سید حسین علی گیلانی اور ان کی کتاب ’’پربتوں کے مسافر‘‘

کہتے ہیں عشق نام کے گزرے ہیں اک بزرگ
ہم لوگ بھی فقیر اُسی سلسلے کے ہیں
سید حسین علی گیلانی سادات فیملی کے چشم و چراغ ہیں…… اور وہ اسی عشق نام کے بزرگ کے سلسلے کے فقیر ہیں۔ ’’اندر توں ایں باہر توں ایں، روم روم وچ توں‘‘ کے مصداق عشق ان کی گھٹی میں رچا بسا ہے۔ وہ عشق کی نگاہ سے کائنات دیکھتے ہیں۔ انھیں ہر چیز میں عشق نظر آتا ہے۔ چاہے وہ جنگل و بیاباں ہوں پہاڑ و دریا ہوں، پربتوں کی سر سبز شاہ زادیاں ہوں یا بنجر اور ویران وادیاں ہوں۔ کوئی عشق کا بیلہ ہو یا مارو تھل کا ٹیلہ ہو۔ چاہے ہجر کی رات ہو چاہے حسن کی بات ہو۔ انھیں جو بھی، جہاں بھی، جیسا بھی اور جس شکل میں بھی ہے عشق کی واردات لگتی ہے۔ کائنات کی ہر شے اسی عشق کے گرد گھومتی دکھائی دیتی ہے۔
باہر ہیں حد فہم سے رندوں کے مقامات
کیا تجھ کو خبر کون کہاں جھوم رہا ہے
وہ ایک فطرت پسند، پہاڑوں کے سچے عاشق اور ان کی اونچی نیچی راہوں، اوبڑ کھابڑ پگڈنڈیوں، نوکیلے پتھروں، جان لیوا گھاٹیوں کے اُوکھے پینڈوں پر چلنے والے شان دار ٹریکر ہیں۔ انھیں ہر پہاڑی رہ گزر سے عشق ہے۔ جہاں فطرت اپنی تمام تر رنگینیوں، رعنائیوں اور زیبائیوں کے ساتھ جلوہ فگن ہوتی ہے۔ پہاڑ ان کے محبوب ہیں۔ محب اور محبوب کے اَسرار کو وہ اچھی طرح جانتے پہچانتے ہیں۔ ان کی ذاتِ اولا اور پہاڑوں کے درمیان ہونے والی گفت و شنید کو سمجھنا اور سمجھ کر اس کا جواب دینا انھی کا خاصا ہے۔
پربتوں کے مسافر بھی ان کے ’’لپگھر پیر پاس‘‘ کے ٹریک کا خلاصہ ہے…… جسے انھوں نے کمال خوبی سے ایک بہترین اندازِ بیاں کو اپناتے ہوئے بیاں کیا ہے۔ اگر ان کے اس سفرنامے کو ایک لفظ میں بیاں کیا جائے، تو وہ ’’عشق‘‘ ہے اور عشق بھی کامل عشق۔ اس سے کم کے وہ قایل ہی نہیں۔ انھیں عشق میں جامعیت اور کاملیت پسند ہے۔ ایسے عشق پر انھی کا اقتباس ملاحظہ ہو:
’’خدارا عشق کیجیے…… شوق سے کیجیے…… جب مرضی ہو، تب کیجیے…… لیکن…… جب بھی کیجیے، مکمل عشق کیجیے…… ادھوری تو بے کاری بھی مفید نہیں……عشق، ادھورا عشق تو مار دیتا ہے……!
اور پھر ایک اور جگہ وہ فرماتے ہیں کہ ’’عشق کبھی جدائی سے نہیں، عشق ہمیشہ قرب سے مرتا ہے…… منزل تو منزل ٹھہری، منزل کے سنگِ میل کے قرب کی حدت بھی پگھلا دیتی ہے۔‘‘
کیا بات کَہ دی……!
چاہت لگن اور وارفتگی کی انتہا……!
مقصد منزل نہیں بلکہ حصولِ منزل کی تڑپ میں ڈوبی سچی لگن ہے۔
شاہ جی بذات خود بہت باوقار، خوش بودار اور میٹھے انسان ہیں۔ یہی شیرینی، یہی وارفتگی اور چاہت کی خوش بو اُن کے لفظوں میں بھی در آئی ہے۔ پہاڑ گردی کی محبت و دیوانگی میں ڈوبے الفاظ میں داستانِ عشق کا تذکرہ کرنا انھی کو زیب دیتا ہے۔ وہ اسے بار بار دہرانے کی کوشش کرتے ہیں۔ عشق تو ایک ایسا بحرِ زخار ہے جس کی عمیق گھاٹیوں کا اِحاطہ علم الکلام کے زور پر نہیں کیا جا سکتا۔
شرح عشق ار من بگوئم بر دوام
صد قیامت بگزرد…… واں نا تمام
یعنی اگر میں شرحِ عشق ہمیشہ بیان کرتا رہوں، تو سو بار قیامت گزر جائے اور وہ بیان (شرحِ عشق) مکمل نہیں ہوگا۔ کیوں کہ محبوب لامحدود ہے۔ اس کی صفات لا محدود ہیں۔ پس اس کی شرح کیسے محدود ہو سکتی ہے؟
…………………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے