رمضان المبارک ہمیں پیار، محبت، خلوص اور احساس کا درس دیتا ہے…… اور بطورِ مسلمان ہمیں اس کا بہترین نمونہ بن کر سامنے آنا چاہیے۔
ہم روزہ رکھ کر بھی ایک دوسرے کے خلاف صف آرا ہیں۔ خواہ مخواہ کی دشمنی میں ایک دوسرے کی جان کے درپے ہیں۔ سیاست ملک کے لیے کرنی ہوتی ہے…… نہ کہ اپنے ذاتی مفادات کے لیے اور یہ تب ہوسکے گا جب ہم ایک دوسرے کا احساس کرنا سیکھیں گے۔
برسبیلِ تذکرہ، فلسطین کے ایک سکول میں استانی نے بچوں سے کلاس ٹیسٹ میں پہلی پوزیشن حاصل کرنے والے کو انعام دینے کا وعدہ کیا کہ جو بھی فرسٹ آئے گا…… اس کو نئے جوتے ملیں گے۔ ٹیسٹ ہوا، تو سب نے یکساں نمبر حاصل کیے۔ اب ایک ایک جوڑا سب بچوں کو دینا ناممکن تھا…… اس لیے استانی نے کہا کہ ہم قرعہ اندازی کرتے ہیں…… جس کا بھی نام نکل آیا…… اس کو یہ نئے جوتے دیں گے۔ قرعہ اندازی کے لیے سب کو کاغذ پر اپنا نام لکھنے اور ڈبے میں ڈالنے کا کہا۔ استانی نے ڈبے میں موجود کاغذ کے ٹکڑوں کو مکس کیا، تاکہ کسی کی حق تلفی نہ ہو۔ پھر سب کے سامنے ایک چٹ اٹھائی جس پر نام لکھا تھا ’’وفا عبد الکریم۔‘‘ سب نے تالیاں بجائیں۔ وہ بچی اشک بار آنکھوں سے اٹھی اور اپنا انعام وصول کیا۔ کیوں کہ وہ پرانے کپڑوں اور جوتوں سے تنگ آگئی تھی۔ والد کا سایہ سر سے اٹھ گیا تھا اور ماں لاچار تھی۔ اس لیے جوتوں کا یہ انعام اس کے لیے بہت معنی رکھتا تھا۔ جب استانی گھر گئی، تو روتی ہوئی یہ کہانی اپنے شوہر کو سنائی جس پر اس کے شوہر نے خوشی کا اظہار کیا اور ساتھ رونے کی وجہ دریافت کی۔ استانی نے کہا کہ مجھے رونا وفا عبد الکریم کے جوتوں سے زیادہ دیگر بچوں کے احساسِ مروت اور اپنی بے حسی پر آتا ہے۔ جب مَیں نے ڈبے میں موجود دیگر کاغذ کے ٹکڑوں کو چیک کیا، تو سب نے ایک ہی نام لکھا تھا، وفا عبد الکریم۔ ان معصوم بچوں کو وفا عبد الکریم کے چہرے پر موجود لاچاری کا درد اور کرب محسوس ہوگیا لیکن مجھے نہیں۔
قارئین! آج یہ ہی کچھ صورتِ حال ہمارے ساتھ بھی جاری ہے۔ ہمیں اپنے ارد گرد والوں کا احساس کب ہوگا؟ خیر سے ایک احساس کی خبر تو آگئی کہ چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ نے پنجاب بھر میں ججز سمیت عدالتی عملہ کو پرائیویٹ گاڑیوں پر سبز نمبر پلیٹ، ریوالونگ لائٹس اور ہوٹر لگانے پر پابندی عاید کر دی۔
دراصل ڈائریکٹر جنرل جوڈیشری مسعود ارشد کی طرف سے جاری ہونے والے مراسلہ میں پنجاب بھر کے ڈسٹرکٹ سیشن ججز، اینٹی کرپشن کورٹس، انسدادِ دہشت گردی کورٹس، بنکنگ کورٹس، ڈرگ کورٹس، ضلعی کنزیومر کورٹس، لیبر کورٹس، سپیشل کورٹس سمیت دیگر عدالتوں کے سربراہان کو کہا گیا ہے کہ مشاہدہ میں آیا ہے کہ بعض اضلاع میں عدالتی عملہ نے اپنی پرائیویٹ گاڑیوں پر سبز نمبر پلیٹس لگا رکھی ہیں…… اور بعض افسران کی طرف سے اجازت کے بغیر پرائیویٹ گاڑیوں پر نیلی ریوالونگ لائٹس اور ہوٹر نصب کررکھے ہیں…… جو کہ خلافِ قانون ہیں۔ صرف حکومت کی ملکیت سرکاری گاڑیوں پر سبز نمبر پلیٹس اور سرکاری افسران، ضلعی سربراہان کے یساتھ ساتھ پرائس کنٹرول مجسٹریٹ جن کو سرکاری ڈیوٹی کے لیے مامور کیا ہے…… وہ اپنی گاڑی میں نیلی ریوالونگ لائٹس لگا سکتے ہیں اور جن سرکاری افسران اور عدالتی عملہ نے اپنی پرائیویٹ گاڑیوں پر نیلی ریوالونگ لائٹس، سبز نمبر پلیٹس اور ہوٹر لگا رکھے ہیں…… وہ فوری طور پر ختم کردیں۔
قارئین! مَیں سمجھتا ہوں کہ یہ ایک اچھا فیصلہ ہے۔ کیوں کہ سب رنگ کی نمبر پلیٹ والی گاڑی اور اس کے اوپر لگی نیلے رنگ کی بتی عام لوگوں میں احساسِ محرومی پیدا کرتی ہے۔
اس کے ساتھ آرمی چیف نے بھی کچھ لوگوں کی بے چینی کو ختم کردیا۔ ’’فارمیشن کمانڈرز کانفرنس‘‘ سے خطاب کرتے ہوئے جنرل باجوہ نے واضح کہا کہ پاک فوج کوئی سمجھوتا کیے بغیر ریاستی اداروں کے ساتھ ہمیشہ سے کھڑی ہے اور آیندہ بھی آئین اور قانون پر عمل پیرا رہے گی…… چاہے جو کچھ بھی ہوجائے…… فوج قومی سلامتی پرکبھی ’’کمپرو مائز‘‘ نہیں کرے گی۔ پاک فوج اپنی ذمہ داریوں سے آگاہ ہے۔ پاک فوج ہر طرح کے حالات میں تمام اندرونی و بیرونی خطرات میں پاکستان کا دفاع کرے گی۔
اس طرح پاکستان میں موجودہ سیاسی صورتِ حال پر تحریکِ لبیک پاکستان کے سربراہ اور جوشیلے رہنما حافظ سعد حسین رضوی نے پی ڈی ایم حکومت پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ آئین سے روگردانی برداشت نہیں کی جاسکتی۔ اعلا عدلیہ نے آئین کی حفاظت یقینی بنائی جب کہ آئین کو پسِ پشت ڈالنے کا بیانہ غیر جمہوری قوتوں کا ہوتا ہے۔ پی ڈی ایم جیسے غیر فطری اتحاد کی پاکستان کو کوئی ضرورت نہیں۔
قارئین! میرا ذاتی خیال ہے کہ یہ حکومتی اتحاد بھی علامتی ثابت ہوگا۔ ہم ہر محاذ پر کرپٹ، چوروں، ڈاکوؤں، دین دشمن اور نااہل حکم رانوں کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہیں۔
پی ٹی آئی کے رہنما فرخ حبیب اور قایدِ حزبِ اختلاف سندھ حلیم عادل شیخ کا کہنا ہے کہ نیب کو ختم کرنے کا مطلب چوری اور کرپشن کو سرِعام جایز قرار دینا ہے۔ اگر مقصود چپڑاسی کے نام کرپشن کرنے والا کرایم منسٹر شریف بن سکتا ہے، تو باقیوں کا کیا قصور ہے؟ اب اسمبلیاں اور حکومتیں غلامی کا سسٹم بن چکی ہیں۔ ایک امپورٹڈ حکومت ہم پر مسلط کی گئی ہے۔ چند بھکاریوں کو ڈالر دے کر پاکستان پر مسلط کیا گیا ہے۔ عمران خان ابھی باہر نہیں نکلے…… مگر کروڑوں لوگ خود سڑکوں پر پوری دنیا میں نکل آئے ہیں۔ یہ جنگ غلامی سے نجات کی جنگ ہے۔
یہ تو تھی کچھ سیاسی اور غیر سیاسی باتیں، اصل میں بات وہی ہے کہ ہم سب کو ایک دوسرے کا احساس کرنا چاہیے۔ کیوں کہ یہ جو احساس کے رشتے ہوتے ہیں، بہت ہی خوب صورت اور پائیدار ہوتے ہیں۔ اسی میں ملک کا فایدہ ہے اور ہم ایک قوم بھی بن جائیں گے۔
……………………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔