طلبہ

اس لفظ کو عموماً ’’طلبا‘‘ لکھا جاتا ہے بلکہ کچھ لوگ تو اسے ’’طلباء‘‘ تک لکھ دیتے ہیں۔
رشید حسن خان اپنی کتاب ’’اُردو کیسے لکھیں؟ (صحیح املا)‘‘ کے صفحہ نمبر 25 پر لکھتے ہیں: ’’طالب کی جمع ’’طلبہ‘‘ ہے۔ اِس کو ’’طلبا‘‘ نہیں لکھنا چاہیے۔ مثلاً: ’’درجۂ پنجم کے طلبہ نے فیصلہ کیا ہے۔‘‘ اِس کو اِس طرح لکھنا کہ ’’درجۂ پنجم کے طلبا نے فیصلہ کیا ہے۔‘‘ غلط ہوگا۔‘‘
نوراللغات میں ’’طلبہ‘‘ کے معنی طالب کی جمع، طالب علم اور شاگرد کے ہیں (جمع مستعمل ہے۔) نیز یہ تفصیل بھی دی گئی ہے: ’’اس جگہ طُلَبَا بروزنِ اُمراء غلط ہے۔ کیوں کہ وہ جمع طلیب کی ہے، طلیب کے معنی بہت ڈھونڈنے والا۔
البتہ فرہنگِ آصفیہ کے مطابق ’’طلبہ‘‘ اور ’’طلبا‘‘ دونوں الفاظ دُرست ہیں۔