اللہ تعالا نے اپنی قدرت سے ساری کائنات پیدا فرمائی اور ان میں سے بعض کو بعض پر فوقیت دی۔ اس طرح سات دن بنائے اور جمعہ کے دن کو دیگر ایام پر فوقیت دی۔
جمعہ کے فضائل میں یہ بات خاص طور پر قابلِ ذکر ہے کہ ہفتہ کے تمام ایام میں صرف جمعہ کے نام سے ہی قرآنِ کریم میں سورہ نازل ہوئی ہے، جس کی رہتی دنیا تک تلاوت ہوتی رہے گی اِن شاء اللہ۔
’’سورۂ جمعہ‘‘ مدنی سورہ ہے۔ اس سورہ میں 11 آیات اور 2 رکوع ہیں۔ اس سورہ کی آخری 3 آیات میں نمازِجمعہ کا تذکرہ ہے، جن کا مفہوم یہ ہے: ’’اے ایمان والو! جب جمعہ کے دن نماز کے لیے پکارا جائے، یعنی نماز کی اذان ہوجائے، تو اللہ کی یاد کے لیے جلدی کرو، اور خرید وفروخت چھوڑدو۔ یہ تمہارے حق میں بہت ہی بہتر ہے اگر تم جانتے ہو۔‘‘ (آیت 9)
’’اور جب نماز ہوجائے تو زمین میں پھیل جاؤ اور اللہ کا فضل تلاش کرو یعنی رزق حلال تلاش کرو۔ اور اللہ کو بہت یاد کرو تاکہ تم کامیاب ہوجاؤ۔ یعنی نماز تو صرف اسی جگہ ادا کرسکتے ہو لیکن ذکر ہر جگہ کرسکتے ہو۔ دیکھو مجھے بھول نہ جانا، کام کرتے ہوئے، محنت مزدوری وملازمت کرتے ہوئے ہر جگہ مجھے یاد رکھنا۔‘‘ (آیت 10)
’’جب لوگ سودا بکتا دیکھتے ہیں یا تماشا ہوتا ہوا دیکھتے ہیں، تو اُدھر بھاگ جاتے ہیں اور تجھے کھڑا چھوڑ دیتے ہیں۔ تو فرمادیجیے جو اللہ کے پاس ہے۔ وہ بہتر ہے تماشے سے اور سودے سے، اور اللہ سب سے بہتر رزق دینے والے ہیں۔‘‘ (آیت 11)
٭ جمعہ کا نام جمعہ کیوں رکھا گیا؟
اس کے مختلف اسباب ذکر کیے جاتے ہیں یعنی
٭ ’’جمعہ‘‘ جمع سے ماخوذ ہے جس کے معنی ہیں جمع ہونا۔ کیوں کہ مسلمان اس دن بڑی مساجد میں جمع ہوتے ہیں اور امتِ مسلمہ کے اجتماعات ہوتے ہیں۔ اس لیے اس دن کو جمعہ کہا جاتا ہے۔
٭ چھے دن میں اللہ تعالا نے زمین و آسمان اور تمام مخلوق کو پیدا فرمایا۔ جمعہ کے دن مخلوقات کی تخلیق مکمل ہوئی یعنی ساری مخلوق اس دن جمع ہوگئی۔ اس لیے اس دن کو جمعہ کہا جاتا ہے۔
٭ اس دن یعنی جمعہ کے دن حضرت آدم علیہ السلام پیدا کیے گئے، یعنی ان کو اس دن جمع کیا گیا۔
٭ اسلام کا پہلا جمعہ:۔ یوم الجمعہ کو پہلے یوم العروبہ کہا جاتا تھا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے مدینہ منورہ ہجرت کرنے اور سورۂ جمعہ کے نزول سے قبل انصارِ صحابہ نے مدینہ منورہ میں دیکھا کہ یہودی ہفتہ کے دن اور نصارا اتوار کے دن جمع ہوکر عبادت کرتے ہیں۔ لہٰذا سب نے طے کیا کہ ہم بھی ایک دن اللہ تعالا کا ذکر کرنے کے لیے جمع ہوں۔ چناں چہ حضرت ابوامامہؓ کے پاس جمعہ کے دن لوگ جمع ہوئے۔ حضرت اسعد بن زرارۃ رضی اللہ عنہ نے دو رکعات نماز پڑھائی۔ لوگوں نے اپنے اس اجتماع کی بنیاد پر اس دن کا نام یوم الجمعہ رکھا ۔ اس طرح سے یہ اسلام کا پہلا جمعہ ہے۔ (تفسیر قرطبی)
٭ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا پہلا جمعہ: ۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ ہجرت کے وقت مدینہ منورہ کے قریب بنو عمروبن عوف کی بستی قبا میں چند روز کے لیے قیام فرمایا۔ قبا سے روانہ ہونے سے ایک روز قبل جمعرات کے دن آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مسجدِ قبا کی بنیاد رکھی۔ یہ اسلام کی پہلی مسجد ہے جس کی بنیاد تقوا پر رکھی گئی۔ جمعہ کے دن صبح کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم قبا سے مدینہ منورہ کے لیے روانہ ہوئے۔ جب بنو سالم بن عوف کی آبادی میں پہنچے، تو جمعہ کا وقت ہوگیا، تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے بطن وادی میں اس مقام پر جمعہ پڑھایا جہاں اب مسجد (مسجد جمعہ) بنی ہوئی ہے۔ یہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا پہلا جمعہ ہے۔ (تفسیر قرطبی)
٭ جمعہ کے دن کی اہمیت کے متعلق دو حدیثیں:۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: سورج کے طلوع و غروب والے دنوں میں کوئی بھی دن جمعہ کے دن سے افضل نہیں، یعنی جمعہ کا دن تمام دنوں سے افضل ہے۔ (صحیح ابن حبان)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ایک مرتبہ جمعہ کے دن ارشاد فرمایا: ’’مسلمانو! اللہ تعالا نے اس دن کو تمہارے لیے عید کا دن بنایا ہے۔ لہٰذا اس دن غسل کیا کرو اور مسواک کیا کرو۔ (طبرانی، مجمع الزوائد)
قارئین، اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جمعہ کا دن ہفتہ کی عید ہے۔
٭ جمعہ کے دن قبولیت والی گھڑی:۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے جمعہ کے دن کا ذکر کیا اور فرمایا: اس میں ایک گھڑی ایسی ہے جس میں کوئی مسلمان نماز پڑھے اور اللہ تعالا سے کچھ مانگے، تو اللہ تعالا اس کو عنایت فرمادیتا ہے اور ہاتھ کے اشارے سے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے واضح فرمایا کہ وہ ساعت مختصر سی ہے۔ (بخاری)
احادیث کی روشنی میں جمعہ کے دن قبولیت والی گھڑی کے متعلق علما نے دو وقتوں کی تحدید کی ہے:
پہلا وقت، دونوں خطبوں کا درمیانی وقت، جب امام منبر پر کچھ لمحات کے لیے بیٹھتا ہے۔
دوسرا، غروبِ آفتاب سے کچھ وقت قبل۔
٭ نماز ِجمعہ کی فضیلت:۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جو شخص اچھی طرح وضو کرتا ہے، پھر جمعہ کی نماز کے لیے آتا ہے۔ خوب دھیان سے خطبہ سنتا ہے اور خطبہ کے دوران میں خاموش رہتا ہے، تو اس جمعہ سے گذشتہ جمعہ تک اور مزید تین دن کے گناہ معاف کردیے جاتے ہیں۔ (مسلم)
یعنی چھوٹے گناہوں کی معافی ہوجاتی ہے۔
٭ جمعہ کی نماز کے لیے مسجد جلدی پہنچنا:۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جب جمعہ کا دن ہوتا ہے، تو فرشتے مسجد کے ہر دروازے پر کھڑے ہوجاتے ہیں۔ پہلے آنے والے کا نام پہلے، اس کے بعد آنے والے کا نام اس کے بعد لکھتے ہیں (اسی طرح آنے والوں کے نام ان کے آنے کی ترتیب سے لکھتے رہتے ہیں۔) جب امام خطبہ دینے کے لیے آتا ہے، تو فرشتے اپنے رجسٹر (جن میں آنے والوں کے نام لکھے گئے ہیں) بند کردیتے ہیں اور خطبہ سننے میں مشغول ہوجاتے ہیں۔ (مسلم)
خطبۂ جمعہ شروع ہونے کے بعد مسجد پہنچنے والے حضرات کی نمازِ جمعہ تو ادا ہوجاتی ہے، مگر نمازِ جمعہ کی فضیلت ان کو حاصل نہیں ہوتی۔
٭ خطبۂ جمعہ:۔ جمعہ کی نماز کے صحیح ہونے کے لیے یہ شرط ہے کہ نماز سے قبل دو خطبے دیے جائیں۔ کیوں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ہمیشہ جمعہ کے دن دو خطبے دیے۔ دونوں خطبوں کے درمیان خطیب کا بیٹھنا بھی سنت ہے۔ (مسلم)
منبرپر کھڑے ہوکر ہاتھ میں عصا لے کر خطبہ دینا سنت ہے۔
٭ دورانِ خطبہ کسی طرح کی بات کرنا حتی کہ نصیحت کرنا بھی منع ہے:۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس نے جمعہ کے روز دورانِ خطبہ اپنے ساتھی سے کہا (خاموش رہو) اس نے بھی لغو کام کیا۔ (مسلم)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلمنے ارشاد فرمایا: جس شخص نے کنکریوں کو ہاتھ لگایا یعنی دورانِ خطبہ ان سے کھیلتا رہا (یا ہاتھ ، چٹائی، کپڑے وغیرہ سے کھیلتا رہا) تو اس نے فضول کام کیا (اور اس کی وجہ سے جمعہ کا خاص ثواب ضائع کردیا)۔ (مسلم)
حضرت عبد اللہ بن بسرؓ فرماتے ہیں کہ میں جمعہ کے دن منبر کے قریب بیٹھا ہوا تھا، ایک شخص لوگوں کی گردنوں کو پھلانگتا ہوا آیا جب کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم خطبہ دے رہے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: بیٹھ جا، تونے تکلیف دی اور تاخیر کی۔ (صحیح ابن حبان)
نوٹ:۔ جب امام خطبہ دے رہا ہو، تو لوگوں کی گردنوں کو پھلانگ کر آگے جانا منع ہے، بلکہ پیچھے جہاں جگہ ملے وہیں بیٹھ جائے۔
٭ جمعہ کی نماز کا حکم:۔ جمعہ کی نماز ہر اُس مسلمان، صحت مند، بالغ، مرد کے لیے ضروری ہے جو کسی شہر یا ایسے علاقے میں مقیم ہو جہاں روز مرہ کی ضروریات مہیا ہوں۔ معلوم ہوا کہ عورتوں، بچوں، مسافر اور مریض کے لیے جمعہ کی نماز ضروری نہیں ہے۔ البتہ عورتیں، بچے، مسافر اور مریض اگر جمعہ کی نماز میں حاضر ہوجائیں، تو نماز ادا ہوجائے گی۔ ورنہ ان حضرات کو جمعہ کی نماز کی جگہ ظہر کی نماز ادا کرنی ہوگی۔ اگر آپ صحرا میں ہیں، جہاں کوئی نہیں، یا ہوائی جہاز میں سوار ہیں، تو آپ ظہر کی نماز ادا فرمالیں۔ نمازِ جمعہ کی دو رکعات فرض ہیں، جس کے لیے جماعت کی نماز شرط ہے۔ جمعہ کی دونوں رکعات میں جہری قرأ ت ضروری ہے۔
٭ جمعہ کی چند سنتیں:۔ جمعہ کے دن غسل کرنا واجب یا سنت مؤکدہ ہے، یعنی عذر شرعی کے بغیر جمعہ کے دن کے غسل کو نہیں چھوڑنا چاہیے۔ پاکی کا اہتمام کرنا، تیل لگانا، خوشبو استعمال کرنا اور حسبِ استطاعت اچھے کپڑے پہننا سنت ہے۔نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جمعہ کے دن کا غسل گناہوں کو بالوں کی جڑوں تک سے نکال دیتا ہے، یعنی چھوٹے گناہ معاف ہوجاتے ہیں، بڑے گناہ بغیر توبہ کے معاف نہیں ہوتے۔ اگر چھوٹے گناہ نہیں ہیں تو نیکیوں میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ (طبرانی، مجمع الزوائد)
نبی اکرمﷺ نے ارشاد فرمایا: جو شخص جمعہ کے دن غسل کرتا ہے، جتنا ہوسکے پاکی کا اہتمام کرتا ہے اور تیل لگاتا ہے یا خوشبو استعمال کرتا ہے، پھر مسجد جاتا ہے، مسجد پہنچ کر جو دو آدمی پہلے سے بیٹھے ہوں، ان کے درمیان میں نہیں بیٹھتا اور جتنی توفیق ہو جمعہ سے پہلے نماز پڑھتا ہے۔ پھر جب امام خطبہ دیتا ہے، اس کو توجہ اور خاموشی سے سنتا ہے، تو اس شخص کے اس جمعہ سے گذشتہ جمعہ تک کے گناہوں کو معاف کردیا جاتا ہے۔ (بخاری)
نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس نے جمعہ کے دن غسل کیا، پھر مسجد میں آیا، اور جتنی نماز اس کے مقدر میں تھی ادا کی، پھرخطبہ ہونے تک خاموش رہا اور امام کے ساتھ فرض نماز ادا کی، اس کے جمعہ سے جمعہ تک اور مزید تین دن کے گناہ بخش دیے جاتے ہیں۔ (مسلم)
٭ نمازِ جمعہ چھوڑنے پر وعیدیں:۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے نماز جمعہ نہ پڑھنے والوں کے بارے میں فرمایا: میں چاہتا ہوں کہ کسی کو نماز پڑھانے کا حکم دوں پھر جمعہ نہ پڑھنے والوں کو ان کے گھروں سمیت جلا ڈالوں۔ (مسلم)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: خبردار! لوگ جمعہ چھوڑنے سے رُک جائیں، یا پھر اللہ تعالا ان کے دلوں پر مہر لگادے گا۔ پھر یہ لوگ غافلین میں سے ہوجائیں گے۔ (مسلم)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس شخص نے تین جمعہ غفلت کی وجـہ سے چھوڑ دیے، اللہ تعالا اس کے دل پر مہر لگا دے گا۔ (نسائی، ابن ماجہ، ترمذی، ابوداود)
٭ جمعہ کے دن یا رات میں سورۂ کہف کی تلاوت:۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جو شخص سورۂ کہف کی تلاوت جمعہ کے دن کرے گا، آئندہ جمعہ تک اس کے لیے ایک خاص نور کی روشنی رہے گی۔ (نسائی، بیہقی، حاکم)
سورۂ کہف کے پڑھنے سے گھر میں سکینت وبرکت نازل ہوتی ہے۔ حضرت براء بن عازبؓ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ ایک صحابیؓ نے سورۂ کہف پڑھی، گھر میں ایک جانور تھا، وہ بدکنا شروع ہوگیا، انہوں نے غور سے دیکھا کہ کیا بات ہے؟ تو انہیں ایک بادل نظر آیا جس نے انہیں ڈھانپ رکھا تھا۔ صحابی نے اس واقعہ کا ذکر جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے کیا، تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: سورۂ کہف پڑھا کرو۔ قرآن کریم پڑھتے وقت سکینت نازل ہوتی ہے۔ (بخاری ومسلم)
٭ جمعہ کے دن درود شریف پڑھنے کی خاص فضیلت:۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: تمہارے دنوں میں سب سے افضل جمعہ کا دن ہے۔ اس دن کثرت سے درود پڑھا کرو۔ کیوں کہ تمہارا درود پڑھنا مجھے پہنچایا جاتا ہے۔ (مسند احمد، ابوداود، ابن ماجہ، صحیح ابن حبان)
نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جمعہ کے دن اور جمعہ کی رات کثرت سے درود پڑھا کرو، جو ایسا کرے گا میں قیامت کے دن اس کی شفاعت کروں گا۔ (بیہقی)
٭ جمعہ کے دن یا رات میں انتقال کرجانے والے کی خاص فضیلت:۔ نبی اکرمؐ نے ارشاد فرمایا: جو مسلمان جمعہ کے دن یا جمعہ کی رات میں انتقال کرجائے۔ اللہ تعالا اس کو قبر کے فتنہ سے محفوظ فرمادیتے ہیں۔ (مسند احمد، ترمذی)
اس نوعیت کی حدیث کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہوتا ہے کہ جو شخص بھی جمعہ کے دن انتقال کرجائے اسے یہ فضیلت حاصل ہوجائے گی۔
…………………………………………..
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔