تسخیرِ کاینات انسان کی فطرت ہے۔ نئی دنیائیں دریافت کرنا،خوب صورت جگہیں اور نظارے تلاش کرنا، فطرت کو قریب سے محسوس کرنا اور اس میں کھو جانا ہر زمانے میں انسان کی اولین خواہش رہی ہے۔ اسی خواہش سے مجبور ہم چند ساتھی وطنِ عزیز کے انتہائی شمال میں واقع اپنے حسن و دلکشی اور رعنائی کے لیے مشہور علاقے گلگت بلتستان کی سیر کے لیے کمر بستہ ہوئے۔ پہلے سے طے شدہ تاریخ 6 جولائی 2021ء کو صبح سویرے ہم 10 ساتھی ایک ہائی ایس (فلائنگ کوچ) کو لے کر روانہ ہوئے۔ خوازہ خیلہ بازار میں کچھ ضروری اشیا خرید کر اپنی پہلی منزل چلاس کے لیے سفر کا باقاعدہ آغاز کیا۔ شام کو چلاس پہنچ گئے۔ وہاں ایک ہوٹل میں رات گزارنے کا فیصلہ ہوا۔
چلاس شمالی علاقہ جات کا ایک اہم شہر ہے، جو سوات کے مرکزی شہر مینگورہ سے تقریباً 280 کلومیٹر کی دوری پر واقع ہے۔ آپ اس شہر کو گلگت بلتستان کا گیٹ وے بھی کَہ سکتے ہیں۔ یہاں سے آپ نگر، استور، سکردو، خنجراب، غذر اور شندور کے لیے باآسانی نکل سکتے ہیں۔ یہاں سے کچھ فاصلے پر جگلوٹ گاؤں آتا ہے جہاں لوگ مرکزی شاہراہ قراقرم چھوڑ کر داہنے ہاتھ مڑتے ہیں اور 172 کلومیٹر فاصلہ طے کرکے سیدھا سکردو پہنچتے ہیں…… لیکن ہمارا روٹ الگ تھا۔ ہم نے براستہ استور اور دیوسائی سکردو جانا تھا اور براستہ جگلوٹ واپس آنا تھا۔ یہ ایک پُرخطر، کٹھن، مشکل اور تھکا دینے والا روٹ تھا لیکن علاقے کی خوب صورتی اور ہمارے شوقِ مہم جوئی نے ہم کو یہ خطرہ مول لینے پر آمادہ کیا۔
7 جولائی کو صبح سویرے ہم چلاس شہر سے روانہ ہوئے اور مین شاہراہ پر مزید 67 کلومیٹر کا فاصلہ طے کرکے استور کے لیے داہنے ہاتھ مڑے۔ استور روڈ کچا ہونے کے ساتھ ساتھ تنگ، پُرخطر اور پُر پیچ تھا۔ قدم قدم پر اندھے اور خطرناک موڑ۔ ایک طرف بلند و بالا اور ہر وقت سلائیڈنگ کے شکار پہاڑ اور دوسری طرف شور مچاتا اور موجیں مارتا دریائے استور۔ خدا خدا کرکے 45 کلومیٹرکا مشکل راستہ طے کرنے کے بعد ہم استور بازار پہنچ گئے۔ وہاں کھانے پینے کی کچھ ضروری چیزیں لیں اور استور کے بلند و بالا اور سرسبز و شاداب وادی ’’راما‘‘ کے لیے روانہ ہوئے۔ یہ علاقہ چوں کہ بہت زیادہ اونچائی پر واقع ہے، اس لیے ہمیں بہت زیادہ پریشانی کا سامنا کرنا پڑا۔ جگہ جگہ گاڑی سے اتر کر پیدل جانا پڑتا۔ البتہ فور بائے فور گاڑی آسانی سے جاسکتی ہے۔
القصہ، تھکے ہارے ظہر کے قریب ہم اس جنت نظیر وادی میں پہنچ گئے۔ نماز پڑھنے، کھانا کھانے اور تھوڑی دیر سستانے کے بعد ’’راما جھیل‘‘ کے لیے ہائیک شروع کی۔ یہ جھیل انتہائی اونچائی پر واقع ہے اور وہاں تک پہنچنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں۔ اکثر سیاح بیچ رستے میں ہی ہمت ہار جاتے ہیں۔ ہمارے لیے بھی جھیل تک پہنچنا جوئے شیر لانے کے مترادف تھا۔ جگہ جگہ گلیشیر اور سیدھے ڈھلوان تھے، خیر جیسے تیسے ہم وہاں پہنچ ہی گئے۔
راما جھیل کا شمار پاکستان کی خوب صورت ترین جھیلوں میں ہوتا ہے۔ یہاں پہنچ کر انسان اپنی ساری تھکاوٹ بھول جاتا ہے اور جھیل کی خوب صورتی میں کھو سا جاتا ہے۔ یہاں سے کسی کا بھی واپس جانے کو جی نہیں کر رہا تھا، پر مجبوراً واپس آنا پڑا۔
جھیل سے اُتر کر سب نے وادیِ راما کی دل کش اور سرسبز وادی میں تھوڑی دیر آرام کیا، چائے پی اور تازہ دم ہوکر واپس استور شہر آگئے۔ شہر میں سرسری طور پر گھومے اور اپنی اگلی منزل ’’چہلم‘‘ کے لیے روانہ ہوئے۔ چہلم گاؤں کو دیو سائی جانے کے لیے بیس کیمپ کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ کیمپنگ اور رات گزارنے کے لیے آئیڈیل جگہ ہے۔ شام 8 بجے ہم وہاں پہنچے۔ انتہا درجے کی ٹھنڈ اور یخ ہواؤں نے ہمارا استقبال کیا۔ ایسا محسوس ہو رہا تھا گویا خون ابھی شریانوں کے اندر جم جائے گا۔ وہاں دریا کے کنارے ٹینٹ لگایا۔ ٹینٹ لگانا بھی جان جھوکوں والا کام تھا۔ تیز اور سرد ہوائیں ہمارے کام میں مزاحم تھیں۔ ہم جیسے نازک طبع تو کمبلوں میں دبک کر بیٹھے تھے، لیکن باقی ساتھیوں کے حوصلے بلند تھے اور پوری جاں فشانی سے یہ کام پایۂ تکمیل تک پہنچایا۔
ہم سب خیمے کے اندر بھاری بھاری کمبلوں میں پوری جسم ڈھانپ کر بیٹھ گئے اور کھانا خیمے کے اندر ہی پکنے لگا۔ چہلم میں رات گزارنے کے بعد علی الصباح دیوسائی کے لیے روانہ ہوئے۔ کچھ ہی دیر میں ہم دیو سائی نیشنل پارک میں داخل ہوگئے۔ دیو سائی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ دنیا کے بلند ترین بڑے میدان پر مشتمل ہے۔ یہ میدان تقریباً تین ہزار مربع کلومیٹر کے رقبے پر مشتمل ہیں۔ یہ سطحِ سمندر سے اندازاً ساڑھے تیرہ ہزار فٹ کی بلندی پر واقع ہیں۔ زیادہ بلندی کی وجہ سے اکثر ساتھیوں کو اکسیجن کی کمی محسوس ہو رہی تھی۔
دیو سائی میدانوں کے آ غاز ہی میں خوب صورتی میں بے مثال ’’شیو سر جھیل‘‘ واقع ہے۔ سر جھیل برف پوش پہاڑوں میں گھری پاکستان کی بڑی جھیلوں میں شمار ہونے والی بے حد خوب صورت جھیل ہے۔
دیوسائی کے میدانوں میں برفانی چیتوں اور بھورے رنگ کے بھیڑیوں کی بھر مار ہے۔ ہرن بھی کثیر تعداد میں پائے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ چھوٹی ٹانگوں اور دُم والی ایک خاص قسم کی گلہری بھی وافر مقدار میں نظر آتی ہے۔
دیوسائی کے نہ ختم ہونے والے میدانوں میں تقریباً 200 قسم کے رنگ برنگے خود رو پھول پائے جاتے ہیں۔ جب یہ پھول پوری طرح کھل جاتے ہیں، تو پورا علاقہ حسن و رعنائی میں جنت کا ٹکڑا بن جاتا ہے۔ چوں کہ یہ میدان سال میں آٹھ ماہ برف سے ڈھکے رہتے ہیں اور انتہائی اونچائی پر واقع ہیں اس لیے یہاں درخت نہیں پائے جاتے، جس کی وجہ سے یہاں پرندے اپنے گھونسلے زمین پر بناتے ہیں۔ مقامی زبان میں دیوسائی کا مطلب ہے ’’دیو کی سرزمین‘‘۔ میرے نزدیک دیوسائی جنت سے کسی بھی طرح کم خوب صورت جگہ نہیں۔ ہر انسان کو زندگی میں کم از کم ایک دفعہ ضرور دیوسائی کی سیر کرنا چاہیے۔ دیوسائی کے وسیع و عریض میدانوں کا اختتام تا حدِ نگاہ سرسبز و شاداب علاقے پر ہوتا ہے، جس کو بڑا پانی اور کالا پانی کہا جاتا ہے۔
دیوسائی سے نکل کر ہم اپنی اگلی منزل سکردو کے قریب ہی تھے کہ ’’سدپارہ جھیل‘‘ تمام تر حسن و دلکشی کے ساتھ دعوتِ نظارہ دے رہی تھی۔ سدپارہ جھیل خوب صورتی میں اپنا ثانی نہیں رکھتی۔ اس کا رقبہ ڈھائی مربع کلومیٹر اور سطح سمندر سے اس کی اونچائی لگ بھگ 8600 فٹ ہے۔ اس جھیل کے بارے میں لوگوں کا خیال ہے کہ اس کے پانی اور اس کے اردگرد کے پہاڑوں میں سونا پایا جاتا ہے۔ چناں چہ آپ کو جگہ جگہ ایسے ڈھیر سارے لوگ نظر آئیں گے جو ریت اور پانی چھاننے میں مصروف رہتے ہیں۔ اس جھیل کو اب ڈیم میں تبدیل کیا جا رہا ہے۔
وہاں سے نکل کر ہم سکردو شہر پہنچے۔ گاڑی ایک طرف پارک کرکے شہر کی سیر کو نکلے۔ کچھ کھایا پیا اور ضروری سودا سلف لے کر رات گزارنے کے لیے اپنی اگلی منزل ’’کچورہ جھیل‘‘ کی راہ لی۔ یہ جھیل شہر سے باہر گلگت روڈ پر واقع ہے، لیکن سڑک پکی ہونے کی وجہ سے وہاں باآسانی پہنچا جاسکتا ہے۔ راستے میں مشہور و معروف ’’شنگریلا ہوٹل‘‘ ہے جس کے بیچوں بیچ ایک بہت بڑی اور خوب صورت مصنوعی جھیل بھی ہے جس کو ’’لوئر کچورہ جھیل‘‘ کہتے ہیں۔ ہم نے دور ہی سے اس جھیل کا نظارہ کیا۔ کیوں کہ ہمیں آگے جانا تھا۔ کچھ ہی فاصلہ طے کیا تھا کہ معلوم ہوا رابطہ پل خراب ہے اور بمشکل صرف پیدل ہی جایا جاسکتا ہے۔ چناں چہ گاڑی ایک سرکاری سکول میں پارک کرکے ضروری سامان لیا اور کچورہ جھیل کے لیے روانہ ہوئے۔ وہاں پہنچے، تو سورج ڈھل چکا تھا۔ شام کا اندھیرا چھا رہا تھا۔ ہوا میں ایک خوش گوار سی خنکی تھی اور اس نیم روشن ماحول میں جھیل کا حسن دوبالا تھا۔ جھیل سے کچھ فاصلے پر کئی ہوٹل ہیں لیکن ہم نے جھیل کنارے رات گزارنی تھی اور وہ بھی ٹینٹ میں۔ ایک ہوٹل والوں نے ہماری یہ خواہش بھی پوری کی اور کھانے کا بندوبست بھی کیا۔
کچورہ جھیل شمالی علاقوں میں واقع خوب صورت جھیلوں میں سے ایک ہے۔ اس کے چاروں طرف برف پوش پہاڑ اور ہرے بھرے اونچے درخت ہیں۔ جھیل کا نظارہ خیمے کے اندر سے بھی کیا جاسکتا تھا، لیکن اس کے حسن نے ہم پر ایسا جادو طاری کیا تھا کہ ہم رات کے آخری پہر تک جھیل کے کنارے گھومتے رہے اور لطف اندوز ہوتے رہے۔ کچھ دوستوں نے مچھلیاں پکڑنے کی ناکام کوشش بھی کی۔ رات کے آخری حصے میں کچھ دیر آرام کی غرض سے سوگئے۔ صبح سویرے اُٹھ کر جھیل کے پانی میں تازہ دم ہوئے۔ ناشتہ کیا۔جھیل کی خوب صورتی کو کیمرے کی آنکھ سے محفوظ کیا اور نہ چاہتے ہوئے بوجھل قدموں کے ساتھ واپس روانہ ہوئے۔
ہمارا پڑاؤ 250 کلومیٹر دور واپس چلاس شہر تھا۔ اس سفر میں 172 کلومیٹر سکردو تا قراقرم ہائی وے انتہائی خراب اور کچی روڈ بھی شامل تھی (یہ روڈ اب پختہ ہوچکی ہے) راستے میں جگہ جگہ تھوڑی دیر کے لیے وقفہ کیا اور رات کو چلاس شہر پہنچ کر اُسی ہوٹل میں قیام کیا جہاں ہم نے پہلی رات گزاری تھی۔ وہاں سے صبح سویرے گھر کی راہ لی۔ دوپہر کو شانگلہ ٹاپ پر کھانا کھایا۔ کچھ دیر آرام کیا اور شام کو واپس بخیریت گھر پہنچ گئے ۔
بقولِ شاعر:
وہ راستہ ہو محبت کا یا سیاحت کا
تھکانے والا سفر واپسی کا ہوتا ہے
…………………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔