میرا داغستان (تبصرہ)

تحریر: راجا قاسم محمود 
’’رسول حمزہ توف‘‘ آوار زبان کے شاعر تھے۔ وہ داغستان کے گاؤں سدا سے تعلق رکھتے تھے ۔ ’’میرا داغستان‘‘ ان کی پہلی نثر کی کتاب ہے جو پہلے آوار زبان میں لکھی گئی پھر اس کا روسی زبان میں ترجمہ ہوا۔ اُردو میں اس کا ترجمہ اجمل اجملی نے کیا ہے۔ بک کارنر جہلم نے اس کو عمدہ انداز میں شایع کیا ہے۔ اس کے کل صفحات 408 ہیں۔
کتاب کے آغاز اُردو کے نامور ادیب مستنصر حسین تارڑ کی تحریر سے ہے…… جس میں رسول حمزہ توف کی شخصیت اور ان کی شاعری کے حوالے سے بہت عمدہ تعارفی گفتگو کی گئی ہے۔ تارڑ صاحب کو یہ کتاب اس قدر پسند ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ یہ کتاب مجھے تقریباً زبانی یاد ہے۔
رسول حمزہ توف پاکستان بھی آئے اور تارڑ صاحب نے اپنی ان سے ملاقات کا حال بھی بیان کیا ہے جو کافی دلچسپ اور پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے۔
رسول حمزہ توف کے والد ’’حمزہ سداسا‘‘ بھی ایک معروف شاعر تھے۔ رسول کا رجحان کیمونزم کی طرف تھا جب کہ حمزہ کٹر مسلمان تھے۔
رسول حمزہ توف نے کیمونسٹ پارٹی کے زیرِ اثر ’’امام شامل‘‘ جو کہ پورے وسطی ایشیا کے ہیرو ہیں…… کے خلاف ایک نظم لکھی، وہ کیمونسٹ پارٹی کے اس پروپیگنڈے کا حصہ بن گئے کہ امام شامل انگریزوں کے ایجنٹ تھے۔ جب رسول نے یہ نظم لکھی، تو ان کے والد حمزہ نے اپنے بیٹے کو کہا کہ امام شامل کے بارے میں تم نے لکھ کر اچھا نہیں کیا۔ اس کے کچھ عرصے بعد رسول حمزہ کو اپنی غلطی کا احساس ہوا۔ انہوں نے نظم کی صورت میں معذرت نامہ لکھا…… جس میں امام شامل کو خراجِ تحسین پیش کیا گیا۔
رسول حمزہ کے بارے میں ایک تعارفی تحریر سلمان خالد صاحب کی بھی ہے جس میں بتایا ہے کہ فیض احمد فیضؔ نے رسول کی نظموں کا اُردو ترجمہ کر کے اپنی کتاب ’’سر وادیِ سینا‘‘ میں کیا ہے۔ اس کے بعد اس کتاب کو آوار زبان سے روسی زبان میں ترجمہ کرنے والے ’’ولادیمیر سولواوخین‘‘ کا ابتدائیہ ہے۔ انہوں نے اس کتاب کو سوانح حیات جیسی قرار دیا ہے۔ یہ کسی حد تک سوانح حیات بھی ہے…… مگر اس کتاب کی ادبی صنف کا تعین مشکل ہے۔ کیوں کہ یہ مکمل طور پر سوانح حیات بھی نہیں۔ یہ کتاب گفتگو جیسی لگتی ہے جس میں کئی جگہ بے ربطی بھی پائی جاتی ہے۔ اس میں حکایات بھی ہیں اور تجربات بھی۔ یہ اعلا پایہ کی نثری تصنیف بھی ہے…… جس میں اشعار کا بھی سہارا لیا گیا ہے۔ لہٰذا اس کتاب کو کسی خاص ادبی صنف میں نہیں گنا جاسکتا۔ اس کتاب کا بنیادی حسن ہی موضوع کی بے ربطی ہے۔ اس بارے میں خود مصنف نے کتاب کے اندر لکھا ہے: ’’نقاد اس کتاب کے ناول یا داستان ہونے پر بحث کریں گے…… مگر حقیقت کوئی بھی نہیں بتاسکتا کہ یہ کیا ہے؟‘‘
توف نے آگے لکھا ہے کہ وہ قواعد و ضوابط کی پابندی کے بغیر اپنے دل کی ہدایت پر لکھ رہے ہیں۔ کتاب پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ رسول حمزہ توف کی بات بالکل درست ہے، واقعی یہ کتاب دل سے لکھی گئی ہے اور قواعد و ضوابط کی قید سے آزاد ہے۔
اس کے بعد پُراثر جملے اور سبق آموز کہانیوں کے ساتھ ایک چیز جو سب سے زیادہ محسوس ہوتی ہے، وہ اپنی مٹی سے محبت ہے۔ رسول حمزہ توف داغستان کی محبت میں ہر جگہ اسیر نظر آتے ہیں اور اپنی مادری زبان آوار سے بھی محبت کا ہمیں جا بجا پتا چلتا ہے۔ ماں بولی سے یہ محبت ہمیں بھی کافی کچھ سوچنے پر مجبور کرتی ہے۔ کیوں کہ ماں بولی کے ساتھ ہمارا سلوک کافی افسوسناک ہے ۔
رسول حمزہ لکھتے ہیں کہ ’’بچہ دو سال میں بولنا سیکھ جاتا ہے اور انسان 60 سال بعد جا کر کہیں جان پاتا ہے کہ زبان کیسے بند رکھی جائے!‘‘
اکثر جھگڑوں کی وجوہات میں زبان کا کردار کلیدی ہوتا ہے…… اور اگر یہ موقع پر خاموش رہے، تو بہت سے جھگڑے اس وقت ہی ختم ہو جاتے ہیں۔
توف کہتے ہیں کہ قدرت نے انسان کو ایک زبان کے ساتھ دو آنکھیں اور دو کان اس لیے دیے ہیں کہ وہ زبان کے استعمال سے پہلے آنکھوں سے دیکھ بھال اور کانوں سے سب سن لے۔
اس سے پہلے توف نے ایسے لوگوں کا ذکر کیا ہے جو اس وجہ سے منھ نہیں کھولتے کہ ان کے ذہن میں خیالات آ رہے ہوتے ہیں…… بلکہ اس لیے کہ ان کی زبان کھجلا رہی ہوتی ہے۔
یہ بہت دلچسپ بات ہے، اس میں بھی زبان کی احتیاط کو ایک اور انداز سے بیان کیا گیا ہے۔
توف لکھتے ہیں کہ جسے مہمان دیکھ کر خوشی نہ ہو…… وہ اس قابل ہے کہ اس کی ہڈی پسلی ایک کر دی جائے۔
ایک اور جگہ کہتے ہیں کہ ہمارے پہاڑی علاقوں میں مہمانوں کے درمیان تفریق نہیں برتی جاتی۔ مہمان صرف مہمان ہوتا ہے، نہ اہم نہ غیر اہم، نہ برتر نہ کم تر۔
مہمانوں کے حوالے سے رسول حمزہ توف کے یہ خیالات قابلِ تحسین بھی ہیں اور اپنے علاقے کی خوشنما ترجمانی بھی۔ بالخصوص مہمانوں کی اہم و غیر اہم کی تفریق کی نفی بہت دلچسپ ہے۔ ہمارے ہاں مہمانوں کے مابین تفریق عموماً ہر جگہ پائی جاتی ہے اور اس میں بھی مادہ پرستی کا عمل دخل زیادہ ہوتا ہے۔ توف کے یہ خیالات جہاں ایک طرف داغستان کی خوب صورت روایت کو بیان کر رہے ہیں، وہاں توف مادہ پرستی پر بھی ضرب لگا رہے ہیں۔
توف کہتے ہیں کہ یہ پہاڑوں میں مہمان اچانک آتے ہیں…… لیکن وہ غیر متوقع نہیں ہوتے۔
توف کہتے ہیں کہ اس کتاب کا تصور بھی ان کے ذہن میں ایسے آیا جیسے کہ پہاڑی علاقوں میں مہمان آتے ہیں۔
توف کہتے ہیں کہ مصنف کو اپنی وہ کتاب سب سے اچھی اور اہم لگتی ہے جو اس نے ابھی لکھنی ہو، یہ بات بطورِ قاری خود بھی محسوس کی کہ وہ کتاب زیادہ اہم لگتی ہے جو پڑھی نہ ہو۔
توف نے لکھا ہے کہ اپنے خیالات چھپا کر نہ رکھو۔ اگر تم نے ایسا کیا تو بھول جاؤ گے کہ تم نے انہیں کہاں رکھا ہے؟ بالکل کنجوس کی طرح جو اپنا خزانہ کہیں دفن کر دیتا ہے۔ توف کی یہ بات بھی بہت اہم ہے۔ کیوں کہ اکثر اوقات ہمارے ذہن میں خیالات آتے ہیں، تو ہم ان کو محفوظ نہیں کرتے۔ پھر کچھ دیر بعد ہمارے ذہن سے محو ہو جاتے ہیں۔ اگر ان کو محفوظ کر دیا جائے، تو اس سے بچا جا سکتا ہے ۔ کئی بار ہمارے ذہن میں بہت سے خیالات جنم لیتے ہیں مگر ہم اس خیال سے کہ کبھی ان کو پھر بیان کریں گے، ان پر غور نہیں کرتے۔ اگر ان کو بیان کر دیا جائے، تو وہ محفوظ ہو جاتے ہیں اور بھی لوگ اس سے فایدہ اٹھا سکتے ہیں۔
توف اپنے کلکتہ کے ایک سفر کا حال بیان کرتے ہیں جہاں ان کی رابندر ناتھ ٹیگور سے ملاقات ہوئی۔ وہاں ان کو ایک پرندے کی تصویر نظر آئی…… جس کا کبھی وجود نہ تھا۔ وہ ٹیگور کے قوتِ تخیل کا کرشمہ تھا۔ اس چیز نے ٹیگور کو ادب کی دنیا میں بڑا مقام دلایا۔ کیوں کہ وہ خود ایک مدرسۂ فکر کی حیثیت رکھتا تھا۔ کیوں کہ اس پرندے کا وجود ٹیگور کے ذہن میں تھا۔ ٹیگور کا بھائی بھی ادیب تھا…… مگر ٹیگور کو جس چیز نے ممتاز کیا، وہ ان کا تخیل کا یہ پرندہ تھا جس کی پرواز سے فقط ٹیگور واقف تھا۔
کسی بھی میدان میں غیر معمولی مقام ان لوگوں کو ملتا ہے جو نئی جہت سے متعارف کراتے ہیں۔ جو روایت سے ہٹ کر مسایل کا حل ڈھونڈنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایسی ہی کاوش اجتہادی بصیرت کہلاتی ہے۔ ایسے لوگوں کی تقلید کی جاتی ہے۔ یہ لوگ تعداد میں کم ہوتے ہیں مگر ان کا وجود ترقی کے لیے لازم ہوتا ہے۔
وہ فنکار جو صلاحیت سے عاری ہوتے ہیں اور اپنی تخیل کی مفلسی کو لفاظیت کی ملمع سازی میں چھپانے کی کوشش کرتے ہیں، ایسے لوگوں کی مثال توف نے لکڑی کے اس خنجر سے دی ہے جس سے چوزہ بھی حلال نہیں ہوتا۔ اس سے زیادہ سے زیادہ پانی کی دھار کاٹی جا سکتی ہے…… یا ایک اور مثال یہ دی کہ جیسے گڈے اور گڈی کی شادی سے بچوں کی پیدایش کا سلسلہ شروع نہیں ہوتا، ایسے ہی اس لفاظیت سے آپ کی تخیلاتی مفلسی کا مداوا نہیں ہو سکتا۔
رسول حمزہ توف لکھتے ہیں کہ اکثر و بیشتر خوب صورت عورتیں ذہانت سے محروم ہوتی ہیں اور ذہین عورتیں حسن سے…… مگر چند ایسی خوش نصیب بھی ہوتی ہیں جن کے پاس دونوں چیزیں ہوتی ہیں۔ یہی بات ان کتابوں پر صادق آتی ہے جن کے لکھنے والے حقیقی معنوں میں باصلاحیت ہوں۔ چوں کہ یہ مقدار بھی قلیل ہوتی ہے، ایسے ہی وہ لوگ اور مصنفین کم ہوتے ہیں جو نئی راہیں کھول کر سامنے لائیں، زیادہ تر پہلے والوں کی پیروی کرتے ہیں۔
توف نے ایک اور جگہ بہت خوب صورت بات لکھی ہے کہ کوئی بیٹا جیتے جی اپنی ماں کے احسانات کا بدلہ چکا ہی نہیں سکتا۔ ماں کے لفظ میں ہی اتنی محبت اور مٹھاس ہے کہ توف کے اس جملے کی مزید وضاحت ممکن نہیں۔
ماں کی لوری کے بارے میں توف لکھتے ہیں کہ ایک بھی دن بلکہ ایک بھی پل ایسا نہیں گزرتا جب وہ گیت جو میری ماں نے مجھے پالنے میں سنایا تھا، اور میرے دل کی گہرائیوں میں مکین ہے۔ وہ گیت میرے تمام اشعار کا گہوارہ ہے۔ماں کی لوری وہ سہانا گیت ہے جس کے آگے ساری دنیا کی موسیقی کوئی اہمیت نہیں رکھتی۔ توف جو کہ ایک بلند پایہ شاعر بھی تھے اپنی شاعری کو ماں کی لوری کا گہوارہ کہتے ہیں۔ یہ توف کا اپنی ماں کو ایک بڑا خراجِ عقیدت ہے ۔ وہ اپنے فن کی بنیاد اس لوری کو قرار دے رہے ہیں جو انہوں نے بچپن ماں سے سنے تھے۔ یہ ماں سے محبت کا ایک عمدہ انداز ہے۔ گوکہ ماں کی محبت کے مقابلے میں یہ انداز بھی بہت تھوڑا ہے۔
رسول حمزہ توف کی اپنی مادری زبان آوار سے محبت بھی بڑی مضبوط تھی۔ وہ کہتے ہیں کہ آوار زبان سمجھنے اور بولنے والوں کی تعداد بہت کم تھی، مگر انہوں نے جو کچھ کہا، اپنی زبان میں کہا۔ ان کو اپنے احساسات کی ترجمانی کے لیے کسی اور زبان کی کبھی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوئی۔
وہ لوگ جنہوں نے دیکھا کہ مادری زبان کا سرمایہ بہت قلیل ہے، کسی دوسری زبان کا سہارا لیا۔ ان کی توف مذمت کرتے ہیں۔ ان کو ایسی بکری سے تشبیہ دیتے ہیں جو جنگل اس لیے گئی تھی کہ بھیڑیے جیسی دم لے کر لوٹے، مگر واپس آئی تو اپنے سینگ بھی گنوا چکی تھی۔ یا یہ لوگ بطخوں کی طرح ہیں جو تیرنا بھی جانتے ہیں اور غوطے بھی…… مگر مچھلی کی طرح ہرگز نہیں۔
مادری زبان سے رسول حمزہ توف کا عشق لازوال ہے۔ مادری زبان کے حوالے سے ہمارے ہاں رویہ کافی افسوس ناک ہے۔ اس زبان کو اپنا ذریعۂ ابلاغ بناتے ہوئے ہم اکثر ہچکچاہٹ کا شکار ہوتے ہیں اور جو اس کو استعمال کریں اس کی بھی حوصلہ شکنی کرتے ہیں۔ حالاں کہ اگر ہم اپنی بنیادی تعلیم میں ٹھوس تبدیلی لانا چاہتے ہیں، تو اس کے لیے مادری زبان میں تعلیم ہی موثر ترین حل ہے ۔
ادیب اور موضوع کے حوالے سے بھی توف نے بہت عمدہ گفتگو کی ہے۔ یہ سوال کہ ادیب موضوع کو جنم دیتا ہے یا موضوع ادیب کو……! بالکل ایسا ہی مسئلہ ہے کہ زمین پر پہلے انڈا پیدا ہوا یا مرغی؟ توف مزید لکھتے ہیں: خیالات و احساسات چڑیوں کی طرح ہوتے ہیں۔ موضوع ان کا آسمان ہوتا ہے۔ خیالات و احساسات ہرن کی طرح ہوتے ہیں، موضوع ان کا جنگل ہے۔
اپنے موضوع کے حوالے سے توف کہتے ہیں: میرا وطن میرا موضوع ہے اور مجھے ضرورت نہیں کہ مَیں اس موضوع کو تلاش کروں…… یا پسند کروں! ہم اپنا وطن پسند کرنے نہیں نکلتے…… بلکہ یوں ہے کہ وطن ابتدا ہی سے ہمارا انتخاب کرلیتا ہے۔
یہ توف کی داغستان سے محبت کی ایک جھلک ہے۔ وہ کہتے ہیں جیسے عقاب کے لیے آسمان اور مچھلی کے لیے پانی ضروری ہے، ایسے ہی ادیب کے لیے وطن بھی ضروری ہے۔
موضوع کے بارے میں مزید لکھتے ہیں کہ یہ الماری ہے جس میں طرح طرح کا سامان پڑا ہو۔ الفاظ اس الماری کی کنجی ہیں…… مگر یاد رہے یہ اسی وقت کارگر ہو سکتے ہیں…… جب الماری میں بھرا سامان آپ کی ملکیت ہو کسی اور کی نہیں۔
وہ ادیب جو ہر موضوع پر ہاتھ مارتے ہیں، توف نے ان کے اس عمل کی حوصلہ شکنی کی ہے۔ کیوں کہ اس سے وہ کسی بھی موضوع کی گہرائی میں نہیں جاتے۔ ان کی مثال توف نے ایسے دی ہے کہ وہ صندوق کھول کر سب سے اوپر کی چیز اٹھا کر بھاگ جاتے ہیں جب کہ ماہرین کی مثال صندوق کے اصل مالک کی سی ہوتی ہے۔ انہیں معلوم ہوتا ہے کہ کون سا سامان کہاں پڑا ہے؟ سو وہ بآسانی جواہرات جو کہ سب سے نیچے پڑے ہوتے ہیں، نکال لیتے ہیں۔
دیکھا جائے، تو یہ مسئلہ کچھ ہمارا بھی ہے۔ یہاں پر لوگ اپنے شعبے کو چھوڑ کر ہر موضوع پر گفتگو کرنا پسند کرتے ہیں، جس میں سطحی پن واضح ہوتا ہے۔ اگر کوئی اس کی نشان دہی کر دے، تو اس کو یہ علم دشمنی سے تعبیر کرتے ہیں۔
توف نے لکھا کہ لوگ کہتے ہیں کہ میاں بیوی کے درمیان محبت کا بندھن جتنا مضبوط ہوگا، ان کا بچہ بھی اتنا ہی خوب صورت ہوگا۔ یہی مثال ادیب کی ہے کہ اگر وہ محبت کے بغیر اپنے موضوع کے ساتھ تخلیق کا رشتہ قایم کرے گا، تو اس کی مثال توف نے اسقاطِ حمل سے دی ہے۔ موضوع سے محبت اس وقت ہی پیدا ہوتی ہے جب آپ کی اس میں دلچسپی ہو…… اور پھر آپ اس کے بارے میں زیادہ سے زیادہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔

’’میرا داغستان‘‘ کا ٹائٹل پیج۔

کتاب میں جگہ جگہ مصنف نے اپنے والد کے واقعات اور ان کی باتیں نقل کی ہیں جو کہ کافی غور طلب ہیں۔ حمزہ سداسا کا کہنا ہے: اگر تم نے کوئی شرمناک حرکت ایسی کی ہے جو تمہارے شایانِ شان نہیں، تو تم لاکھ دعائیں کرلو…… وہ داغ تمہاری پیشانی سے مٹ نہیں سکتا۔
ان کا یہ قول بھی ہے کہ اگر تم برے آدمی کو کھلی چھوٹ دے دیتے ہو اور اسے مکان سے باہر نکل جانے دیتے ہو، تو پھر اس جگہ کو پیٹنے کا کیا فایدہ جہاں وہ بیٹھا ہوا تھا۔
اپنے والد کا ایک اور قول بھی توف نے لکھا ہے کہ اس پتھر کو ہاتھ نہ لگاؤ، جسے اٹھانا تمہارے بس میں نہ ہو۔ تیر کر اتنی دور نہ جاؤ کہ واپس آنا مشکل ہو جائے ۔
اپنے ابا کا ذکر کرتے ہوئے توف یہ بھی کہتے ہیں کہ ان کو وہ کہانیاں بہت پسند تھیں جس میں نصحیت کا پہلو ہو۔
عظیم اور حقیر آدمی کا فرق بیان کرتے ہوئے توف کہتے ہیں کہ معمولی آدمی فقط بڑی چیزیں اور مظاہر دیکھنے کی صلاحیت رکھتا ہے، وہ اپنے آگے بکھری ہوئی چھوٹی چیزوں کو دیکھنے کا عادی نہیں ہوتا، جب کہ بڑا آدمی بیک وقت بڑی چیزوں کو بھی دیکھتا ہے اور چھوٹی چیزوں کو بھی، اور اس میں صلاحیت ہوتی ہے کہ وہ خود بھی قطرے میں دریا کا مشاہدہ کرے اور دوسروں کو بھی اس حقیقت سے واقف کرا سکے۔
توف نے یہ بھی بہت قابلِ غور بات کی ہے۔ ایک بڑے شخص کو عام آدمی سے جو چیز ممتاز کرتی ہے، وہ اس کا زوایہ نظر ہوتا ہے۔ یہ بصیرت ہی ہوتی ہے کہ بڑا آدمی آنے والے واقعات کا بہت بہتر اندازہ لگا سکتا ہے اور اس کی چھوٹی اور بڑی چیزیں اس کے سامنے ہوتی ہیں۔
توف نے انسانی نفسیات پر بات کرتے ہوئے لکھا ہے کہ چاہے جنگ کے تباہ کن حالات کیوں نہ ہوں، انسان حالات کا عادی ہو جاتا ہے……یعنی مشکل سے مشکل تر حالات کیوں نہ ہوں، زندگی کا دھارا چلتا رہتا ہے۔ انسان میں اللہ تعالا نے یہ صلاحیت رکھی ہے کہ وہ حالات کے مطابق اپنے آپ کو ڈھال کر زندگی گزار سکتا ہے۔
ایک اور جگہ توف نے بہت دلچسپ بات لکھی ہے کہ ان دنوں نئے گلوکار گانا گانے کی بجائے چیختے چلاتے ہیں۔ انہوں نے اپنی حرکتوں سے گیتوں کا ستیا ناس کیا ہوا ہے۔
یہ معاملہ کچھ ہمارے ساتھ بھی ہے۔ موجودہ زمانے کے گلوکار ہوں، یا پھر شاعر…… وہ گیتوں اور شاعری کے ساتھ بالکل ایسا سلوک کرتے ہیں جیسا توف نے لکھا ہے۔ توف کہتے ہیں کہ ان کو ایسی حرکتوں سے روکنے کے لیے عملی اقدامات کی ضرورت ہے۔
ہمارے ہاں بن مانگے اور مفت مشورے دینا بھی کثرت سے پایا جاتا ہے۔ لگتا ہے داغستان میں بھی یہ چیز پائی جاتی ہے۔ جس پر رسول حمزہ توف نے ایک دلچسپ مثال لکھی ہے کہ ایک شخص کی صرف لڑکیاں تھیں، اس کو لڑکے کی بڑی خواہش تھی، تو ہر شخص نے اس کو مشورے دیے کہ یہ کرو اور یہ نہ کرو۔ اتنے مشوروں سے تنگ آ کر ایک دن وہ چلا اٹھا کہ خدا کے لیے میری جان بخش دو۔ تم نے مجھے اتنے مشورے دیے ہیں کہ اب میں وہ طریقے ہی بھول گیا جو مجھے خود آتے تھے۔
صلاحیت کے حوالے سے ایک باب بڑا دلچسپ ہے۔ توف کہتے ہیں کہ انسان میں صلاحیت ہوتی ہے یا نہیں ہوتی۔ یہ نہ کوئی آپ کو دے سکتا ہے اور نہ کوئی چھین ہی سکتا ہے۔ یہ ہر شخص ساتھ لے کر آتا ہے۔ صلاحیتیں ورثے میں نہیں ملتیں، کیوں کہ کئی عقل مند باپوں کے بیٹے بے وقوف ہوتے ہیں۔ صلاحیت جب کسی انسان کو نوازتی ہے، تو یہ اس سے اس کا علاقے اور خاندان کا نہیں پوچھتی۔ صلاحیت کو نہ کھینچنے کی ضرورت پڑتی ہے نہ دھکیلنے کی، وہ خود اپنا راستہ بناتی ہے اور سامنے آجاتی ہے۔ صلاحیت تعلیم کی بھی محتاج نہیں ہوتی۔ اس کے لیے توف نے شاعر سلیمان استالسکی کی مثال دی ہے جو اپنے نام کے دستخط بھی نہیں کرسکتے تھے مگر ان شاعری کو عوامی شہرت ملی۔ ایسی مثالیں ہمارے ہاں بھی پائی جاتی ہیں کہ بہت سے لوگ پڑھے لکھے نہ ہونے کے باوجود زبردست کاروباری ذہنیت رکھتے ہیں۔
توف مزید کہتے ہیں کہ باصلاحیت آدمیوں کی صلاحیتیں کبھی مشابہ نہیں ہوتیں، کیوں کہ جو صلاحیتیں مشابہ ہوں وہ صلاحیتیں ہوتی ہی نہیں۔
صلاحیت تو محبت کے لیے بھی ضروری ہے بلکہ توف کہتے ہیں کہ محبت کے لیے صلاحیت اس سے کہیں زیادہ اہمیت رکھتی ہے جتنی صلاحیت کے لیے محبت کو حاصل ہے۔
توف کہتے ہیں کہ گاؤں کے بزرگ ان کو کہتے تھے کہ کوئی کام کاج کیا کرو، گویا وہ شاعری کو کام کاج ہی نہیں سمجھتے…… بلکہ کہتے اگر یہ کام ہے، تو بے کاری کس چیز کا نام ہے؟ اس پر توف وضاحت دیتے ہیں کہ باقی لوگوں کے کام کاج کا وقت ہوتا ہے، مگر شاعر کے کام کا کوئی وقت نہیں ہوتا۔ ایسا کئی بار ہوتا ہے کہ سب مزے سے سو رہے ہوتے ہیں مگر شاعر کو کوئی چیز بے چین کرتی ہے اور اس کو اس وقت بھی کام کرنا پڑتا ہے ۔ اس لیے کسی کا شاعری کو کوئی کام کاج نہ سمجھنا اس کی ناسمجھی ہے ۔
اپنے ابا کے علاوہ دوسرے شخص جن کی باتیں ہمیں اس کتاب میں ملتی ہیں، وہ داغستانی شاعر ابو طالب ہیں۔ ان کی ایک دلچسپ بات لکھی ہے کہ وہ کہتے تھے کہ مجھے تین حالتوں نے بوڑھا کر دیا ہے ۔
٭ اول، سب مہمان آ چکے ہوں، کسی آخری مہمان کے آنے کے انتظار کی کیفیت نے۔
٭ دوم، بیوی کی سجائی ہوئی کھانے سے بھری میز پر بیٹھ کر اس بیٹے کے انتظار کی کیفیت نے جسے ووڈکا لینے کے لیے بھیجا ہو اور وہ نہ آ رہا ہو۔
٭ آخری کیفیت اس آخری مہمان کے جانے کے انتظار کی جو سارے مہمانوں کے چلے جانے کے بعد بھی جما ہوا ہو۔ پوری شام یہ مہمان خاموش رہا ہو…… پھر اس نے رخصت لی…… مَیں اس کے ساتھ دروازے تک آیا…… اور وہاں اس نے باتوں کا سلسلہ شروع کر دیا…… جو ختم ہونے کو نہ آ رہی ہو، گویا وہ اب تک کی خاموشی کا بدلا لے رہا ہو۔
ان تینوں میں سے آخری کیفیت سب سے دلچسپ ہے۔ کیوں کہ اس کا تجربہ اکثر مجھے بھی ہوا اور اس وقت جو میزبان کی کیفیت ہوتی ہے، اس کی ترجمانی ابو طالب نے درست کر دی ہے۔
ابو طالب کا ایک اور واقعہ بھی توف نے لکھا کہ ان کے گھر میں چوری ہو گئی۔ چور گھر کا سارا زیور اور قیمتی اشیا لے گئے۔ ابو طالب خاموشی سے ایک کمرے میں جا کر زرونا (ایک ساز) بجانا شروع ہو گئے۔ اس پر بیوی نے کہا کہ تمہیں ذرا بھی احساس نہیں…… کیا یہ زرونا بجانے کا وقت ہے؟ تو ابو طالب نے جواب دیا، میری نظموں کے مسودے چوروں سے محفوظ رہے…… جن پر پورا سال میں نے محنت کی۔ ان میں سے ایک بھی چوری ہو جاتی، تو بڑا زبردست نقصان ہوتا اور پھر چور میرا زرونا بھی چھوڑ گئے۔ اس پر میں خوشی کا اظہار کیوں نہ کروں…… اور زرونا بجاؤں!
ابو طالب کی بیوی اور بیٹی بین کرتی رہیں…… مگر ابو طالب زرونا بجا کر لطف اندوز ہوتا رہا۔
سچائی اور جھوٹ کے بارے میں بھی ایک حکایت ہے کہ دونوں کو اپنے مضبوط ہونے کا دعوا تھا، تو دونوں ایک دن بازار میں گئیں۔ جھوٹ کو لوگوں نے گلے لگایا…… جب کہ سچ کو کہا کہ تمہاری وجہ سے خریدار تاجروں کے خلاف، عام انسان نوابوں کے خلاف اور نواب بادشاہوں کے خلاف ہو گئے۔جھوٹ اپنی اس فتح پر خوش ہوا، تو سچ نے کہا، آؤ! پہاڑوں پر چل کر جہاں ٹھنڈے چشمے ہیں، وہاں مقابلہ کرتے ہیں۔ جھوٹ نے کہا کہ مَیں وہاں نہیں جاؤں گا۔ کیوں کہ وہاں انسان نہیں بستے۔ میرا کام نیچے ہے…… اگر کوئی مجھ سے بغاوت کرکے تمہارا ساتھ دے تو ایسے لوگ بہت تھوڑے ہوتے ہیں۔
توف کہتے ہیں کہ یہی تھوڑے لوگ سورما ہوتے ہیں جن کی بہادری پر شاعروں نے نظمیں لکھی ہیں۔
توف جھوٹ کے بارے میں لکھتے ہیں کہ یہ جھوٹ بولنا نہ کوئی اضطراری غلطی ہے، نہ اتفاقی حادثہ۔ یہ کردار کی خاصیت ہوتی ہے جس کی جڑیں بڑی گہری ہوتی ہیں۔ یہ روح کے کھیت میں اُگنے والی خطرناک گھاس کی طرح ہے…… جس کو ابتدا میں اکھاڑا نہ جائے، تو بڑھ کر پورے کھیت کو گھیر لیتی ہے اور اتنی جگہ باقی بھی نہیں رہتی کہ اچھے بیجوں کے اکھوے پھوٹ سکیں۔
توف کہتے ہیں کہ ان کو اپنے ابا سے ایک دفعہ مار پڑی…… اس کی وجہ یہ تھی کہ میں نے جھوٹ بولا تھا ۔
جھوٹ سے بے زاری کا اعلان کرتے ہوئے توف نے آخر میں لکھا ہے کہ اگر تمہیں میری کتاب میں کوئی صحیح خیال ملے، تو اس کے نیچے خط کھینچ دو۔ اگر کوئی نادرست خیال نظر آئے، تو اس کے نیچے دہرا خط کھینچو۔
کتاب میں اگر جھوٹ کا ذرا سا شایبہ بھی محسوس ہو، تو پوری کتاب پھینک دو۔ کیوں کہ پھر اس کی قیمت نہیں رہ جائے گی۔
اس کتاب کے اوپر لکھتے ہوئے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ کیا لکھوں اور کیا چیز چھوڑوں؟ ’’آوازِ دوست‘‘ کی طرح اس کتاب کی نثر کمال کی ہے…… مگر بنیادی فرق یہ ہے کہ آواز دوست لکھی ہی اُردو میں گئی…… اور یہ ترجمہ ہے۔ مطلب اجمل اجملی صاحب نے اس کا ترجمہ اتنا اعلا کیا ہے کہ محسوس ہی نہیں ہوتا کہ آپ اصل کتاب پڑھ رہے ہیں یا ترجمہ!
ادب سے دلچسپی رکھنے والے افراد کے لیے اس کتاب کا مطالعہ یقینا ایک اچھا تجربہ ہو گا۔
یہ کتاب ان کتابوں میں سے ہے جو ایک دفعہ سے زیادہ پڑھے جانے کے قابل ہیں۔
اس کی عمدہ اشاعت پر بُک کارنر جہلم بھی داد کا مستحق ہے۔
………………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔