عقل مند کہتے ہیں کہ کبھی کبھار نہ جاننا، جاننے سے بہتر ہوتا ہے۔ ہر چیز کی معلومات ہونا بھی ایک عذاب ہے۔ کسی وقت سیاست اور ملٹری سے منسلک لوگوں کے درمیان بند دروازوں کے پیچھے کیا باتیں ہوتی تھیں اور کیا نہیں، عام عوام تک نہیں پہنچتی تھی…… اور یہ سب کسی نعمت سے کم نہیں تھا۔ یقینا وہ حسین دن اب کبھی واپس نہیں آئیں گے……!
ندا اسحاق کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/ishaq/
اور اب ان عہدے داران کی آپس کی عام گفت گو کا بھی صحافی (جن کے یوٹیوب چینل ہیں، جو ٹی وی پر ہیں) اس قدر تفصیلی جایزہ لیتے ہیں کہ جیسے یہ بہت ہی قیمتی اور ضروری انفارمیشن ہے۔ مَیں یوٹیوب پر بیٹھے صحافیوں کی ریسرچ کرنے کی صلاحیت سے بہت متاثر ہوئی ہوں!
اگر کسی ملٹری سے منسلک اعلا عہدے دار کی عیاش زندگی کی داستان آپ تک پہنچ بھی جائے، تو آپ کیا اُکھاڑ لیں گے ان جناب کا؟ اس بات سے مجھے کنفیوشس (Confucius) کا ایک قصہ یاد آگیا، جب موجودہ حکم ران کے ظلم سے تنگ آکر ایک نوجوان کنفیوشس سے کہتا ہے کہ ’’مَیں موجودہ حکم ران کو بتانے جا رہا ہوں کہ اس کی ان پالیسیوں سے ہم سب بہت تکلیف میں ہیں…… اور یہ سب نہیں چلے گا!‘‘ کنفیوشس جواب دیتا ہے: ’’بھائی! ٹھنڈ رکھو، تمھارے ارادے جذباتی ہیں اور یاد رکھو کہ ان ارادوں کا نقصان ہوسکتا ہے۔ حکم ران اس انتظار میں نہیں بیٹھا کہ تم اسے آکر بتاؤ کہ ملک کیسے چلانا ہے، بلکہ تم خاموشی سے اس نظام کو سمجھو، اس کی جانچ پڑتال کرو، اس نظام میں رہ کر بادشاہ اور اس کی حکومت کو سمجھتے ہوئے صحیح وقت کا انتظار کرو، جب موقع ملے، تو نظام کو بدلنے کی کوشش کرو۔‘‘
مَیں کنفیوشس کی اس بات سے اتفاق نہیں کرتی۔ یہ ہمارے معاشرے اور دور سے مناسبت نہیں رکھتا…… اور اگر رکھتا بھی ہے، تو اس میں بہت وقت لگ سکتا ہے، اور ہمیں زندگی ایک بار ہی ملتی ہے۔ اس لیے اپنی انرجی کو اپنے فایدے کے لیے استعمال کرنا ضروری ہے۔
اگر آپ اس سیاسی نظام سے نمٹنا چاہتے ہیں، تو میرے پاس آپ سب کے ساتھ شیئر کرنے کے لیے ایک ’’تھیوری‘‘ (Theory) ہے۔ بہت ممکن ہے کہ آپ کو اس سے اختلاف ہو اور ہونا بھی چاہیے…… لیکن یہ تھیوری مجھے بہت پسند آئی ہے۔ مَیں نے یہ آرٹیکل آج سے بہت پہلے اپنے موبائل کے نوٹس میں لکھا تھا، لیکن مجھے لگا کہ یہ محض میرا نظریہ اور ایک تھیوری ہے، تو اسے شیئر کرنے کا کوئی فایدہ نہیں۔ آج خیال آیا کہ کیوں نہ سیاست میں انتہائی دلچسپی رکھتے ہوئے عوام کے ساتھ اس کو شیئر کیا جائے۔ کیا پتا مجھ جیسے کسی اور سر پھرے کو اسے پڑھنے کی ضرورت ہو۔
ایسا نہیں کہ مجھے ملک کے حالات جاننے میں کوئی دلچسپی نہیں۔ مَیں ملک کے حالات سے باخبر رہتی ہوں، لیکن اس لیے نہیں کہ اس پر تبصرہ کروں یا کوئی نظریات قایم کروں…… بلکہ مَیں اس لیے باخبر رہتی ہوں کہ حالات اور مہنگائی کے مطابق اپنا بجٹ کنٹرول کرسکوں۔ کیوں کہ آخر میں سوشل میڈیا پر بھڑاس نکالنے کے بعد اگر کچھ آپ کے اختیار میں ہے، تو وہ صرف آپ کا اپنے بجٹ کو کنٹرول کرنا ہی ہے۔
قارئین! ہر نظریہ، ٹرینڈ یا ادارہ اپنے انجام کو پہنچتا ہے۔ ڈھیر سارے لوگ کہتے ہیں پاکستان کے اداروں کی نااہلی اور اصلیت کی آگاہی سوشل میڈیا نے دی ہے جب کہ میرا ماننا اس کے برعکس ہے۔ پاکستان بھی ہمیشہ ایسا نہیں رہے گا۔ کوئی بھی نظریہ یا ادارہ ہو، اپنے انجام کو ضرور پہنچتا ہے۔ سالوں لگ جاتے ہیں لیکن فطرت سب آشکارا کردیتی ہے۔ طاقت اور کم زوری کا یہ رقص چلتا رہتا ہے۔ یہ کوئی نئی بات نہیں۔ یہ تبدیلی والا کھیل ہماری دنیا یا پھر شاید کائنات جتنا پرانا ہے۔ یہ فطرت کا نظام ہے۔ سب بدلتا ہے، لیکن بہت ممکن ہے کہ یہ تبدیلی دیکھنے کے لیے آپ اور مَیں زندہ نہ رہیں۔ اس لیے مَیں نے اپنی انرجی کو بچانے کا فارمولا اسی زندگی میں ڈھونڈ لیا ہے۔ کیوں کہ مَیں اس امید پر زندہ نہیں رہ سکتی کہ کوئی نجات دہندہ آکر مجھے حکم ران کے ظلم سے نجات دلائے گا اور فطرت بہت سست اور کاہل ہے۔
قارئین! دنیا میں دو ایسے گروہ ہیں جو فطرت اور اس کے قوانین کو بہت قریب اور دھیان سے دیکھتے اور سمجھتے ہیں۔ پہلے گروپ میں سائنس دان (Scientists) جب کہ دوسرے میں روحانی استاد/ فلسفی (Spiritual Teachers) شامل ہیں۔ البتہ دونوں کا کام کرنے کا طریقہ الگ ہے اور دونوں کے مقاصد بھی الگ ہیں۔ روحانیت آپ کو خود بہتری (Self-improvement) کا سبق دیتی ہے، جو صرف اپنی ذات پر دھیان دینے سے آتی ہے، جب کہ سائنس دان کہتے ہیں کہ وہ انسانیت کی فلاح و بہبود چاہتے ہیں جو کہ صرف سائنس کی ترقی سے ممکن ہے…… جب کہ میرا ماننا ہے کہ ان دونوں کا ملاپ آپ کو زیادہ بہتر طور پر زندگی اور دنیا کی سمجھ دیتا ہے (میرا ماننا ضروری نہیں کہ درست ہو۔)
سیاست اور اس سے منسلک مواد میں ایک خاصیت ہے اور وہ ہے تنقید (اکثر لوگ کہتے ہیں کہ سیاست ’’شعور‘‘ دیتی ہے)، تنقید (Criticism) کرنا ایک بہت ہی تفریح والا عمل ہے اور خاص کر وہ والی تنقید جس میں آپ اپنے نظریے پر ڈٹے رہ کرساری ناکامیوں کا الزام کسی ایک خاص ادارے یا نظریے کو دے دیں۔ اپنی زندگی میں موجود کچھ لوگوں کو جب ہم اپنی بری حالت کا ذمے دار ٹھہراتے ہیں، تو ہم کچھ دیر کے لیے ہی سہی لیکن اچھا محسوس کرتے ہیں (بعض اوقات کچھ لوگ اور ادارے واقعی میں ہماری بری حالات کے لیے ذمے دار ہوتے ہیں۔)
وقت گزرنے کے ساتھ مجھے اتنی سمجھ تو آگئی کہ میڈیا اور ان تمام بڑے اداروں کا کاروبار منفی باتیں اور خوف بیچنے پر چلتا ہے، لیکن حال ہی میں جب میری نظر سے ایک عجیب سی ’’تھیوری‘‘ گزری، تو مجھے اور بھی بہتر طور پر سمجھ آگئی کہ آخر یہ سب ادارے، نظریات اور ٹرینڈز ہم عام انسانوں سے چاہتے کیا ہیں؟
اس تھیوری میں تمام اداروں، نظریات، ٹرینڈز کو ’’پینڈولم‘‘(Pendulum) کہا گیا ہے اور یہ پینڈولم انسانوں سے اور کچھ نہیں بلکہ ان کی انرجی اور توجہ چاہتے ہیں۔ یہ سارے پینڈولم انرجی پر پلتے ہیں۔ ان پارٹیز، نظریات، ٹرینڈز سے جڑے لوگ (پیرو کار) اپنی قیمتی انرجی انھیں دیتے ہیں اور یوں یہ پھلتے پھولتے ہیں۔ تھیوری کے مطابق بدلے میں عام عوام کو کچھ نہیں ملتا، اور کیوں ملے گا، انرجی اگر خود پر لگائی ہوتی، تو ضرور ملتا، لیکن پینڈولم پر لگائی جانے والی انرجی کا فایدہ صرف اسی کو ہوتا ہے۔ لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ آپ ان سے لڑ نہیں سکتے۔ آپ ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔ یہ بہت طاقت ور اور پیچیدہ ہوتے ہیں۔ یہ اپنی موت خود مرتے ہیں، جیسے کہ کوئی ادارہ، پارٹی، نظریہ، سوچ، ٹرینڈ، یہ خود ہی ختم ہوجاتے ہیں…… جب انہیں انرجی (پیروکار) ملنا بند ہوجاتی ہے۔
یاد رکھیے کہ آپ نے ان سے لڑنا نہیں۔ آپ ان سے اپنی جان نہیں چھڑا سکتے۔ یہ آپ کی دنیا اور زندگی کا حصہ ہیں۔ آپ رہیں نہ رہیں، لیکن یہ تھے، ہیں اور رہیں گے۔ البتہ ایک طریقہ ایسا ہے جس سے آپ ان کے اثر سے نکل کر اپنی انرجی کو بچا کر اپنی من پسند جگہ لگا سکتے ہیں۔ کیوں کہ ان تمام پینڈولم کی ایک خواہش ہوتی ہے کہ اس کے پیروکار بے شعور (Unconscious) رہیں۔ لیکن ان کی ایک خاصیت یہ ہے کہ اگر آپ میں ٹیلنٹ ہے یا آپ منفرد ہیں، تو یہ مجبوراً (نہ چاہتے ہوئے بھی) آپ کو بلندیوں کی سطح پر لے جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر کسی نئے آرٹسٹ کو ایک ’’کامیاب آرٹسٹ‘‘ میڈیا کا پلیٹ فارم ہی بناتا ہے، لیکن شرط انفرادیت اور نئے آئیڈیاز ہیں۔ یہاں بھی ایک متضاد (Paradox) قانون ہے کہ ان پینڈولمز کی کوشش تو یہی ہوتی کہ آپ موجودہ ٹرینڈ کو فالو کریں، لیکن اگر آپ کے آئیڈیاز، پنڈولمز کے خلاف لیکن منفرد اور اچھوتے ہیں، تو یہ آپ کو اپنے ساتھ شامل کرلیتے ہیں۔ ایسے لوگوں کے لیے پینڈولمز بہت کار آمد ہوتے ہیں اور باقی وہ لوگ جو جاگ کر بھی نیند میں (Unconscious) ہوتے ہیں وہ پینڈولمز کو مزید طاقت دینے کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں۔
یہ تھیوری صرف سیاست، ٹرینڈ، نظریات، سوچ پر اپلائی نہیں ہوتی۔ اسے آپ زندگی کے کسی بھی ایسے حصے پر اپلائی کرسکتے ہیں، جہاں آپ شعور یافتہ ہیں…… لیکن آپ کے ارد گرد والے بے شعور ہیں۔ آپ اگر ان سے اختلاف کریں گے اور لڑیں گے، تو صرف اپنی انرجی ضایع کریں گے ۔ ایسے میں یہ تھیوری آپ کی مدد کرسکتی ہے۔ خواہ مخواہ کے جھمیلوں میں ٹانگ اَڑانے سے محفوظ رہنے کے لیے ۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان کے اثر سے کیسے بچا جائے…… اگر یہ صرف آپ کی انرجی کھا رہے ہیں اور فایدہ کوئی نہیں دے رہے (اگر فایدہ دے رہے ہیں، تو ان کا ساتھ آپ کی مجبوری ہے۔)
ان کے اثر سے محفوظ رہنے کے لیے لاتعلقی کو بہترین ہتھیار بتایا جاتا ہے۔ لاتعلقی کا فلسفہ’’ اسٹائیسزم‘‘ (Stoicism) سے منسلک ہے۔ آپ ایک مبصر (Observer) کا کردار ادا کریں ۔اگر اپنی انرجی بچانا چاہتے ہیں، تو آپ لاتعلقی کا اظہار کریں۔ کیوں کہ اب آپ شعور یافتہ ہیں۔ اب آپ گیم کو سمجھ گئے ہیں۔ اس لیے آپ کو یہ والا گیم کھیلنے کی ضرورت نہیں۔ کیوں کہ آپ اس گیم میں پنڈولمز کی طاقت کا مقابلہ نہیں کر پائیں گے، بلکہ آپ خاموشی سے لوگوں کو کھیلتا دیکھیں اور اپنی انرجی دینے سے گریز کریں۔ شور شرابا مچا کر آپ کبھی ان سے نہیں جیت سکتے۔ ان کے اثر کو کم کرنے کے لیے اچھوتے خیالات اور کریٹوٹی (Creativity) کی ضرورت پڑتی ہے ۔ شور مچانے والے اکثر پیروکار اکھٹا کرکے اپنا ایک الگ پینڈولم بنا لیتے ہیں۔
ہوسکتا ہے کہ زندگی کے کسی موڑ پر آپ کو کسی پینڈولم کے ساتھ جڑنا پڑ جائے۔ یاد رکھیے کہ آپ اس سے بھاگ نہیں سکتے۔ آپ اس کی طاقت کے آگے ڈھیر ہوجائیں گے۔ آپ کو جڑنا پڑے گا، لیکن بس دو باتیں یاد رکھیے گا:
٭ آپ مبصر (Observer) ہیں۔
٭ اور لاتعلقی (Indifference) والا اصول ہرگز نہیں بھولیے گا……!
…………………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔