سوات کی اِکالوجی اور اِکانومی دونوں پر سب سے زیادہ اثر انداز ہونے والی فصل ’’آڑو‘‘ ہے۔ گرمیاں اب بدبودار اور ناقابلِ برداشت ہوگئی ہیں۔ فضا میں ہر وقت 8 مہینے مختلف قسم کی دوائیوں کی بد بو پھیلی رہتی ہے۔ پرندوں کی کئی اقسام ناپید ہوچکی ہیں۔ سبزہ و شادابی کا وہ احساس جو میلوں تک دھان، مکئی اور گندم کے لہلہاتے کھیت دیکھ کر روح کی گہرائیوں میں اترتا تھا، وہ اَب خواب میں بھی نظر نہیں آتا۔
فضل رازق شہاب کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/fazal-raziq-shahaab/
مَیں ابھی چھت سے اُتر کر کمرے میں آگیا۔ دھوپ میں لیٹا تھا۔ اچانک میری نظر ’’خوگ باچا‘‘ کے سفید رنگ کے حجرے پر پڑی۔ جو دریا کے اُس پار ہماری چھت کے عین 90 ڈگری پر کبل شموزی روڈ سے بلندی پر واقع ہے۔ اس کے دامن میں انھی سادات صاحبان کی چھوٹی سی بستی ’’سید آباد‘‘ واقع ہے۔ کچھ عرصہ پہلے مَیں ایک شام ایک فاتحہ خوانی کے سلسلے میں گیا تھا…… مگر آج ویسے ہی خیال آیا کہ شمال، جنوب، مشرق، مغرب جدھر بھی دیکھیں…… آڑو ہی آڑو کے لنڈ منڈ درخت ایک فسردگی اور اداسی پھیلاتے کھڑے ہیں، لاکھوں کی تعداد میں…… لیکن انکھوں کو تراوت محسوس نہیں ہوتی۔
دیگر متعلقہ مضامین:
سوات میں کسی خان یا پختون کو بادشاہ کیوں نہیں بنوایا گیا؟
سوات ہوٹل کی تاریخ
ریاستِ سوات کا خفیہ فنڈ
سوات: ایک تنقیدی جائزہ
ریاستِ سوات کے خاتمے کا مروڑ
1965ء کے دن تھے شاید…… ہم یعنی مَیں، شاہ پور کے سلیم خان، چنداخورہ کے اسماعیل اپنے افسر محمد کریم صاحب کے ساتھ اسی سید آباد میں فضل خالق پاچا کے مہمان تھے۔ اُن کا حجرہ پتھر گارے اور لکڑیوں کی چھت والا بہت سکون بخش لگ رہا تھا۔ اُن کے مکانات سے لے کر تقریباً دریا کے کنارے تک اُن کے باغات تھے …… لیکن وہ آڑو کے نہیں تھے جی…… ریڈ بلڈ مالٹوں کے تھے۔ کھانا کھانے کے بعد ہم چاقو ہاتھ میں لیے باغ میں داخل ہوگئے اور درختوں سے مالٹے اُتار کر کھانے لگے۔
اُس زمانے میں (خصوصاً تحصیلِ بریکوٹ میں) مالٹے کے باغات خاندانی ہونے کی نشانی سمجھی جاتی تھی۔ شنگردار سے لے کر کڑاکڑ تک اور املوک درہ کے اندر تک مالٹوں کے باغات ہوا کرتے تھے۔ مارچ اپریل میں ہر طرف مالٹوں کی کلیوں کی خوش بو پھیلتی رہتی۔ بریکوٹ مالٹوں کے بیوپار کا گڑھ سمجھا جاتا۔
یہاں کے مالٹے سائز میں بڑے اور رسیلے ہوتے تھے ۔
مالٹے کا درخت تو ویسے بھی زیادہ تر سدا بہار رہتا ہے۔پھر زرد اور سرخ رنگ کا پھل اور بھی رونق بخش تھا۔
ہمارے ایک مہربان بریکوٹ کے مقام خان زمان خیل ہر فصل پر ہمیں اپنے باغ کے مالٹوں کے تحفے سے نوازتا۔ اللہ اُن کی قبر نور سے بھر دے۔جب تک مالٹوں کے درخت تھے، وہ ہمیں ضرور یاد کرتے ۔
اب تو اس آڑو نے سوات کے معاشی اور معاشرتی اور ماحولیاتی پہلوؤں پر گہرا اثر ڈالا ہے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔