ہفتہ 18 اگست 2017ء کو ایک نجی ٹی وی سٹیشن (غالباً اے آر وائی) نے شام کے وقت اپنے پروگرام میں دکھایا تھا کہ جب پاکستان کے صدر جنرل ایوب خان امریکہ کے دورے پر گئے تھے، تو نہ صرف امریکی صدر اور اُس کی اہلیہ اور افسران نے ہوائی اڈے پر جاکر بنفس نفیس استقبال کیا بلکہ امریکہ کی تینوں مسلح افواج کے دستوں نے اُن کو زبردست استقبالیہ سلامی بھی دی تھی۔ بیشتر علاقوں کو پاکستان کے بے شمار جھنڈوں اور جھنڈیوں سے سجایا گیا تھا۔ صدر ایوب نے اس موقع پر امریکہ کی قانون ساز مجالس سے مختلف خطاب بھی کئے۔ نٹ رکھنے والے خواتین و حضرات اور نوجوان اس منظر کو تلاش کرکے دیکھ سکتے ہیں۔ اُس زمانے میں ہم ہائی سکول بنڑ مینگورہ میں زیر تعلیم تھے لیکن اُس زمانے میں ٹی وی وغیرہ کی سہولت موجود نہ تھی، اس لیے یہ منظر ہم نے نہیں دیکھا ہے۔ یہ وہ زمانہ تھا، جب پاکستان نے جرمنی کو بارہ کروڑ کا قرضہ دیا تھا (حوالہ: عبداللہ سہیل کا کالم مورخہ چودہ نومبر 2014ء زیر عنوان‘‘، بلاول، غربت، حادثے اور داش‘‘) اُس وقت سونا چالیس یا پچاس روپیہ فی تولہ یا اس سے بھی کم تھا اور امریکی ڈالر غالباً تین یا چار روپیہ کا تھا۔ یہ اُس وقت پاکستانی روپے کی طاقت اور قدر تھی۔
پھر پاکستان پر جھوٹ اور فریب پر مبنی 1965ء کی جنگ نافذ کی گئی۔ اُس سے قبل ایک بالکل نوجوان غیر تجربہ کار لیکن تیز و طرار وڈیرے کو ایوب کابینہ میں شامل کیا گیا اور اُس کی ناتجربہ کاری کے باوجود اُسے وزارت بھی دلوائی گئی۔ وہ ایوب خان کو ’’ڈیڈی‘‘ کہتا تھا۔ 1965ء کی جنگ کے وقت یہ وڈیرہ وزیر خارجہ تھا۔ جس طرح زیادہ تر بڑے وڈیرے، خان اور چوہدری ہر کام کو دل لگی اور مذاق سمجھتے ہیں، اسی طرح مذکورہ وڈیرہ وزیر خارجہ بھی سیاست جیسے اہم اور مقدس کام کو مذاق سمجھ رہا تھا۔ یہ بات مشہور تھی کہ اس نے ایوب خان کو اندھیرے میں رکھا تھا۔
1965ء کی جنگ میں پاکستانی عوام اور افواج نے دشمن کو ایسی شکست دی کہ اُسے جنگ کے عمومی نظریے پر نظرِثانی کرنا پڑی۔ 1965ء کی جنگ کا دشمن نے کافی گہرا مطالعہ کیا اور وہ اس نتیجے پر پہنچا کہ گھاس پھونس کھانے والی قوم اور خونخوار قوم سے کھلے میدان میں مقابلہ نہیں کرسکتی۔ جو اُن کا ’’خدا‘‘ ہے، وہ اس قوم کا من بھاتا کھانا ہے۔ لہٰذا دشمن نے کھلے میدان میں جنگ کی جگہ سازشوں اور تخریب کاریوں کا طریقہ اپنایا۔ اُس نے سفید پوش ایجنٹوں اور اپنے زر خرید غلاموں کو میدان میں اتار دیا۔ پاکستان میں دشمن کے ہم خیال بہت زیادہ تھے اور آج بھی ہیں، اُن سے کام لینا شروع کیا۔ 1965ء کی جنگ کے بعد وطنِ عزیز میں جھوٹ عام کیا گیا بلکہ مشرقی اور مغربی دونوں صوبوں میں بااثر سیاسی افراد نے صرف اور صرف جھوٹ پر مبنی سیاسی ہنگاموں سے کام لیا۔ قوم کے اعلیٰ اقدار تباہ کردیئے گئے۔ عوام کے جوشیلے اور غیر سنجیدہ طبقے سے کام لیا گیا۔ عزت والے لوگوں کو پگڑیاں اُچھالی گئیں۔ جب مردان کے ایک با وقار اور عزت دار نواب زادہ کے گھر میں گدھا ہانکا گیا، تو اس عزت مند نے وزارت یہ کہتے ہوئے چھوڑ دی کہ اب یہ کام ہم نہیں کرسکتے۔ ایوب خان، اس کے ساتھیوں اور اُس وقت کے شرفا کے خلاف ایسی غلیظ باتیں اور الفاظ استعمال ہوتے کہ انسان کو شرم آتی۔ وہ ایوب خان جس نے اس قوم کی صلاحیتوں کو درست طریقے سے استعمال کرکے ملک کو اعلیٰ مقام دیا، اقتدار سے الگ ہوکر خاموشی کے ساتھ اپنے چھوٹے سے گاؤں میں زندگی گزارنے لگا۔ وہ ملک کا طاقتور ترین شخص تھا لیکن ہم نے آج تک اُس پر کرپشن کا کوئی الزام نہیں سنا اور آج ہمیں اپنے لیڈران کی کمزوریوں پر شرم آتی ہے۔ سیاست تو بڑی مقدس خدمت ہے۔
1965ء سے وطن عزیز میں جھوٹ اور فریب کاری کا دور شروع ہوا۔ اعلیٰ اقدار کا خاتمہ ہوگیا۔ نہایت ہی پست ذہنیت کے لوگ وطن عزیز کے مشرقی و مغربی دونوں صوبوں میں گلی گلی کوچہ کوچہ میں کتوں کی طرح بھونکنے لگے۔ ’’جالو جالو آگن، جالو مولانا بھاشانی‘‘ کا نعرہ پورے مشرقی پاکستان میں نہ صرف گونجنے لگا بلکہ اس پر عمل بھی ہونے لگا۔ اس کا ترجمہ ہے: ’’لگادو لگادو، آگ لگادو۔‘‘ پھر مشرقی پاکستان میں ہر غیر بنگالی انسانیت سوز مظالم کا نشانہ بنا۔ بچوں اور خواتین کو بے دردی سے ذبح کیا گیا بلکہ خواتین کو تو چیر کر دو دو ٹکڑے کیا گیا۔ مرے ہوئے انسانوں کو مردہ کتوں کی طرح رسیاں ڈال کر کھینچا گیا اور بڑے بڑے گڑھوں میں مٹی میں دبایا گیا۔ یہ مناظر اس وقت کے بیرونی ممالک کے اخبارات و جرائد میں شائع ہوتے تھے۔ آج بھی نٹ سے اُن کو ڈاؤن لوڈ کیا جاسکتا ہے۔ یہ سب کچھ معاشرے، خصوصاً سیاست میں جھوٹ کے استعمال کی وجہ سے ہوا۔
دوستیاں، دشمنیوں اور احترام، گستاخی میں تبدیل ہوگیا۔ افسوس اس حقیقت پر بہت آتی ہے کہ بعض ’’فرشتوں‘‘ نے شیاطین کے طریقے استعمال کئے۔ ایسی ایسی جھوٹی تحاریر شائع کی گئیں کہ انسان اُن ’’فرشتوں‘‘ سے ڈرنے لگے اور عوام میں یہ بات مشہور ہوگئی کہ یہ سب کچھ اقتدار کی کرسی کے لیے کیا جاتا ہے لیکن مسلمانوں کی تاریخ جھوٹی سیاست کاری سے بھری پڑی ہے۔ جب رحمت العالمین صلی اللہ علیہ و الہ و سلم کے معصوم نواسوں کو اقتدار کی کرسی کی خاطر ذبح کیا گیا، تو ہماری کیا حیثیت ہے؟
زندگی کے ہر شعبے میں رحمانی اور شیطانی دو طریقے کار فرما ہیں۔ سیاست میں بھی یہی ہے۔ آج ہم گوناگوں مسائل سے دوچار ہیں۔ وجہ یہی ہے کہ ہم نے ہر کام میں شیطانی طریقوں کو اپنایا ہے۔ ہم نے رحمان کو چھوڑ دیا ہے لیکن اس نے ہمیں نہیں چھوڑا ہے لیکن شیطانی افعال، اعمال اور اقوال کے جو منفی اثرات ہوتے ہیں، انہوں نے تو ہونا ہوتا ہے۔
ایک بہترین مثال دیکھئے،19 اگست 2017ء کو کراچی میں ڈاکٹر رُتھ فاؤ کی تدفین ہوئی۔ وہ عیسائی خاتون 1960ء میں پاکستان آئی اور اپنی پوری زندگی جذام کے مریضوں کی خدمت کے لیے وقف کی۔ جذام وہ مرض ہے جس میں انسان کی انگلیاں، ہاتھ پاؤں، ناک اور کان جھڑ جاتے ہیں۔ اس عیسائی خاتون کو دیکھئے اور رحمت العالمینﷺ کے امتی ہونے کے دعویداروں اور جنت کے طلب گاروں کو دیکھئے جو مریضوں کی دوائیوں میں، بچوں کی خوراک میں، طلبہ کی کتاب میں اور پتا نہیں کس کس چیز میں ملاوٹ اور دو نمبریاں کرتے ہیں۔ قرآن کریم میں واضح الفاظ میں تحریر ہے کہ قیامت کے روز اللہ تعالیٰ ذرے ذرے کا حساب کرکے جذا اور سزا دے گا۔ پاکستانی قابل لوگ ہیں۔ یہ اپنے دین سے محبت کرنے والے ہیں۔ اپنی محنت اور قابلیت سے یہ اپنے سے سوسال سے زیادہ ایڈوانس لوگوں کے برابر آگئے ہیں۔ اِن شاء اللہ ہمارے امرا (لیڈرز) سچائیوں کو اپنا کر ایک دفعہ پھر اس قوم کو بام عروج تک پہنچادیں گے اور ہمارے علما ان کو صراط مستقیم پر ڈال دیں گے۔ روز قیامت سب سے پہلے ان دو طبقات سے پوچھ ہوگی۔