تفہیم المغرب

’’مغربی فکر کی تاریخی تشکیل‘‘ کے مطالعے کے عنوان سے ایک کورس کا آغاز ابنِ خلدون انسٹیٹیوٹ نے کروایا۔ اس کے پہلے لیکچر میں ہم نے یونان کے عہد کا جائزہ لیا تھا۔ میں مختصراً اس لیکچر کو آرٹیکل کی شکل میں تاریخ کے طالب علموں کے لیے پیش کرتا رہوں گا۔
ابو جون رضا کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/raza/
قدیم یونان ایک تہذیب ہے جو یونانی تاریخ سے متعلق ہے جس کی مدتِ تاریخ آٹھویں صدی سے چھٹی صدی قبل از مسیح سے 146قبل مسیح تک اور رومیوں کی جنگ کورنتھ میں یونان پر فتح تک محیط ہے۔ اس مدت کا درمیانی دور یونان کا کلاسیکی دور ہے جو پانچویں تا چوتھی صدی قبلِ مسیح کے دوران میں پھلا پھولا۔
’’میڈی ٹیرین سی‘‘ یعنی ’’بحرِ اوسط‘‘ جس کو کہا جاتا ہے، اس کے پاس یونانیوں نے بارہ شہروں کا سلسلہ آباد کیا۔ جو ایوینیا کے بارہ شہر (Dodecapolis of Ionia) کہلایا۔ یہ توانائی اور عقل و خرد سے مالا مال قوم تھی۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ چھے سو سال قبلِ مسیح میں تھیلیس نے مالیتھس میں یونانی فلسفہ کے پہلے مکتبۂ فکر کی بنیاد رکھی…… اور افلاطون سے تین صدی پہلے ہیرا کلیتس نے فلسفۂ ارتقا پیش کیا۔ اس فلسفی کے الفاظ آج بھی مسحور کن ہیں ۔
’’کچھ بھی ’ہے‘ نہیں بلکہ ’بنتا‘ ہے۔
ہر چیز بہاو میں ہے۔
آپ ایک بہتی ہوئی ندی کے پانی میں دو بار اپنا پاؤں نہیں ڈال سکتے
فریبِ نظر ہے سکون و ثبات
تڑپتا ہے ہر ذر ہ کائنات!‘‘
1830ء میں ہیگل کا پیش کردہ نصف فلسفہ یہاں صرف دو تین جملوں میں سمٹا ہوا ملتا ہے۔
یونانی آزاد قوم تھے۔ انھوں نے خود پر بادشاہت مسلط نہیں کی۔ وہ اس حد تک انسانی آزادی کے قائل تھے کہ انھوں نے ایرانیوں کو خود پر مسلط نہیں ہونے دیا، یہاں تک کہ ایک زبان، ایک کلچر ہوتے ہوئے ایمپائر نہیں بنائی بلکہ شہری ریاستیں تشکیل دیں۔ ان کا ادب اور تحریری ورثہ ہم تک پہنچا ہے۔ ہومر کی ’’اوڈیسی‘‘ اور ’’ایلیاڈ‘‘ آج بھی پڑھی جاتی ہیں۔ تھیٹر، اولمپکس اور مجسمہ سازی یونانیوں ہی کی ایجاد ہے۔
رومیوں نے جب یونان فتح کیا، تو اعتراف کیا کہ اصل میں یونانیوں نے ہمیں مفتوح کرلیا تھا۔ کیوں کہ اس وقت رومی تہذیب و تمدن سے ناواقف تھے اور انھوں نے یونانیوں سے علم و خرد کو استعمال میں لانا سیکھا۔
دنیا کی تقریباً ہر تہذیب پر یونانیوں کا اثر پڑا ہے۔ مسلمانوں نے مامون کے دور میں ان کی کتابوں کا عربی میں ترجمہ کیا اور ان سے منطق کا استعمال سیکھا۔
یونانیوں نے 700 سال قبلِ مسیح سیاسی سطح پر کئی تجربات کیے۔ انھوں نے آمریت کا تجربہ کیا اور پھر اس کو مسترد کردیا۔ اس طرح سے انھوں نے جمہوریت کا تجربہ بھی کیا۔ شہری کونسلز اور سینٹ کا طریقۂ کار بھی آزما کر دیکھا ۔
یونانیوں کا مذہب دیوی دیوتاؤں کی پرستش تھا۔ وہ ان کے حوالے سے اساطیری کہانیوں پر یقین رکھتے تھے۔ ڈیلفی جو اس زمانے کا سب سے بڑا مندر یا عبادت گاہ سمجھی جاتی تھی، اس کا پروہت کبھی کبھار لوگوں کو بتاتا تھا کہ اس کو اساطیری انداز میں دیوی دیوتا کی طرف سے پیغام ملا ہے۔ وہ پیغام اشاراتی اور گنجلک زبان میں ہوتا تھا اور اس کو ’’ڈی کوڈ‘‘ کرنا پڑتا تھا، جو زیادہ تر کسی سوال کے جواب پر مشتمل ہوتا تھا۔ یہ وحی کی ایک شکل تھی جو دیوتا کی طرف سے معبد کے سب سے بڑے پروہت کو ہوتی تھی۔
دیوی دیوتا کیوں کہ روز مرہ زندگی کے حوالے سے احکامات جاری نہیں کرتے تھے، اس وجہ سے قوانین اور تمدن کے پھیلاو کے لیے یونانیوں کو عقل کا سہارا لینا پڑا جس کی وجہ سے انھوں نے ایک بہترین تہذیب کی بنیاد ڈالی۔ فلسفیوں نے اساطیری کہانیوں اور دیوی دیوتاؤں کی کہانیوں پر اعتراض کیے اور کہا کہ یہ کیسے دیوتا ہیں جو بد اخلاق ہیں اور ایک دوسرے سے لڑتے جھگڑتے ہیں۔ اس طرح سے بہت جلد مذہب کو انھوں نے یونان سے نکال لیا۔ ان کے یہاں نبی یا کسی رسول کا تذکرہ نہیں ملتا۔ سینٹ آگسٹائن جو 354ء میں پیدا ہوئے، ان کی کتاب”City of Gods” میں یہ خیال ظاہر کیا گیا ہے کہ افلاطون کی فکر میں اسرائیلی پیغمبروں کے اثرات ملتے ہیں۔ کیوں کہ افلاطون نے سفر بہت کیا ہے، اس لیے ممکن ہے کہ اس نے الہامی پیغمبروں کی فکر کو پڑھا اور سمجھا ہو، اگرچہ افلاطون نے اس کا کبھی ذکر نہیں کیا۔
اس حوالے سے پھر ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر الہامی احکامات یونان میں بھی فروغ پاتے، تو کیا یونانی اسی طرح عقل و شعور کو ارتقا دے پاتے جس طرح سے انھوں عقل کا استعمال کیا؟
اس کے جواب میں ہم کوئی حتمی رائے قائم نہیں کرسکتے۔ ہوسکتا ہے وہ تمدنی طور پر بہت جلد ترقی نہ پاتے جس طرح سے عقل کے استعمال سے انھوں نے بہت تیزی سے مراحل طے کیے ، لیکن بہرحال یہ ایک قیاس ہی کہلائے گا۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے