تحریر: شکیل عادل زادہ
1888ء سے 1890ء کا عرصہ چیخوف کے لیے بڑی آزمایش کا زمانہ تھا۔ ٹی بی ہوجانے کے انکشاف، دوستوں کی ناقدری، ناقدوں کی سنگ دلی اور بے رحمی نے اُسے بہت ہلکان کیا۔
ناقدوں کا خیال تھا کہ چیخوف اپنے دور کے سیاسی، اخلاقی اور سماجی مسائل کے بارے میں دو ٹوک رویے کے اظہار سے قاصر ہے۔ چیخوف ، لیو ٹالسٹائی کے اخلاقی فلسفے سے متاثر تھا، لیکن 1880ء کی دہائی میں اُس وقت کی روشن خیالی یا قدامت پسندی کی تقسیم میں اُس نے کسی ایک کا ساتھ دینے سے انکار کر دیا تھا۔ اُس کا کہنا تھا کہ مَیں ترقی پسند ہوں نہ قدامت پسند، ارتقا پسند ہوں نہ پادری، اور نہ دنیا سے بے گانہ ہی ہوں۔ میری نظر میں سب سے مقدس انسانی جسم، صحت، ذہانت، صلاحیت، خواہش، محبت اور آزادی ہے…… یعنی تشدد سے آزادی، جھوٹ سے آزادی چاہے وہ کسی بھی شکل میں ہو……!
1890ء میں کچھ اِفاقہ ہوگیا تھا۔ اُسی سال چیخوف نے 10 ہزار میل کا سفر کیا۔ اس وقت ریل نہیں تھی۔ سائبیریا کے اُس پار روس کے دوسرے کنارے پر واقع جزیرہ ساخالن (روسی کالا پانی) میں اُس نے قیدیوں کی زندگی کی سائنسی انداز میں تحقیق کی۔ بعد میں یہ تحقیق کتابی صورت میں شائع ہوئی۔
ساخالن کے تجربے نے چیخوف پر گہرے روحانی نقش مرتسم کیے۔ اس کے بعد کے کام میں ساخالن کے عبرت انگیز مشاہدے کے اثرات نمایاں ہیں۔
ساخالن سے واپسی پر وہ ماسکو کے قریب ایک دیہی بستی میں آباد ہوگیا۔ دیہی زندگی اُسے بڑی مرغوب تھی۔ یہاں اُس نے انسانی ہم دردی کے عملی کاموں میں خود کو وقف کر دیا تھا، اُن کاموں میں آس پاس کے بے شمار دیہات کی طبی امداد، قحط زدہ علاقوں میں رفاہی فلاحی کام، ہیضے کی روک تھام، مقامی مدرسوں کی تعمیر کے ساتھ نئے لکھنے والوں کے مسودوں کی اصلاح شامل تھے۔
مکڑی نے سینے میں جال مضبوط کرلیا تھا۔ معتدل آب و ہوا کے لیے یالٹا منتقل ہونا پڑا۔ اس آزار کے باوجود چیخوف کی دماغی صحت شباب پر تھی۔ قلم پر خوب آب و تاب تھی اور یہ کوئی طلسم کوئی افسوں پھونک دینے کے لیے بے تاب تھا۔ یالٹا کی فرحت آمیز ہوائیں بھی مداوا نہ کرسکیں۔ دماغ تو کوئی مجرد مظہر نہیں۔ سارے جسم کے ربط و ارتباط کے بغیر تابکے اصرار کرے۔ اعضائے جسمانی کو ایک عدل و مساوات لازم ہے۔ کچھ چیخوف نے بھی اپنے آپ سے مغائرت کی۔ سماجی سرگرمیوں میں کوئی فرق آیا، نہ قلمی شغل میں کوئی کمی ہوئی۔
دیگر متعلقہ مضامین:
انتون چیخوف، شخصیت و فن
چیخوف، افسانے کا سب سے بڑا نام
انتون چیخوف کی ایک لازوال تحریر
گورکی اور چیخوف کی ایک ملاقات کا احوال
بزرگ ٹالسٹائی اور نوجوان ادیب اور لیڈر میکسم گورکی عزیز از جان تھے۔ اُن کے علاوہ اپنے زمانے کے لکھنے والوں سے رسم و راہ بھی جاری تھی۔ روسی اکادمی سے سیاسی وجوہ سے گورکی کے اخراج کے خلاف چیخوف نے اُس اکادمی سے 1902ء میں استعفا دے دیا۔
1888ء سے 1904ء تک مختلف جرائد میں چیخوف نے 50 سے زاید کہانیاں لکھی تھیں۔ اُن کہانیوں نے بعد میں بین الاقوامی شہرت حاصل کرلی اور بین الاقوامی ادب کوئی چیز ہے، تو چیخوف کی یہ کہانیاں بے شک اس کا جزو لازم ہیں۔ لیو ٹالسٹائی، چیخوف کے بہت قائل تھے اور ٹالسٹائی کا فرمودہ ہے کہ چیخوف ایک لاثانی فن کار ہے، زندگی کا فن کار…… اُس کی تخلیقات سارے عالمِ انسانیت کے لیے ہیں۔
چیخوف کے لیے مشہور ہے کہ اُسے مختصر اور مناسب لفظوں میں مدعا بیان کرنے پر قدرت حاصل تھی۔ کہتے ہیں وہ زندگی کی سطح سے نیچے جاکے حقائق تلاش کرتا تھا۔ اُسے اپنے کرداروں کے خفیہ ارادے فاش کر دینے کا ہنر آتا تھا۔ بعض ناقدین کو شکایت ہے کہ چیخوف کے موضوعات اور اس کی کہانیوں میں گہرے پیچیدہ مسائل اور مسئلوں کے سیدھے سادے حل کی کمی ہوتی تھی۔ بہ ظاہر چھوٹی چھوٹی باتوں سے وہ کہانی کی بساط بچھاتا تھا اور ایک خاص مزاج اور ماحول کی استواری میں ماہر تھا۔ اس خاص مزاج اور ماحول کو آسیب زدہ یا غنائی کہنا چاہیے۔ ناقدوں کو اعتراض ہے کہ چیخوف نے اپنے وقت کی روسی زندگی بیان کرنے میں دھوکا دینے والی تکنیک استعمال کی ہے اور یوں ادبی شاہ کار کے درجے سے گرجاتی ہیں…… مگر اس کے ناقدین اس واقعے پر متفق ہیں کہ 19ویں صدی کے روسی حقیقت نگاروں میں چیخوف کا شمار صفِ اول میں ہوتا ہے۔
الگ تھلگ، خاموش طبع، دیکھنے میں ایک بے جذبہ شخص…… مگر چیخوف میں عورتیں بڑی کشش محسوس کرتی تھیں، لیکن سینے سے دماغ کی فصل قائم رہی۔ اولگا کنپر سے شادی بھی محبت کا شاخسانہ تھی۔ اولگا نے شادی کے بعد اداکاری ترک نہیں کی۔ سو بس دونوں کوئی رسم نبھاتے رہے۔ موسمِ سرما میں دونوں الگ الگ رہتے تھے۔ او لاد سے محرومی بھی غالباً دونوں کو ایک دوسرے سے کنارے کنارے کیے رہی۔
چیخوف کے زمانے میں عظیم روسی انقلاب کا خمیر تیار ہورہا تھا اور چار سُو ایک جنگ و جدل کا منظر تھا۔ 13 سال بعد تاریخ ساز واقعہ رونما ہوا چاہتا تھا، مگر چیخوف کو بڑی جلدی تھی۔ مسیحا اپنی مسیحائی نہ کر سکا۔ 14، 15 جولائی 1904ء کو 44 سال کی عمر میں ایک رات چیخوف کی حتمی شکست و ریخت اپنے انجام کو پہنچی۔ کاش، ہر آدمی کا انجام ایک جیسا نہ ہوا کرتا۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔