آج سے قریباً چالیس سال پہلے ہم نے ’’نیا راستہ‘‘ نامی ایک اردو فلم دیکھی تھی۔ پاکستان فلم انڈسٹری کا خوبرو اور دراز قد اداکار محمد علی (مرحوم) اس فلم کا ہیرو تھا۔ محمد علی صاحب پردیس میں ہوتے ہیں۔ فلم کی ہیروئین شبنم کو ان کا خط ملتا ہے تو وہ اس خط کو چومتی ہوئی خوشی سے ایک گانا گاتی ہے جس کے ابتدائی بول کچھ اس طرح کے ہیں
خط پڑھ کے تیرا آدھی ملاقات ہوگئی
وقت تیزی سے گزرتا جا رہا ہے۔ لمحات کی اڑان نہایت تیز ہے اور عمرِ عزیز پلک جھپکتے ہی گزر جاتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ماحول اور کلچر میں بھی تیزی سے تبدیلی اور انقلاب آتے ہیں۔ کبھی کبھی ہمارے ذہن پر بھی ’’نوسٹلجیا‘‘ کا غلبہ ہو جاتا ہے اور یہ پرانی یادوں میں محو ہو جاتا ہے اور پرانی ثقافت اور ماحول ہمارے ذہن پرچھا جاتے ہیں۔ جب ہم اسکول میں پڑھتے تھے تو اڑوس پڑوس کے گھرانے اور بزرگ اپنے پردیسی پیاروں کو خطوط لکھتے، تو یہ خدمت عموماً ہم ہی سرانجام دیتے۔ عرصہ ہوا جب ہم کسی اسکول میں ڈیوٹی پر ہوتے تو کوئی نہ کوئی ہم سے خط لکھواتا لیکن ایک مدت سے یہ موقع نہیں ملا۔ شاید فی زمانہ اس کی ضرورت ہی نہ رہی ہو۔ کیوں کہ اب انسان علم اور جستجو کی معراج کو چھو چکا ہے۔ الیکٹرانک میڈیا نے کمیونیکیشن کی دنیا میں انقلاب برپا کر دیا ہے۔ ریڈیو پاکستان پشاور سے پشتو کی ایک معروف گلوکارہ کی آواز میں ایک پشتو گانا ہے۔
وا منشی زما لالی تہ اولیکہ چِھٹئی
استوومہ زہ ورتہ چہ راشی پہ چُھٹئی
نہایت پُرسوز طرز پر گایا جاتا تھا لیکن عرصہ ہوا وہ گانا سنائی نہیں دے رہا۔ شاید جدید تقاضوں اور نئے رجحانات کی پیشِ نظر اس کی ضرورت نہ رہی ہو۔ غور کریں، موبائل کے ایک کلک اور نیٹ پر ایک پیغام سے خط لکھنے کی روایت کس طرح دم توڑ گئی۔ ذرا یہ منظر چشم تصور میں لائیں۔ ایک منشی لب راہ بیٹھا ہے۔ اس کے سامنے کاغذات کا پلندہ پڑا ہوا ہے اور ایک چوبی چوکھٹے (تختہ) پر قلم اور دوات رکھے گئے ہیں۔ بڑی بوڑھیاں، باپردہ بیبیاں اور دوسرے بزرگ و حضرات اپنے پردیسی عزیزوں کو خطوط بھیجنے کے لیے منشی کے سامنے خط لکھوانے کی غرض سے انتظار میں بیٹھے ہیں۔ شام کا وقت ہے ڈاکیا بابو کاندھے سے خطوط کی تھیلی لٹکایا ہوا جلدی جلدی جارہا ہے۔ اور ہر گھر، ہر در اور چھپر میں خطوط پھینکتا چلا جارہا ہے۔ ذرا ذہن کو جھٹک دیجیے یہ سب کچھ اور طویل پراسس الیکٹرانک میل نے سیکنڈوں میں سر انجام دیا۔
بغیر چین کور کے خستہ کاٹھی والی سائیکل پر سوار خاکی وردی میں ملبوس ڈاکیا بابو شاید نسل نو کے لیے عجوبہ ہو یا گاؤں کا پارٹ ٹائم ڈاکیا یعنی اسکول ماسٹر (استاد صاحب، استاد جی) اب بھی پرانی نسل کے ذہن میں محفوظ اور قابل احترام ہے جو مارننگ اسمبلی میں شاگردوں میں ان کے پردیسی پیاروں کے خطوط تقسیم کرتا یا اسکول کے ہیڈ ماسٹر صاحب کے دفتر سے طلبہ اپنے پردیسی رشتہ داروں کے بھیجے ہوئے والا نامے وصول کرتے اور ہاں! امن کی علامت وہ کبوتر جو پریمیوں کے خطوط اور رومان بھرے پیغامات نہایت انہماک اور ذمہ داری سے لاتا لے جاتا۔ اب تو ڈاک، ڈاک خانہ، ڈاک بنگلہ، ڈاک چوکی، ڈاکیا بابو اور منی آرڈر جیسی اصطلات سے موجودہ دور کا انسان نا آشنا ہوتا جارہا ہے۔ خاکی وردی میں ملبوس ڈاکیا بابو جب کھیتوں، کھلیانوں اور آبادیوں کے پیچ پگڈنڈیوں پر تیز چلتا ہوا نمودار ہوتا تو لوگ اُسے دلی خوش آمدید کہتے ’’اور بابو صاحب! بیٹھیے بیٹھیے، چائے لسی وغیرہ پیجیے‘‘ کہتے۔ لیکن ڈاکیا بابو کے پاس اتنا وقت کہا ہوتا وہ تو لوگوں کو ان کے پردیسی پیاروں کے خطوط پہنچاتا۔ وقت کا انقلاب اور اس کا تقاضا دیکھیے۔
اب تو ’’ویر‘‘ کا خط نہیں آتا اور گاؤں کی ’’مٹیار‘‘ اپنے پردیسی (لالی) کو چِٹھی لکھنے کی بجائے اسے ’’مسڈ کال‘‘ دے کے آدھی ملاقات کرتی ہے۔ جب گاؤں کی ’’کُڑی‘‘ کو اپنے پردیسی بابو کا خط ملتا، تو وہ کبھی کبھار خوشی سے جھومتی گاتی، سکھیوں کے سنگ ترنگ میں آکر گاتی کہ
خط می راغلے د جانان دے سہ ئے پہ کی لیکلی دی
خوری شرمیگم درتہ نہ وایم حالونہ دی کی چل دے
لیکن اب تو ایک کلک سے اپنے پردیسی (جانان) سے ملاقات ہوسکتی ہے۔ اب ’’مَنی آرڈر‘‘ نہیں بلکہ ایزی پیسہ اور بینک ڈرافٹ کا کلچر اور سسٹم ہے اور پردیسوں کو خط لکھنے کی بجائے الیکٹرانک میل یعنی برقی ڈاک کے ذریعے آدھی ملاقات ہوجاتی ہے۔
برصغیر پاک و ہند میں خطوط اور ڈاک کا سلسلہ 1840ء سے جاری ہے۔ ہمیں ابھی تک ایک آنے کا پوسٹ کارڈ اور دو آنے کا لفافہ یاد ہے۔ خدا کرے کہ ڈاکیا بابو ہمیں پھر روز گلیوں میں پھرتا خطوط تقسیم کرتا نظر آئے۔ اے کاش
آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے لب پہ آسکتا نہیں
محوِ حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہو جائے گی