یہ ماہِ اکتوبر کا آخری عشرہ تھا۔ جب ہم ملتان سے صبح سویرے بہاولپور کے لیے نکلے۔ صحرائے چولستان جس کو مقامی لوگ ’’روہی‘‘ کہتے ہیں، پنجاب سے ہوتے ہوئے سندھ میں شامل ہوکر بھارتی ریاست راجستھان پر ختم ہوتا ہے۔ یوں یہ صحرا دنیا کے بڑے صحراؤں میں شمار کیا جاتا ہے۔ اس کا اکثریتی حصہ پنجاب کے موجودہ شہر اور پرانی "آزاد ریاستِ بہاولپور” میں شامل ہے۔ پاک فوج سے سبک دوش ہونے والے اکثر جرنیلوں کو یہاں وسیع رقبہ پر قطعاتِ زمین دیے جاتے ہیں۔
یہاں چہار سو صرف ریت ہی ریت ہے۔ شہباز شریف نے یہاں ایک بہترین سڑک بنوائی ہے جس کی وجہ سے ان زمینوں تک رسائی آسان ہوچکی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سڑک کے دونوں جانب واقع زمینوں کو ہموار کرنے کا کام تندہی سے جاری ہے۔ جو زمین تیار ہوچکی ہے، وہاں مختلف فصلیں اور مچھلیوں کے تالاب بنائے گئے ہیں۔ صحرا میں یہ ہریالی جو ایک نہری نالے کی مرہونِ منت ہے، واقعی حیران کن ہے۔ اگر یہ صحرائی زمین آباد ہوتی ہے، تو پاکستان غذائی اجناس میں خود کفیل ہوسکتا ہے۔ اگر حکومت بیدار اور عوام پرست ہوجائے، تو کوئی وجہ نہیں کہ عوام کو سستے داموں اشیائے خور و نوش مل سکیں۔
آج اس صحرا میں ہماری منزل ’’قلعۂ دراوڑ‘‘ تھی جو بہاولپور کی تحصیل احمد پور شرقیہ میں واقع ہے۔ چہار سو پھیلے وسیع صحرا میں واقع یہ نویں صدی عیسوی سے قبل تعمیر کیاگیا تھا۔
کچھ غیر مصدقہ تاریخی حوالوں کے مطابق اس قلعے کو ایک ہندو راجپوت راجہ رائے ججہ بھٹی جو ڈیرہ سدہ نے تعمیر کرایا تھا۔ موصوف ہندو کا نام بگڑتے بگڑتے دیر، را، وڑ یعنی دراوڑ ہوگیا جو وقت کے ساتھ منہدم بھی ہوگیا۔
قلعے کے باہر نصب محکمۂ آثارِ قدیمہ پنجاب کے بورڈ کے مطابق انہی بنیادیوں پر موجودہ قلعے کو نواب صادق محمد خان اول نے 1733ء میں تعمیر کرایا۔
یاد رہے نواب صادق محمد خان ریاستِ بہاولپور کے بانی حکمران تھے۔ ریاستِ بہاولپور ایک مال دار ریاست تھی اور پاکستان بننے کے بعد ایک آزاد حیثیت میں موجود تھی۔
بہاولپورمیں واقع عباسی خاندان کے محلات یعنی نور محل، گلزار محل، درباری محل اور صادق پبلک سکول جیسی عظیم درسگاہ سمیت دیگر تعمیرات سے اس عظیم ریاست کے بادشاہوں کی وسعت نظری اور ذہانت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
بہرحال قلعۂ دراوڑ مختلف اوقات میں 1966ء تک ریاستِ بہاولپور کے حکمرانوں کے زیرِ تسلط رہا۔ اگرچہ آج بھی اس قلعے کے نگران ریاستِ بہالپور کے (نام نہاد) نواب یعنی نواب صلاح الدین عباسی اور ان کے صاحبزادے عثمان عباسی اور فیض الرشید عباسی ہیں۔
مگر وہ بات کہاں مولوی مدن کی سی
بہرحال یہ قلعہ اپنی موجودہ زبوں حالی کے باوجود عباسی ریاست کی شان و دبدبے کی ایک زندہ مثال ہے۔ اس قلعے کی دیواریں زمین سے تقریباً 100 فٹ بلند اور 686 فٹ تک طویل ہیں۔ قلعے کی دیواروں میں 39 بلند برج موجود ہیں۔ انہی برجوں پر چڑھ کر ہر سو صحرا ہی صحرا نظر آتا ہے۔ ماسوائے مشرق،جہاں شاہی قبرستان واقع ہے، جس میں سنگ مرمر سے بنی قبریں دور سے نظر آتی ہیں۔
قریب ہی شاہی مسجد کا زردی مائل سنگ مرمر گردشِ ایام کی کہانی سنا رہا ہے۔ قلعے میں جانے سے پہلے ہم نے شاہی مسجد میں نماز ادا کی، جس کے سجدے میں یک گونہ راحت کا احساس ہوا۔
قلعۂ دراوڑ میں ایک شیش محل بھی ہے، جو سب سے اونچا تعمیر کیا گیا ہے۔ اس سے سارا علاقہ صاف نظر آتا ہے۔ مَیں بمشکل وہاں تک بھی پہنچا، لیکن آثارِ قدیمہ کا قفل شدہ دروازہ اور ایک لٹکتا ہوا بورڈ ہی نظر آیا جس پر لکھا تھا ’’بوجۂ تعمیر بند ہے!‘‘
یہاں سے مایوس ہوکر قلعے کے اندر زیرِ زمین راستوں میں چہل قدمی کی۔ ساتھ ساتھ دماغ میں یہ بات بھی چلتی رہی کہ بادشاہتوں میں سازشوں کی سلطنت ہر وقت آباد رہتی ہے۔ اس لیے تقریباً ہر ملک میں واقع ہر قلعے میں زیرِ زمین راستے بنائے جاتے تھے، تاکہ بغاوت کے وقت بادشاہ کو بچایا جاسکے۔
قارئین، راقم نے تو یورپی ملک جرمنی کے ایک شہر میں واقع صدیوں پرانے قلعے میں ایک زیرِ زمین حمام بھی دیکھا ہے، جو اب بھی درست حالت میں موجود ہے۔
قصہ مختصر، بہاولپور میں قلعہ دراوڑ سمیت اور بھی بہت سارے مقامات ہیں جو عباسی بادشاہت کے عروج و زوال کی انمٹ کہانی ہیں۔
………………………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔