و اکراہ کو تو سدا رہنا نہیں، اسے ایک دن حباب بن کر اُڑ جانا ہے اور پھر جمہور کی آواز نے اپنا سکہ جمانا ہے۔یہی وہ منظر ہے جس کے متعلق فیضؔ نے کہا تھا، لیکن یہ کب حقیقت بنے گا، مَیں کچھ بھی کہنے سے قاصر ہوں، لیکن یقین ہے کہ ایسا ہو کر رہنا ہے:
ہم دیکھیں گے
لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے
جو لوحِ ازل میں لکھا ہے
جب ظلم و ستم کے کوہِ گراں
روئی کی طرح اڑ جائیں گے
جب ارضِ خدا کے کعبہ سے
سب بت اٹھوائے جائیں گے
جب تاج اچھالے جائیں گے
جب تخت گرائے جائیں گے
ہم اہلِ صفا مرودِ ِ حرم
مسند پر بٹھا ئے جائیں گے
تب راج کرے کی خلقِ خدا
جو تو بھی ہے اور میں بھی ہوں
ہم دیکھیں گے
لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے……!
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔