پاکستان میں کروڑوں لوگوں کو لگتا تھا اور ایک اکثریت کو اب بھی لگتا ہے کہ عمران خان اس ملک کا نظام درست کرسکتا ہے، تو اُنھوں نے ڈَٹ کر اُن کا ساتھ دیا، اور ووٹ دے کر اُن کو وزیرِ اعظم بھی بنایا۔ وہ تین سالوں میں شاید وہ کچھ نہ کرسکے، جو اُن سے اُمید تھی۔ اُن کو بیچ سفر اقتدار کی گاڑی سے اُتار کر، گاڑی اَوروں کے حوالے کردی گئی، مگر وہ گاڑی بری طرح پھنس گئی۔ اِسی وجہ سے اَب بھی عمران خان سے کروڑوں لوگوں کو اُمید ہے۔
زبیر توروالی کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/zubair-torwali/
مولانا مودودی (مرحوم) نے سمجھا کہ یہ ملک اُن کے نزدیک ایک جدید اسلامی طرزِ حکومت سے سنور سکتا ہے۔ لہٰذا اُنھوں نے اِس کی حمایت کرکے ایک انتخابی سیاست شروع کی، تاکہ اقتدار حاصل کرکے اپنے نتائج حاصل کرسکیں۔ مفتی محمود (مرحوم) اور اُن کے بعد اُن کے بیٹے مولانا فضل رحمان صاحب نے بھی ملک کو اپنی فہم کے مطابق اسلامی نظام کی راہ پر ڈالنے کے لیے انتخابی سیاست کا راستہ اپنایا۔ اسی طرح کئی اور گروہ بھی بن گئے۔ سنہ 2002ء کے انتخابات میں ان دو بڑی اسلامی سیاسی پارٹیوں سمیت کئی اور کے ایک اتحاد کو لوگوں نے اس صوبے میں ووٹ دیا۔ اگرچہ یہ الزام اب بھی قائم ہے کہ اس اتحاد کو ’’کسی اور‘‘ نے بنایا تھا، تاہم لوگوں نے اُن کو ووٹ دیا ۔ اُنھوں نے صوبے میں اپنی فہم کے مطابق نظام کو تبدیل کیا یا نہیں…… اور یا وہ کر بھی سکتے تھے کہ نہیں…… یہ الگ بحث ہے۔ مملکتِ پاکستان 1946ء کے انتخابات کے بعد وجود میں آیا تھا۔ یہاں کئی خرابیوں سمیت انتخابی سیاست ہی رہی ہے۔ جہاں موروثی سیاست رہی ہے، وہاں پہ جماعت اسلامی اور تحریکِ انصاف کی صورت میں غیر موروثی سیاست بھی وجود رکھتی ہے۔ اگر ہم میں سے کسی کو لگتا ہے کہ اس ملک کی ساری خرابیوں کا حل شریعت میں ہے، تو انتخابی راستہ اختیار کیے ہوئے شریعت کے داعی ان اسلامی سیاسی پارٹیوں کو ووٹ دے کر مرکز میں بھیجیں اور وہ وہاں سے پورا آئین (اگرچہ اسلامی ہی ہے) کو تبدیل کریں اور پھر اُس کی رو سے قوانین بنالیں۔ اسی طرح جن کولگتا ہے کہ عمران خان اب بھی اُن کی مرضی کے مطابق تبدیلی لاسکتے ہیں، تو وہ اُن کومنتخب کروائیں۔
اسی راستے کے علاوہ اپنی مرضی اور اپنی فہم کے مطابق شریعت یا تبدیلی لانے کے لیے کوئی اور راستہ نہیں۔ کوئی گروہ کسی کونے میں شاید کچھ عرصے کے لیے عام لوگوں کو ہانک سکے، جیسے کہ سوات میں ہوا تھا، لیکن یہ مسئلے کا حل نہیں۔ کسی جوشیلے کو اگر اپنے مقاصد اس طرح حل کرنے میں ناکامی ہوتی ہے، تو وہ کوئی اور قدم بھی اُٹھاسکتا ہے، بلکہ ہم نے اپنے علاقے سے کئی ایسے جوشیلے نوجوانوں اِنھی ناکام خواہشات کی تکمیل کے لیے کھودیا ہے۔ اُن کی قبریں ابھی تازہ ہیں۔
ہم ایک ملک کا حصہ ہیں اور اِس ملک میں ڈھیر ساری خرابیاں سہی، لیکن انتخابی سیاست وجود رکھتی ہے اور پارلیمانی جمہوریت پر سب سیاسی و مذہبی پارٹیاں متفق ہیں۔ اگر اس جمہوریت کو کوئی اور کنٹرول کرتا ہے، تو ان سیاسی جماعتوں کا کام ہے کہ اُس کی مزاحمت کرے اور اُس سے یہ اقتدار چھین لیں۔
عوام نے سوات میں مولوی فضل اللہ کو بھی سر چڑھایا تھا۔ اَب دس گیارہ سال بعد یہی عوام رکشے ڈرائیور سے لے کر پروفیسر تک اُس کو ڈراما سمجھتے ہیں۔ مقامی سطح پر آپ کسی بہتری یا سادگی کے لیے لوگوں کو قائل کرنے کی کوشش کرسکتے ہیں اور یہ اچھا قدم ہوگا۔ اسی طرح اجتماعات کا انعقاد کرسکتے ہیں کہ یہ ہم سب کا سیاسی و جمہوری حق ہے۔ ہمیں معلوم ہے کہ کئی رسوم ہماری معیشت سے بالا ہیں اور ہم جیسے غریبوں کے مستقبل کو تباہ کرتے ہیں…… اُن کی روک تھام کے لیے لوگوں کو تلقین کرنا مناسب عمل ہے، تاہم لوگوں کو اُن کے گاؤں والوں کے ذریعے یا اپنے پیشے کا استعمال کرکے محض اس لیے مجبور کرنا یا کسی سرگرمی سے روکنا کہ لگے آپ کی مہم کامیاب ہوئی ہے…… مناسب نہیں۔ اس سے بگاڑ پیدا ہوسکتا ہے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔