اکثر الفاظ یا فقرے ہم روزانہ غلط لکھ اور بولتے ہیں۔ جب ایسی غلطیوں کا چلن عام ہوجائے، تو اسے ’’غلط العام‘‘ کَہ کر قبول کرلیا جاتا ہے۔ آج چند ایسی غلطیوں پر بات کرتے ہیں جنھیں غلط العام کے طور پر قبول کیا گیا ہے۔
رفیع صحرائی کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/rafi/
ایک غلطی جو بازاروں سے شروع ہو کر اب کتابوں تک پہنچ چکی ہے، وہ یہ ہے کہ لفظ ’’عوام‘‘ کو مونث کرکے اسے واحد بنا دیا گیا ہے۔ چناں چہ پہلے جو عوام (عام کی جمع) ہوتے تھے، اب ہوتی ہے۔ بعض تعلیم یافتہ لوگ بھی کہنے لگے ہیں: ’’ہماری عوام بہت باشعور ہے۔‘‘ ہمیں عوام کے مونث ہوجانے پر اتنا اعتراض نہیں، اصل رونا اس بات کا ہے کہ ان بے چاروں (یا بے چاریوں) کو واحد کردیا گیا ہے۔
آپ کو اکثر ایسے دعوت نامے ملتے ہوں گے جن میں لکھا ہوتا ہے کہ تقریب ’’مورخہ…… کو منعقد ہوگی۔‘‘ حالاں کہ ’’مورخہ‘‘ ماضی کی تاریخ کے لیے آتا ہے جیسے ’’مورخہ 4 اپریل کے اخبار میں یہ خبر شائع ہوئی تھی۔‘‘ آنے والی تاریخ کے لیے اگر چاہیں، تو’’بتاریخ‘‘ لکھ دیں جیسے ’’بروز‘‘ لکھا جاتا ہے۔
اس طرح بعض الفاظ کے املا میں بلاوجہ اضافے کر دیے گئے ہیں۔ مثلاً انکسار کی جگہ ’’انکساری‘‘، تقرر کی جگہ ’’تقرری‘‘، تنزل کی جگہ ’’تنزلی‘‘تابع کی جگہ ’’تابع دار‘‘ مع کی جگہ ’’بمع‘‘ یا ’’بمعہ‘‘لکھنا عام ہے۔
اس طرح وفات ایک عام لفظ ہے۔ اب اس کو کئی لوگ ’’فوتگی‘‘ کہنے لگے ہیں۔ پھر کچھ لوگوں کی اس پر بھی تسلی نہیں ہوتی اور وہ اس کو مزید بڑھا کر ’’فوتیدگی‘‘ کہنے لگے ہیں۔
بعض اشعار بھی غلط رائج ہو گئے ہیں۔ مثلاً: غالبؔ کا شعر ہے:
جی ڈھونڈتا ہے پھر وہی فرصت کہ رات دن
بیٹھے رہیں تصورِ جاناں کیے ہوئے
پہلے مصرع میں عام طور پر’’فرصت کے رات دن‘‘پڑھا اور لکھا جاتا ہے۔
خواجہ میر درد کا ایک ضرب المثل شعر ہے:
دردِ دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو
ورنہ طاعت کے لیے کچھ کم نہ تھے کروبیاں
دوسرے مصرع میں’’کروبیاں‘‘ دراصل کروبی کی جمع ہے جس کے معنی ہیں مقرب فرشتہ۔ بہت سے لوگ اس کو ’’کرّو۔ بیاں‘‘ کہتے سنے گئے ہیں، جیسے یہ ’’کرّوفر‘‘ قسم کا کوئی لفظ ہو۔
ماشاء اللہ جو ایک کلمۂ تحسین ہے، اس کے بعد ’’سے‘‘ کا لاحقہ لگ گیا ہے۔ اچھے خاصے سمجھ دار لوگ کہتے ہیں:’’ماشاء اللہ سے میرا بیٹا بڑا ذہین ہے۔‘‘
اسی طرح ’’دونوں فریقین‘‘ پر غور فرمائیے ’’فریقین‘‘ کے تو معنی ’’دو فریق‘‘ ہیں، پھر اس میں’’دونوں‘‘ کا سابقہ کیوں……؟
ایک اور غلطی جو ہم روزانہ پڑھتے، لکھتے اور بولتے ہیں وہ ہے ’’سالانہ برسی‘‘…… والد مرحوم کی دوسری سالانہ برسی فلاں تاریخ کو ہے۔ لفظ برسی ’’برس‘‘ یعنی سال سے نکلا ہے۔ لہٰذا سالانہ برسی کہنے کا کوئی جواز نہیں بنتا۔
ایک غلطی اکثر نمازِ جنازہ کا اعلان کرتے وقت سنائی دیتی ہے۔ ’’نمازِ جنازہ‘‘ کا مطلب ہے جنازہ کی نماز۔ ’’ز‘‘ کے نیچے ’’زیر‘‘ فارسی ترکیب کے مطابق حرفِ اضافت ہے، مگر اعلان کرتے وقت اکثر سنائی دیتا ہے کہ ’’فلاں صاحب وفات پاگئے ہیں، ان کا نمازِ جنازہ دو بجے ادا کیا جائے گا۔ حالاں کہ جنازہ کی نماز ادا کی جاتی ہے، جنازہ ادا نہیں کیا جاتا۔
آیندہ ماہ آپ کو اکثر یہ فقرہ سننے کو ملے گا۔’’مسلمانو! ماہِ رمضان کے مہینے کے روزے تم پر فرض کیے گئے ہیں۔‘‘ ماہ کا مطلب بھی مہینا ہوتا ہے۔ ماہِ رمضان کہنا چاہیے یا رمضان کا مہینا کَہ لیں۔ ماہِ رمضان کا مہینا کہنا درست نہیں۔
اکثر پڑھے لکھے مقررین اور خاص طور پر سیاست دان اپنے جلسوں میں دورانِ تقریر کہتے سنائی دیتے ہیں: ’’مَیں آپ کا بے حد مشکور ہوں۔‘‘ لفظ مشکور غلط العام کے طور پر ’’شکر گزار‘‘ کے متبادل کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ حالاں کہ یہ لفظ شکرگزار کا متضاد ہے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔