تحریر و ترتیب: میثم عباس علیزئی
(’’فلسفہ کی تاریخ‘‘ دراصل ڈاکٹر کامریڈ تیمور رحمان کے مختلف لیکچروں کا ترجمہ ہے۔ یہ اس سلسلے کا اٹھائیس واں لیکچر ہے، مدیر)
٭ غار کی تمثیل (Allegory of the cave):۔ افلاطون نے اپنی علمیاتی نظریے یا معرفت شناسی (Epistemology) کو آسانی سے سمجھانے کے لیے ایک تمثیلی مثال پیش کی ہے، جس کو غار کی تمثیل یا غار والا محاورہ یعنی (Allegory of the Cave) کہا جاتا ہے۔
اس تمثیل/ محاورے میں افلاطون ہمیں یہ بتاتا ہے کہ آپ فرض کریں کہ جو انسانیت یا انسان ہیں، وہ رسی میں جھکڑی ہوئے ہیں، وہ اِدھر اُدھر بھی نہیں دیکھ سکتے اور ان کے پیچھے آگ جل رہی ہے، جس کی روشنی میں کچھ لوگ ہمیں مختلف چیزوں کی سائے دِکھا رہے ہیں۔ نہ وہ آگ کو دیکھ سکتے ہیں اور نہ وہ اُن لوگوں ہی کو دیکھ سکتے ہیں، جو سائے پیدا کررہے ہیں…… تو اُن کو صرف اور صرف اُن چیزوں کے سائے نظر آرہے ہیں۔ کیوں کہ اُنھوں نے صرف اُن سایوں کو دیکھا ہوتا ہے، تو لہٰذا اُن کا یہ خیال ہوتا ہے کہ یہی اصلیت اور حقیقت ہیں۔ اب اُن میں سے ایک رسی کو توڑنے میں کامیاب ہوجاتا ہے اور وہ وہاں غار سے باہر نکلتا ہے۔
جب وہ غار سے باہر نکلتا ہے، تو وہ تمام چیزوں کو پہلی دفعہ دیکھتا ہے اور اُس کو تمام چیزیں اپنی اصلی اور حقیقی رنگوں کے ساتھ سورج کی روشنی میں دِکھائی دیتی ہیں۔ وہ دیکھتا ہے کہ حقیقت میں دنیا کیسی ہے، وہ نیلے آسمان کو دیکھتا ہے، درختوں کو دیکھتا ہے، پرندوں اور جانوروں کو دیکھتا ہے، اپنے آپ کو دیکھتا ہے اور اس کو یہ احساس ہوتا ہے کہ سورج کی روشنی میں چیزیں کس حد تک خوب صورت دِکھ رہی ہیں۔
اُن سب چیزوں کو دیکھ کر اُس کے دل میں یہ خواہش پیدا ہوتی ہے کہ دوسروں کو بھی غار سے باہر لے کر آئے اور اُن کو سورج کی روشنی میں دنیا کی اصل حقیقت دِکھائے۔ جب وہ دوبارہ غار کے اندر جاتا ہے اور لوگوں کو سورج کی روشنی اور باہر کی حقیقت کے حوالے سے اطلاع دیتا ہے، تو اُن لوگوں کا جواب یہ ہوتا ہے کہ یہ کیا عجیب و غریب قسم کی باتیں ہیں، ایسے کیسے ہوسکتا ہے……!
کیوں کہ اُنھوں نے بچپن سے صرف اور صرف اُن سایوں ہی کو دیکھا اور پہچانا ہوتا ہے۔ لہٰذا وہ یہ سمجھتے ہیں کہ سورج جیسی کوئی چیز نہیں…… یعنی وہ تمام اُس باہر جانے والے شخص کو رد کردیتے ہیں۔
دیگر متعلقہ مضامین: 
فلسفہ کیا ہے؟  
اقبال کا فلسفہ خودی  
فلسفہ، سائنس اور پاپولر کلچر  
سقراط، جس نے فلسفہ کو ایک نئی شکل دی  
امام غزالی کا فلسفہ پر اثر  
افلاطوں کا اس تمثیلی زبان یا محاورے سے مقصد یہ تھا کہ ہم جب اپنی حسیات (Senses) سے دنیا کو دیکھتے ہیں، یعنی جو ہم اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں، کانوں سے سنتے ہیں، ناک سے سونگھتے ہیں وغیرہ…… یہ صرف اور صرف سایوں کی دنیا ہے، اصل حقیقت نہیں۔ کیوں کہ جب تک ہم عقل و منطق کی روشنی میں چیزوں کو نہیں دیکھیں گے، تب تک ہم واقعتا سچ اور جھوٹ، غلط اور صحیح کو نہیں پہچان سکیں گے۔
افلاطون اپنا اخلاقیاتی نظریہ بھی اسی تمثیل سے نکالتے ہیں، یعنی اچھائی کیا ہے؟
اچھائی افلاطون کے لیے بالکل اُسی طرح ہے کہ جس طرح اس دنیا کے اندر مختلف چیزوں کو حقیقی علم، عقل اور منطق کی روشنی میں دیکھے۔
افلاطون کے مطابق:”The Good is like the light of the sun.”
"The Good is the light of understanding.”
یعنی عقل و منطق اور حقیقی سمجھ کی روشنی میں جب ہم اس دنیا کو دیکھیں گے، تو تب ہمیں صحیح اور غلط، اچھائی اور برائی کی مکمل اور حقیقی پہچان ہوگی۔
دوسرے الفاظ میں یہ کہ جب ہم دنیا کو عقل و منطق کی روشنی میں دیکھیں گے، جس طرح سے ہم آنکھوں سے سورج کی روشنی میں چیزوں کو دیکھتے ہیں…… اُسی طرح سے جب ہم اچھائی اور برائی کو عقل و منطق کی روشنی میں دیکھیں گے، تو تبھی ہمیں اچھے اور برے کی صحیح پہچان ہوگی۔
یعنی صرف وہ لوگ اچھائی اور برائی کو پہچان سکتے ہیں، جو اس غار سے نکل کر حقیقی علم کی روشنی میں اس پوری دنیا کو دیکھیں اور سمجھیں۔
باقی آیندہ!
ستائیسویں لکچر کا لنک ذیل میں ملاحظہ ہو: 
https://lafzuna.com/history/s-35530/
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔