اس کے دونوں ہاتھ دعا کی غرض سے آسمان کی طرف اٹھے تھے۔ عید کا مبارک دن تھا۔ گل اندام کی شادی کو ابھی دو سال بھی پورے نہیں ہوئے تھے کہ گل فرید کوئلہ کی کان میں داعئی اجل کو لبیک کہہ گیا۔ گل فرید کے بچھڑنے کے دو ماہ بعد گل اندام کی گود ہری ہوئی اور زرسانگہ کی شکل میں اسے جینے کا بہانہ مل گیا، لیکن لوگوں کی بھوکی نظروں کا اس کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔ گھر کا چولہا رشتہ داروں کے تعاون سے جیسے تیسے جلتا رہتا لیکن جب زرسانگہ بیمار پڑ جاتی، تو پھر قرض دینے والا بھی کوئی نہ ہوتا۔ وہ جلدی جلدی اجوائن (سپیرکئی) اور جنگلی پودینہ (ویلنے یا وینلے) کی شکل میں کسی گھریلو ٹوٹکے کا سہارا لیتی جس کی بدولت زرسانگہ کی صحت بحال ہوجاتی۔ خدائے لم یزل کے علاوہ اس کا کوئی آسرا نہ تھا۔
لیکن جب دو ماہ قبل زرسانگہ کی رنگت پیلی پڑ نا شروع ہوئی، اور جب اجوائن، جنگلی پودینہ اور بیوہ کی دعائیں بھی ناکام ہوئیں، تو سلطان کاکا سے قرضۂ حسنہ کے طور پر کچھ پیسے لئے۔ ڈاکٹر نے خون کے ٹیسٹ کے بعد یہ بری خبر اُس کے گوش گزار کی کہ ’’بی بی، مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ تمہاری بچی خون کے سرطان میں مبتلا ہے۔ سرطان کا علاج کیا جاسکتا ہے، مگر اس پر چھے لاکھ کا خرچہ اٹھے گا۔‘‘
جواباً گل اندام کی آنکھیں ڈبڈبا گئیں اور دوسرے ہی لمحے دو موٹے موٹے آنسو اس کے گالوں پر تیزی سے پھسلتے دکھائی دئیے۔
عیدِ قربان کا مبارک دن تھا۔ گاؤں کے چونتیس مومن بیت اللہ کی زیارت کو گئے تھے۔ اس موقع پر نو سو سے زائد جانوروں کی قربانی دی گئی۔ قربانی کا گوشت جب فریجوں میں محفوظ کیا جا رہا تھا، تو زرسانگہ کے دونوں ہاتھ ٹھنڈے پڑگئے تھے، وہ حالتِ نزع میں تھی۔ جب اس کی روح قفس عنصری سے پرواز کرگئی، تو عین اُسی وقت پڑوسی بچہ ایک تھیلے میں گوشت کے نام پر چیتھڑے جو بمشکل آدھا کلو بھی نہ تھے، یہ کہتے ہوئے گل اندام کو تھما گیاکہ ’’یہ گوشت ماں نے دیا ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ جب بابا حج کی زیارت سے واپس آئیں گے، تو آپ کے لئے مکہ مکرمہ سے جائے نماز بھی لائیں گے۔‘‘
گل اندام اضطراب کے عالم میں کبھی اُن گوشت نما چیتھڑوں میں نظر آنے والی ہڈیوں کو دیکھتی، تو کبھی بے جان پڑی بیٹی کی ہڈیوں کو۔
( نوٹ:۔ ڈاکٹر ہمدرد یوسف زے کے پختو افسانوں کے مجموعہ ’’چیندرو‘‘ سے افسانہ ’’قربانی‘‘ کا ترجمہ، مترجم)