حکم رانوں کی طرف سے پے در پے مہنگائی کرتے ہوئے کہا جارہا ہے کہ یہ آئی ایم ایف کی شرائط ہیں۔ اگر ان پر عمل درآمد کرتے ہوئے قیمتوں میں اضافہ نہ کیا گیا، تو خدا نخواستہ پاکستان ڈیفالٹ کرجائے گا۔
رانا اعجاز حسین چوہان کی دیگر تحاریر کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/rana/
حکم رانوں کی سوچ اپنی حد تک درست…… مگر پے درپے مہنگائی اور اشیائے خور و نوش میں گرانی کے طوفان سے غریب کا چولہا بجھ گیا ہے۔ محنت مزدوری کرنے والے طبقے کے لیے دو وقت کی روٹی کمانا، جوئے شیر لانے کے مترادف ہوچکا، نفع اور مزدوری کی اجرت وہی، مگر اخراجات میں مہنگائی کی وجہ سے کئی گنا اضافہ ہوچکا ہے…… اور سارے سارے دن آٹے کے لیے لائن میں لگنے والے غریب ڈیفالٹ کرچکے ہیں۔
ملک میں معاشی حالات اس قدر سنگین ہیں کہ ہر مکتبۂ فکر کے افراد پریشان ہیں اور کہتے نظر آتے ہیں کہ ایسی مایوسی ہم نے اپنی زندگی میں پہلے کبھی نہیں دیکھی۔ اقتصادی طور پر پاکستان کو خطرناک اور پیچیدہ صورتِ حال کا سامنا ہے۔ قومی کرنسی ڈالر کے سامنے ایسے عجز کا شکار کبھی نہیں رہی۔ ایک ڈالر275 روپے کا ہوچکا ہے۔ زرِمبادلہ کے ذخائر ریکارڈ کمی کا شکار ہیں۔ ایک ایک دن میں 65 کروڑ ڈالر کم ہورہے ہیں۔
قارئین! پاکستان بنیادی طور پر زرعی ملک ہے۔ ہماری زرخیز اراضی پہلے پورے جنوبی ایشیا کے لیے غلہ پیدا کرتی تھی، اب ہم اپنے لیے کیوں نہیں کرسکتے؟ ہمارے پاس سونا اگلنے والی دھرتی ہونے کے باوجود ہم گندم، پیاز، ٹماٹر، سبزیاں اوراناج دوسرے ملکوں سے منگوارہے ہیں۔ ہمارے قدرتی وسائل بے پایاں ہیں، مگر بد ترین حکم رانی کی تاریخ نے ہمارے سر شرم سے سر جھکا دیے ہیں۔ ملکی و غیر ملکی ماہرین کَہ رہے ہیں کہ یہ بگڑے ہوئے حالات ایک سے ڈیڑھ سال مزید جاری رہ سکتے ہیں۔
13 جماعتی وفاقی حکومت تاحال ملک کے اقتصادی، سیاسی اور سماجی مسائل کا کوئی حل تلاش نہیں کرسکی۔ ایسی پالیسیاں وضع نہیں کرسکی جن سے ڈالر کی پرواز رک سکے…… اور ضروری اشیا کی قیمتیں قابو میں آسکیں۔
بعض اوقات تو سنجیدہ حلقے یہ بھی محسوس کرتے ہیں کہ اقتصادی، سیاسی اور سماجی بحران کو ختم کرنا اس مخلوط حکومت کی ترجیحات میں شامل ہی نہیں، بلکہ یہ بحران اسے راس آرہا ہے…… اور وہ اس سے ٹھیک ٹھیک فائدے اٹھا رہی ہے۔ اس لیے بحران جتنا گہرا اور وسیع ہوتا ہے، اتنا ہی حکومت اپنے مخالفین پر سختیاں زیادہ کردیتی ہے۔ اس وقت جو اندازِ حکم رانی ہے، وہ ملک کو تباہی اور بربادی کی طرف لے جا رہا ہے۔ کسی بھی وقت خانہ جنگی شروع ہوسکتی ہے۔
قارئین! ہمارے ملک کے موجودہ سیاسی و معاشی حالات اس نہج پر آگئے ہیں، جہاں مکالمہ ہوتا نظر نہیں آرہا، جب کہ بڑے سے بڑا مسئلہ ہمیشہ مکالمے سے ہی حل ہوتا ہے۔ ظلم و جبر اور انتقام کسی مسئلے کا حل نہیں ہوتا۔ اس سے ہمیشہ معاشرے میں ’’انارکی‘‘ اور نفرت جنم لیتی ہے۔ جادو کی چھڑی تو کسی بھی حکم ران کے پاس نہیں۔
آج کے گلوبلائزیشن کے اس دور میں تنہا کوئی ریاست اپنے مسائل حل نہیں کرسکتی۔ آئی ایم ایف اور ایسے دوسرے اداروں کی مدد حاصل کرنا پڑتی ہے…… لیکن کلی طور پر ان کا محتاج بھی نہیں ہونا چاہیے۔آئی ایم ایف سے معاہدہ تو جاری رکھنا ہوگا، اس کی شرائط بھی تسلیم کرنا ہوں گی، اس کے نتیجے میں ہی ہمارے دوست ممالک چین، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات وغیرہ ہماری مدد کرسکیں گے…… لیکن آئی ایم ایف کی شرائط کا بوجھ غریب عوام پر براہِ راست منتقل کرنا سراسر ظلم ہے۔
اس حوالے سے ہمارے اقتصادی ماہرین متبادل راستے تجویز کرسکتے ہیں۔ خرچ کرنے کے ہمارے انداز شاہی ہیں۔ ہمیں وفاقی صوبائی کابینہ کو مختصر کرنا ہوگا۔ آج ہمارے حکم ران تو آسان راستہ یہی خیال کر رہے ہیں کہ آئی ایم ایف جتنا بوجھ دیتی ہے، وہ براہِ راست غریب عوام پر ڈال دیں اور خود کوئی احتیاط کریں، نہ کفایت شعاری ہی اپنائیں۔ آئی ایم ایف نے بجا طور پر بیورو کریسی کے اثاثے ظاہر کرنے پر زور دیا ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ ملک کو بدترین معاشی حالات سے نکالنے اور بہتری کی طرف لانے کے لیے تمام سیاسی جماعتوں کی جانب سے متفقہ طور پر ایک متفقہ لائحہ عمل طے کیا جائے، جس کے نتیجے میں ایک غیرجانب دار، محب وطن معاشی اور قانونی ماہرین پر مشتمل نگران انتظامی ڈھانچا تشکیل پائے، اور اس قابلِ قبول نگران حکومت کی مدت محدود ہو…… اور اس کی تشکیل کے وقت ہی اگلے عام انتخابات کی تاریخ کا اعلان بھی کر دیا جائے، جو بالکل شفاف اورمنصفانہ ہوں۔
جو جماعت اس سے اتفاق نہ کرے، اس کو عدالتِ عظمیٰ پاکستان کے ذریعے ہمیشہ کے لیے کالعدم قرار دیا جائے۔ ا س سے ایک طرف تو ہم بحران سے نکل سکیں گے، جب کہ دوسری طرف حقیقی جمہوریت کی بدولت حکم رانوں پر عوام کا اعتماد بھی بحال ہوگا۔
رہے نام اللہ کا……!
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔