یہ ایک عمومی مظہر ہے کہ ایک زبان دوسری سے اثر لیتی ہے۔ یہ اثرات کئی طرح کے ہوتے ہیں، تاہم ان میں نمایاں اثرات ایک زبان کا دوسری زبان سے الفاظ کا مستعار لینا ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ یہ ایک فطری عمل ہے۔ فطری عمل تو ہے مگر ایک ایسی قوم کی زبان کسی دوسری قوم کی زبان سے زیادہ اثر لیتی ہے جب: یہ دوسری قوم علمی، معاشی اور سیاسی طور پر زیادہ طاقت ور ہو؛ یا جب پہلی قوم اپنی زبان کو کم تر سمجھے اور دوسری زبانوں کو عزت اور سماجی رتبے کا باعث سمجھے۔ یوں اس فطری عمل میں سیاسی، معاشی اور علمی عوامل بھی شامل ہوجاتے ہیں۔ جب کسی قوم کے پاس مذہبی، علمی، سیاسی اور معاشی بالادستی موجود ہو، تو اس کی زبان و ثقافت کو دوسری قومیں لاشعوری یا شعوری طور پر نہ صرف اپناتے ہیں بلکہ اس پر اتراتے بھی ہیں۔
جب خطرے سے دوچار زبانوں جیسے توروالی، گاؤری، شینا، کھوار وغیرہ کو تحریر میں لانا ہوتا ہے…… یا دوسری زبانوں سے ان میں ترجمہ کرنا ہوتا ہے، تو ایک بڑا مسئلہ جو ہر اہلِ قلم کو درپیش رہتا ہے، وہ ان مستعار الفاظ سے نبردآزما ہونا ہوتا ہے۔ یہ مسئلہ اُردو کو بھی درپیش ہے۔ اس استعار و اختصاص میں کسی خاص شناخت اور نظریے کا بھی بڑاا دخل ہوتا ہے۔ مثلاً اُردو اپنی بنیادی لسانی فطرت میں ہندوستانی زبان ہے اور اپنی بنیادی صوتی، لغوی اور ساختی خاصیتیں ہندوستان سے ہی لیتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بالی ووڈ کی ساری ہندی فلموں کو پاکستان میں بھی بہ آسانی سمجھا جاتا ہے۔ تاہم جہاں مستعار الفاظ میں اختصاص اور چناو کی بات آجائے، تو اُردو کو خاص سیاسی شناخت کی علامت بنانے کے لیے عربی اور فارسی سے الفاظ لائے جاتے ہیں۔ اسی طرح اب ہندی میں زیادہ سے زیادہ سنسکرت کے الفاظ کو استعمال کیا جاتا ہے۔
پہلے اُردو کے لیے ہندی سے الگ کرنے کی خاطر عربی/ فارسی رسم الخط کو اپنایا گیا۔ اس کے بعد اس سے ہندی الفاظ کو خارج کرنے کا عمل تیز کردیاگیا اور ان کی جگہ عربی سے الفاظ لائے گئے۔ فارسی نے اُردو پر گہرے اثرات اس لیے چھوڑے ہیں کہ یہاں ہندوستان کی سرکاری زبان کئی صدیوں تک فارسی رہی۔ اُردو زبان کے فروغ کے لیے جو سرکاری ادارہ پاکستان میں بنایا گیا اس نے نئی اصطلاحات کے ترجمے کے لیے دانستہ طور پر عربی کا سہارا لیا۔
کئی صورتوں میں مستعار لینے کا یہ عمل بڑا دلچسپ ہوتا ہے۔ کیوں کہ کئی زبانیں مستعار الفاظ کو اپنے رنگ میں رنگ لیتی ہیں اور ان کو اپنی صوتی صورت دیتی ہیں۔ مثلاً انگریزی لفظ "Cotton” کو لے لیں۔ یہ لفظ ہمیں انگریزی ہی کا لگتا ہے۔ کیوں کہ انگریزی نے اصل لفظ ’’کاتن‘‘ جو ’’کاتنا‘‘ سے مشتق ہے، کو اپنے صوتی رنگ میں رنگا ہے۔ اسی طرح لاطینی لفظ "Chemistry” ہے جو اصل میں عربی لفظ ’’الکیمیا‘‘ سے بنا ہے…… اور لاطینی سے ہوکر انگریزی میں مستعمل ہوچکا ہے۔ یہ بھی دیکھنا ہے کہ عربی نے ’’الکیمیا‘‘ کہیں قدیم یونانی سے تو نہیں لیا؟ کیوں کہ یونانی فلسفہ اور سائنس عربی سے ہوکر یورپ گیا ہے…… اور اس کے بڑے شارح عربی بولنے والے فلسفی اور علما ہی رہ چکے ہیں۔
ہمارے توروالی لوگ جب مسلمان ہوئے، تو ان کو اسلام پشتو زبان میں سکھایا گیا۔ کیوں کہ پشتو عام لوگوں کی زبان تھی اور زبانی کلامی مستعمل تھی۔ اگرچہ اس وقت اس پورے خطے یعنی برصغیر میں فارسی کو تحریرو ادب کی زبان کا رتبہ حاصل تھا۔ یہی وجہ ہے کہ پشتو کی پہلی تصانیف ’’خیرالبیان‘‘، ’’مخزن الاسلام‘‘ یا پھر ’’تواریخِ حافظ رحمت خانی‘‘ کو گو کہ پشتو میں مانا جاتا ہے…… لیکن ان پر فارسی کا غلبہ ہے۔
مذہب کی تعلیمات پشتو میں پانے کی وجہ سے ہماری مساجد میں عیدین اور جمعوں کے خطبے حالیہ سالوں تک پشتو میں ہی ہوا کرتے تھے اور اب بھی ہمارے لوگوں کی اکثریت نماز کی نیت پشتو میں ہی باندھتی ہے۔ اگرچہ ان کو نیت کے ان پشتو الفاظ کا مفہوم شاید سمجھ بھی نہ آئے۔
ہمارے علاقے میں تعلیم جب عام نہ تھی۔ سیٹیلایٹ ٹی وی عام نہیں تھا۔ اخبارات نہیں آتے تھے اور سوشل میڈیا کا دور ابھی نہیں آیا تھا، تو ہماری دوسری زبان پشتو ہی ہواکرتی تھی۔ سب کو اسے بولنا اور سیکھنا پڑتا تھا کہ سوات میں مارکیٹ اور مسجد کی زبان پشتو ہی تھی…… لیکن جب سے تعلیم عام ہوئی، ٹی وی اور دیگر میڈیا آگیا، تو اب ہماری نسلوں کی دوسری زبان براہِ راست آردو ہوگئی ہے۔ آج 7 سال کے بیٹے سے جب لفظ ’’جھوٹا‘‘ کے معنی پوچھے، تو بلاتحمل ’’لوال‘‘ بتایا۔ جب ’’دروغجن‘‘ کے معنی پوچھے، تو وہ میرا منھ تکتا رہ گیا!
بات بنیادی طور پر مستعار الفاظ اور ترجمے کی ہورہی تھی۔ اسی جانب واپس آتے ہیں۔ زبانوں کا ایک دوسرے میں ترجمہ نہایت اہم ہوتا ہے۔ اس سے دونوں زبانوں کو فایدہ ہوتا ہے۔ لوگوں میں ہم آہنگی پیدا ہوتی ہے۔ تاہم جب ترجمے کی بات کی جاتی ہے، تو عموماً یہ خیال ذہن میں آتا ہے کہ کسی دوسری زبان کے مواد کو اپنی زبان میں ترجمہ کیا جائے۔ یہ بھی بہتر ہے، تاہم اس سے عمل یک طرفہ ہوجاتا ہے اور آگے جاکر ’’سورس زبان‘‘ (وہ زبان جس کا ترجمہ کیا جائے) دوسری زبان پر غلبہ حاصل کرتی ہے۔ اُردو زبان کے پاکستانی عاشقوں میں یہ روایت چل پڑی ہے کہ وہ انگریزی سے یا یورپی زبانوں سے مواد کو اُردو میں ترجمہ کریں گے…… لیکن ان کو یہ خیال کم ہی آیا کہ پاکستان کی دیگر زبانوں سے بھی ادب کو اُردو میں ترجمہ کیا جائے۔ یوں اُردو زبان بیرونی اثرات لینے کے لیے تیار ہے، تاہم اندرونی اثرات سے اس کو دور رکھا جاتا ہے۔
الفاظ صرف علامات نہیں ہوتے…… بلکہ کئی الفاظ اپنے ساتھ ایک پورا پس منظر، سیاق و سباق اور تصورات لیے ہوتے ہیں۔ ایسے مجرد الفاظ کا ترجمہ کرتے وقت بہت احتیاط برتنی چاہیے۔ ٹھوس اشیا جو اپنی مقامی ثقافت میں معلوم ہوں، ان کا ترجمہ آسانی سے کیا جاسکتا ہے…… تاہم جہاں ایسے الفاظ سے واسطہ پڑے جو مجرد تصورات کے حامل ہوں یا ان الفاظ سے سورس زبان کا ثقافتی پس منظر وابستہ ہو، تو وہاں ان الفاظ کو اسی طرح رہنے دیا جائے جیسے کہ وہ ہیں۔ یہ الفاظ شاعری، نثر اور ادب میں بھی پائے جاتے ہیں، تاہم زیادہ احتیاط برتنا اسلامی تعلیمات کو ترجمہ کرتے وقت ضروری ہوتا ہے۔ اسلامی تعلیمات کا اُردو میں ترجمہ کرتے وقت ایسی کئی غلطیاں کی گئی ہیں، تاہم ان کی طرف اتنی نظر نہیں جاتی۔ کیوں کہ ہماری تعلیم اُردو میں ہے اور اس کی وجہ سے اس کو قبولِ عام کا شرف حاصل ہے۔ ہمارے لیے اُردو بھی ایک اعلا درجہ رکھتی ہے۔ اس لیے اس طرف کسی کی تنقیدی نظر نہیں جاتی۔ اس کے برعکس ہماری نفسیات میں اپنی زبانوں کے بارے میں اب بھی کچھ اچھا خیال نہیں اور اس لیے ہم اپنے اردگرد سیاسی، سماجی اور ثقافتی درجہ بندیوں کی وجہ سے کئی الفاظ کو کم تر سمجھتے ہیں۔ مثلاً لفظ محبوب لوگوں کو ’’اینگولا‘‘ سے زیادہ قابلِ قبول ہوگا۔ کیوں کہ محبوب لفظ فارسی سے ہے اور ان تعلیم یافتہ لوگوں نے ساری اُردو شاعری میں فارسی کی ان جیسی اصطلاحات کو سنا ہے۔ مثلاً فقرہ ’’اللہ سی محبوب‘‘ استعمال کر سکتے ہیں، تاہم ’’اللہ سی اینگولا‘‘ شاید استعمال نہیں کرسکتے۔وجہ یہ ہے کہ ہماری زبانوں میں کئی الفاظ ابھی تک مقامیت میں گندھے ہوئے ہیں اور ان کو وسیع معنی نہیں دیے گئے ہیں۔
یہی مسئلہ دیگر علوم کو توروالی میں ڈھالنے میں پیش آتا ہے کہ ابھی تک ان اصطلاحات کو وہ تصورات نہیں دیے گئے اور ان کو ان معانوں میں استعمال نہیں کیا گیا۔ مثلاً انگریزی لفظ "Prosperity” ہے جس کا اُردو میں اکثر ترجمہ ’’خوش حالی‘‘ کیا جاتا ہے۔ توروالی میں اس کا متبادل ’’خیرأزی‘‘ ہوسکتا ہے، تاہم اس کو یہ وسعت دینے کے لیے فی الوقت بیریکیٹس میں انگلش لفظ بھی لکھا جانا ہوتا ہے۔
اکثر اوقات لوگ ترجمے کا ترجمہ کرتے ہیں۔ مثلاً اُردو میں نطشے کے فلسفے کو جب کوئی ترجمہ کرتا ہے، تو وہ اس کے انگریزی ترجمے کا سہارا لیتا ہے۔ اس میں دوہرے نقص کا احتمال ہوتا ہے۔
یہی صورتِ حال قرآنِ مجید کے تراجم کی ہے۔قرآنِ حکیم کے بیشتر اُردو ترجمے، عربی تراجم وتفاسیر سے ہیں۔ ہماری زبانوں میں اکثر ان اُردو تراجم کے ترجمے کیے جاتے ہیں۔ یہی سے خطرہ دوچند ہوجاتا ہے۔ ایک تو اپنی زبان کا بنیادی لسانی و ثقافتی پس منظر سامی زبانوں سے بالکل مختلف ہے۔ دوسری جانب ابھی تک غیر مذہبی مواد کے وافر تراجم نہیں کیے گئے کہ کوئی اچھا پس منظر مل سکے۔ کئی مواقع پر دوسری زبان کے استعارات، تمثیلات، تشبیہات اور علامات کو لغوی لیا جاتا ہے جس سے سارا مفہوم بگڑ جاتا ہے۔ ابلاغ کے اس عمل کو "Implicature” کہا جاتا ہے جس کے دوران میں الفاظ، فقروں اور جملوں کی ظاہری صورت ان میں مخفی مفہوم سے اکثر الٹ ہوتی ہے۔
مختصراً یہ کہ ’’ٹرانس لیشن تھیوریز‘‘ (Translation theories) یعنی اصولِ ترجمہ کو سمجھے بغیر ترجمہ کرنا نقصان دہ ہوسکتا ہے۔ اسی طرح دونوں زبانوں "Source language” یعنی وہ زبان جس سے ترجمہ کیا جاتا ہے اور "Target language” یعنی وہ زبان جس میں ترجمہ کیا جاتا ہے، کی لسانی و ادبی باریکیوں کو سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ بحیثیتِ طالب علم اور محقق، مَیں تو ترجمے کے عمل کو سراہوں گا کہ ان باریکیوں کا طالب علم ہوں اور اپنی زبان میں علم کی ترویج کو بہت احسن کام سمجھتا ہوں، تاہم کئی لوگ صرف نکتہ چینی کے لیے بیٹھے ہوتے ہیں کہ اس سے وہ دوسروں کے کام کی وقعت کو گھٹانے اور اپنی انا کی تسکین کی کوشش کرتے ہیں۔
(نوٹ:۔توروالی میں مستعار لیے ہوئے الفاظ ایک وسیع مضمون کا تقاضا کرتے ہیں کہ آیا جو الفاظ توروالی نے مستعار لیے ہیں اور ان کے ساتھ اپنا لسانی تعلق پیدا کیا ہے ان کے ساتھ کیسے نمٹا جائے؟ اس پر روشنی کسی اور مضمون یا کتاب میں ڈالیں گے!
……………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔