دست و دل (افسانہ)

ترجمہ : رومانیہ نور (ملتان)
ڈینور (Denver) ریلوے سٹیشن پر مشرقی سمت جانے والی بی اینڈ ایم ایکسپریس کوچز پر مسافروں کا جم غفیر تھا۔ ایک کوچ میں ایک انتہائی حسین دوشیزہ نے آکر نشست سنبھالی۔ اس کا لباس اس کے اعلا و نفیس ذوق کا مظہر تھا۔ پُر تعیش سفری آسائشات سے لدی پھندی وہ ایک تجربہ کار مسافر معلوم ہوتی تھی۔ نئے آنے والے مسافروں میں دو نوجوان آدمی تھے۔ ایک چہرے مہرے اور رکھ رکھاؤ سے وجیہہ شخص دکھائی دیتا تھا…… جب کہ دوسرے کا حلیہ ابتر اور چہرہ بے کیف تھا۔ اس کا جسم گٹھیلا اور لباس عامیانہ تھا۔ دونوں ایک دوسرے کے ساتھ ہتھکڑی میں بندھے ہوئے تھے۔
جب وہ کوچ کی راہداری میں سے گزر رہے تھے، تو انہیں صرف وہی خالی نشست ملی جو اس پُرکشش حسینہ کے مقابل تھی۔ ایک دوسرے سے منسلک جوڑا یہاں بیٹھ گیا۔ دوشیزہ نے ان پر غیر دلچسپی سے اک اچٹتی سی نگاہ ڈالی۔ تبھی اک میٹھی مسکان نے اس کے چہرے کو اُجال دیا۔ اس کے گول گول گالوں پر ملایمت اور سرخی گھل گئی۔ اس نے سرمئی دستانے میں ملفوف اپنا ننھا ہاتھ مصافحہ کے لیے بڑھایا۔ جب وہ بولی، تو اس کی آواز قصداً حلاوت سے معمور تھی…… اور اس بات کا اعلان تھی کہ آواز کی مالکہ اس بات کی عادی ہے کہ وہ بولے تو اسے لازماً سنا جائے۔
’’ٹھیک ہے، مسٹر ایسٹن (Easton)، اگر آپ مجھے پہلے بولنے پر مجبور کریں گے، تو میرا خیال ہے کہ مجھے ضرور بولنا چاہیے۔ آپ کبھی پرانے دوستوں کو نہیں پہچانتے جب آپ ان سے مغرب میں ملتے ہیں؟‘‘
اس کی آواز سن کر نسبتاً کم عمر نوجوان فوری متوجہ ہوگیا۔ ایسا محسوس ہوتا تھا کہ وہ اچانک در آنے والی الجھن کو چھپانے کی کوشش کر رہا ہے۔ اس نے اپنے بائیں ہاتھ کو اس کی انگلیوں سے ملایا۔ ’’تم مس فیئر چائلڈ(Fairchild) ہو!‘‘ اس نے مسکراتے ہوئے کہا۔’’دوسرے ہاتھ کے لیے معافی کا خواست گار ہوں…… یہ فی الحال مصروف ہے۔‘‘
اس نے اپنے دائیں ہاتھ کو ہلکا سا اوپر اٹھایا جو اس کے ساتھی کے بائیں ہاتھ کے ساتھ اِک چمک دار کڑے سے بندھا ہوا تھا۔ لڑکی کی آنکھوں میں خوش گوار تاثر کی بجائے حیران کن خوف نے جگہ لے لی۔ اس کے گالوں کا رنگ اُڑ گیا۔ حیرت و اضطراب سے اس کے ہونٹ مبہم انداز میں وا ہوگئے۔ ایسٹن گویا اس صورتِ حال سے محظوظ ہوکر اک ہلکے سے قہقہے کے ساتھ کچھ کہنے ہی والا تھا کہ دوسرے سپاٹ چہرہ شخص نے اسے باز رکھا جو اپنی زیرک نگاہوں سے اس لڑکی کے چہرے کی سرسری جھلک دیکھ رہا تھا۔
’’محترمہ! مداخلت پر مجھے درگزر کیجیے…… لیکن مجھے لگتا ہے کہ آپ مارشل کی واقف کار ہیں۔ اگر آپ ان سے جیل پہنچ کر میرے لیے کچھ شفیق الفاظ بولنے کا کہہ دیں، تو وہ ایسا کریں گے…… اور میرے لیے معاملات آسان ہو جائیں گے۔ مجھے جعل سازی کے جرم میں سات سال کی قید ہوئی ہے اور یہ مجھے لیون ورتھ (Leavenworth) جیل میں لے جا رہے ہیں۔‘‘
’’اوہ……!‘‘ لڑکی نے گہری سانس خارج کی۔ اس کے چہرے کے تمام رنگ لوٹ آئے۔ ’’اچھا تو آج کل تم یہاں یہ کچھ کر رہے ہو؟ مارشل بن گئے ہو۔‘‘
’’میری پیاری مس فیئر چائلڈ!‘‘ ایسٹن نے سکون سے کہا۔ ’’مجھے کچھ نہ کچھ تو کرنا ہی تھا۔ پیسا تو پر لگا کر اڑ جاتا ہے…… اور واشنگٹن کی بھیڑ میں قدم سے قدم ملا کر چلنے کے لیے پیسا چاہیے۔ مَیں نے مغرب میں ترقی کے اس راستے کو اپنے لیے کھلا پایا اوربہرحال…… سپاہی گری، سفارت کاری کے ہم پلہ تو نہیں ، مگر……!‘‘
’’سفیر……!‘‘ لڑکی نے گرمجوشی سے کہا، ’’مزید کچھ نہیں کہنا۔ اسے کبھی ایسا کرنے کی ضرورت نہیں۔ تمہیں یہ بات معلوم ہونا چاہیے…… اور اب تم مغربی ہیروز میں سے ایک دبنگ افسر ہو جو گھڑ سواری کرتا ہے، بندوق چلاتا ہے اور ہر قسم کے خطرات سے کھیلتا ہے۔ یہ واشنگٹن کی زندگی سے مختلف ہے۔ اب پرانی بھیڑ سے تمہاری جان چھوٹ گئی ہے۔‘‘
لڑکی کی مسحور آنکھیں تھوڑی سی پھیل کر پھر چمک دار کڑوں پر آن ٹھہریں۔’’محترمہ! آپ ان کے متعلق پریشان نہ ہوں۔‘‘ دوسرا شخص گویا ہوا۔ ’’فرار کے خدشے سے بچنے کی خاطر تمام مارشل مجرم کے ساتھ اپنے ہاتھ کو ہتھکڑی لگاتے ہیں۔ جناب ایسٹن اپنا کام بخوبی جانتے ہیں۔‘‘
’’کیا ہم جلد ہی واشنگٹن میں مل سکتے ہیں؟‘‘ لڑکی نے استفسار کیا۔
’’میرے خیال میں اتنی جلدی نہیں، مجھے لگتا ہے کہ میری آزادی کے دن جا چکے ہیں۔ مجھے اسی بات کا ڈر ہے۔‘‘
’’مجھے مغرب سے محبت ہے۔‘‘ لڑکی نے بے محل بات کی۔ اس کی آنکھوں میں چمک اور نرماہٹ کا عکس تھا۔ اس نے کھڑکی سے باہر دیکھا۔ وہ سادگی اور سچائی سے باتیں کرنے لگی۔ ان پر ناز و ادا کا ملمع نہیں تھا۔ ’’امی اور میں نے چھٹیاں ڈینور میں گزاریں۔ ایک ہفتہ قبل وہ گھر چلی گئیں…… کیوں کہ والد معمولی سے بیمار ہیں۔ مَیں صرف مغرب میں ہی خوش رہ سکتی ہوں۔ میرا خیال ہے کہ مجھے یہاں کی آب و ہوا راس ہے۔ پیسا ہی سب کچھ نہیں ہوتا…… لیکن لوگ چیزوں کے بارے میں ہمیشہ غلط فہمی کا شکار اور احمق ہی رہتے ہیں۔‘‘
’’سنیے محترم مارشل!‘‘ خستہ حال شخص غصے سے بڑبڑایا۔ ’’یہ بات اچھی نہیں، مجھے ایک مشروب کی ضرورت ہے اور مَیں نے سارا دن کوئی سگریٹ نہیں پیا۔ کیا آپ کی بات چیت بہت ہی طویل نہیں ہوگئی؟ مجھے اب سگریٹ نوشی کے کمرے میں لے جائیے، کیا آپ نہیں لے جائیں گے؟ مَیں سگریٹ کی طلب میں نیم مردہ ہو گیا ہوں۔‘‘
بندھے ہوئے مسافر اپنے قدموں پر کھڑے ہوگئے۔ ایسٹن کے چہرے پر معمول کی وہی دھیمی مسکراہٹ تھی۔
’’مَیں سگریٹ کی درخواست سے انکار نہیں کرسکتا۔ ’’اس نے نرمی سے کہا: ’’نشہ ہی تو ایک بد قسمت کا اچھا دوست ہوتا ہے۔ خدا حافظ مس فیئر چائلڈ! فرض مجھے پکار رہا ہے۔ تم تو یہ بات اچھی طرح جانتی ہو۔‘‘ اس نے الوداع کے لیے ہاتھ لہرایا۔
’’یہ بہت بری بات ہے کہ تم مشرق میں نہیں جا رہے۔‘‘ وہ اپنے لباس کو درست کرتے ہوئے ناز و انداز بھرے لہجے میں بولی…… ’’لیکن تمہیں تو لیون ورتھ جانا پڑ رہا ہے۔ میرا یہی اندازہ ہے؟‘‘
’’ہاں……!‘‘ ایسٹن نے جواب دیا۔ ’’مجھے تو لیون ورتھ جانا ہی پڑے گا۔‘‘
دونوں افراد محتاط انداز سے راہداری میں چلتے ہوئے سگریٹ نوشی کے کمرے کی جانب بڑھ گئے۔ قریبی نشست پر بیٹھے دو مسافر ان کی زیادہ تر گفتگو سن رہے تھے۔ ان میں سے ایک بولا: ’’وہ مارشل ایک اچھا انسان ہے۔ ان مغربی لوگوں میں کچھ افراد بالکل ٹھیک ٹھاک ہیں۔‘‘
’’مارشل کے عہدے کا حامل کچھ زیادہ ہی کم عمر ہے۔ کیا ایسا نہیں؟‘‘ دوسرے شخص نے پوچھا۔
’’کم عمر!‘‘ پہلے شخص نے حیرت کا اظہار کیا۔ ’’کیوں……اوہ! کیا تم سمجھے نہیں؟ بولو…… کیا تمہارے علم میں کبھی یہ بات آئی ہے کہ افسر کسی قیدی کے ساتھ اپنے دائیں ہاتھ کو ہتھکڑی لگوائے؟‘‘
(’’او ہنری (امریکہ)‘‘ کے افسانہ ’’دست و دل‘‘ کا ترجمہ، بہ شکریہ ’’عالمی ادب کے اُردو تراجم (فیس بُک صفحہ)‘‘

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے