بات چاہے کسی جرم کی روک تھام کی ہو رہی ہو، یا معاشرے میں موجود کسی اور خرابی کے مستقل حل کی تلاش کی، ہمارا معاشرہ روزِاول سے ہر چھوٹے بڑے مسئلے کے حل کے لیے کسی ’’شارٹ کٹ‘‘ سے کام لیتا ہے۔
یہاں پر ایک کم سن بچی یا بچے کے ساتھ جنسی زیادتی کا واقعہ پیش آئے، تو آپ کو ’’ریپ کی سزا موت‘‘ جیسے جذباتی جملوں کا تبادلہ کرتے لوگ نظر آئیں گے۔ کسی گلی محلے میں کوئی معمولی سا چور پکڑا جائے، تو بھی پورا معاشرہ ’’چور کا ہاتھ کاٹ دو‘‘ جیسے گرما گرم جملے گردانتے گونج اٹھتا ہے۔
یہی وہ ’’شارٹ کٹ‘‘ ہیں جس نے معاشرے کو مزید گھٹن زدہ اور بے حس بنا دیا ہے۔
یعنی معاملہ چاہے کتنی بھی سنگین قسم کا کیوں نہ ہو، ہم مسائل کی وجوہات اور محرکات کو ڈھونڈنے اور اُن کا مستقل حل تلاش کرنے کے بجائے ہمیشہ جذبات کو درمیان میں حائل کرکے کسی ’’شارٹ کٹ‘‘ کی تلاش میں رہتے ہیں اور ساتھ ساتھ یہ اُمید بھی لگائے بیٹھتے ہیں کہ ایسے شارٹ کٹ ہمارے معاشرے میں مفید بھی ثابت ہوں گے۔
اس کی مثال ایسی ہے کہ ایک طرف آپ دہشت گردی کو عسکری آپریشن کے ذریعے تو ختم کرنا چاہتے ہیں، لیکن دوسری طرف معاشرے میں موجود دہشت گردانہ سوچ، ذہنیت اور دہشت گردی کی وجوہات پر کان نہیں دھرتے۔ غرض یہ کہ جب تک دہشت گردی سے جڑی ذہنیت قائم ہے، دہشت گردی کے واقعات ہوتے رہیں گے۔ اس کا راستہ روکنا ناممکن ہی ہوگا۔
ابھی پچھلے دنوں لاہور موٹروے پر ایک خاتون کے ساتھ جنسی زیادتی کا واقعہ پیش آیا۔ اس واقعے کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے، مذمت کے ساتھ اس میں ملوث مجرموں کو کڑی سے کڑی سزا ملنی چاہیے ۔ اس واقعہ کے پیش آنے کے بعد ہمیشہ کی طرح اس بار بھی جذباتی جملے بازی سننے کو ملی۔ کوئی ریپ کرنے والے کے لیے سزائے موت تجویز کر رہا ہے، تو کوئی اُسے نامرد بنانے پر اڑا ہے۔ اس تمام تر صورت حال میں کسی نے اس بات کی طرف توجہ ہی نہیں دی کہ ہمارے ہاں ایسے واقعات کیوں رونما ہوتے ہیں؟ کیا سخت سزاؤں سے معاشرے میں موجود جرائم ختم ہوئے ہیں یا کبھی کم ہی ہوئے ہیں؟
کیا ہمارے ہاں ایسے واقعات کے پیش آنے کی وجہ صرف اور صرف سخت سزاؤں کی عدم موجودگی ہے؟
اسی قسم کے دیگر سوالات کے جوابات ڈھونڈنے کے لیے ہمیں ان ممالک اور معاشروں کی طرف دیکھنے کی ضرورت ہے، جہاں پر پھانسی اور دیگر سخت سزاؤں کی عدم موجودگی کے باوجود جرائم کی شرح بہت کم ہے اور جیلیں خالی پڑی ہوئی ہیں۔
غرض یہ کہ تعلیم و تربیت سے عاری معاشروں میں سخت سزاؤں کی موجودگی کے باوجود جرائم کم نہیں ہوتے۔ یعنی مسئلہ سزاؤں کی عدم موجودگی میں نہیں کہیں اورہے ۔
قارئین، کہنے کا مقصد یہ ہے کہ شدت پسندی کو شدت پسندی سے نہیں روکا جاسکتا، جب تک شدت پسندی کی وجوہات سامنے نہیں آتیں، جب تک معاشرے میں موجود شدت پسندانہ سوچ کو تعلیم و تربیت کے ذریعے ختم نہیں کیا جاتا، جب تک اخلاقی اقدار کو بڑھاوا نہیں دیا جاتا، تب تک کے لیے کوئی بھی ’’شارٹ کٹ‘‘ اختیار کرنا مزید تباہی کے سوا کچھ نہیں۔
……………………………………………..
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔